تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     28-09-2022

یوکرین جنگ اور یورپ کا مستقبل

دنیا کے ترقی یافتہ براعظم یورپ میں جاری یوکرین کی ہولناک جنگ نے صرف چھ ماہ میں مغربی ممالک کی مضبوط معیشتوں اور خوشحال سماجی زندگی کو زوال آشنا کر دیا ہے۔ اگر روس کی جانب سے انرجی کی ترسیل بند رہی تو آنے والی سردیوں میں یورپی شہریوں کو روس پر پابندیوں کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ فروری میں روس کے یوکرین پر حملے سے پہلے ہی یورپ میں مہنگائی پر تشویش پائی جاتی تھی، جسے کورونا کے مابعد اثرات اور عارضی لہر سمجھ کے نظرانداز کر دیا گیا لیکن اب یہ گہرے بحران کی علامت بن کر ہر گزرتے دن کے ساتھ انحطاط کی پیشگوئی بنتی جا رہی ہے۔ ماسکو کی جانب سے جرمنی کو گیس کی سپلائی عارضی طور پر معطل کرنے کے نتیجے میں گیس کی قیمتیں نمایاں حد تک بڑھ گئی ہیں۔ ایک حالیہ جائزے سے پتا چلتا ہے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پچھلے دو ماہ میں جرمنی اور فرانس میں کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔ یورو ڈالر کے مقابلے میں 20 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا ہے جس سے بین الاقوامی منڈیوں میں توانائی کی خریداری زیادہ مہنگی ہونے لگی ہے۔ جرمنی کے مرکزی بینک کی پیش گوئی کے مطابق‘ افراطِ زر کی شرح‘ جو اس وقت 7.5 فیصد ہے‘ موسم سرما میں دہرے ہندسے تک پہنچ جائے گی۔ امریکہ کے سٹی بینک گروپ نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023ء تک برطانیہ میں افراطِ زر 18.6 فیصد کی تباہ کن حد تک پہنچ جائے گا۔ بلجیم کے وزیراعظم الیگزنڈر ڈی کرُو نے خبردار کیا ہے کہ اگلی پانچ یا دس سردیاں مشکل ترین ہوں گی؛ چنانچہ یوکرین جنگ کے چھ ماہ بعد ایک نئی بحث یورپ کو لپیٹ میں لے رہی ہے۔
اس غیر متوقع جنگ نے یورپی یونین کے اتحاد میں بھی ایسی دراڑیں ڈال دیں جو جنگ کی طوالت کے ساتھ مزید گہری ہوتی جائیں گی۔ اب تک کی رپوٹس کے مطابق یوکرین اپنے 20فیصد علاقوں کا کنٹرول روسی افواج اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا ہے‘ اس جنگ میں ہزاروں سویلین ہلاکتوں کے علاوہ 66لاکھ شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے یوکرین کی زرعی پیداوار میں غیر معمولی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے وہ ممالک بھی‘ جو یوکرین سے درآمدات پر انحصار کرتے تھے‘ مشکلات میں گِھرگئے ہیں۔
یوکرین کے پولیس چیف کے مطابق روسی حملے کے دوران صرف دارالحکومت کیف میں 1500سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ کئی مہینوں کے روسی محاصرے کی وجہ سے برباد ہونے والے جنوبی شہر ماریوپول میں 22 ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے ہیں جن کی تصدیق عینی شاہدین کی گواہی، اجتماعی قبروں کی سیٹلائٹ تصاویر اور گلیوں میں بکھری لاشوں کی فوٹیج سے ہوتی ہے۔ اگرچہ روس اور یوکرین‘ دونوں اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعدادکو انتہائی خفیہ رکھتے ہیں؛ تاہم امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک اس جنگ میں 9 ہزار یوکرینی اور 25 ہزار روسی فوجیوں کی ہلاکت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کا اس سے کہیں زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ امریکی رپورٹس کی غیرجانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ یہ بھی واضح رہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک یوکرین کے نقصان کو جان بوجھ کر گھٹا کر اور روسی نقصان کو بڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔ یوکرین پر حملے سے قبل روس کے پاس تقریباً 9 لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فعال فوجی دستے تھے۔ برطانوی حکام نے اندازہ لگایا کہ ابتدائی حملہ آور فورس میں تقریباً 3 لاکھ روسی فوجی استعمال ہوئے جن میں سپورٹ یونٹس بھی شامل تھے۔ امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ روس نے 85 فیصد کے قریب فوج کو جنگ کیلئے تیار کیا۔ اقوام متحدہ کے ایک تازہ ترین تخمینے کے مطابق یوکرین سے جن 66 لاکھ شہریوں نے نقل مکانی کی ہے ان میں سے 38 لاکھ سے زیادہ نے یورپ میں عارضی تحفظ کی قومی سکیموں میں اندراج کرایا ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ یوکرین میں تقریباً 70 لاکھ افراد اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں جبکہ 1 کروڑ30 لاکھ شہری اب بھی جنگی علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کیف سکول آف اکنامکس کی تحقیق کے مطابق فروری سے لے کر اب تک یوکرین میں روسی گولہ باری اور میزائل حملوں سے 1 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ عمارتوں اور 311 پلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ 1 لاکھ 88ہزار نجی کاریں تباہ ہوئی ہیں، 15400میل سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ جن عمارتوں کوجزوی نقصان پہنچا یا جنہیں ضبط کیا گیا ان کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1 لاکھ 15 ہزار نجی مکانات، 15 ہزار اپارٹمنٹس، 2290 تعلیمی اداروں، 1991 دکانوں، 27 شاپنگ مالز، 934 ہسپتالوں، 715 پارکس، 511 دفتری عمارتوں، 28 آئل ڈپوؤں اور 18سویلین ہوائی اڈوں پر بھی قبضہ کیا جا چکا ہے۔
یوکرینی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی قبضے سے کچھ علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے جس میں مشرقی صوبہ لوہانسک اور جنوب میں کھیرسن کا خطہ بھی شامل ہے۔ جنگ کی فرنٹ لائن جنوبی یوکرین سے مشرقی صوبہ ڈونیٹسک سے ہوتی ہوئی شمال مشرقی شہر خارکیف‘ تقریباً 1500 میل تک پھیل چکی ہے۔ اگست کے وسط میں جنرل زلوزنی نے کہا تھا کہ روسی افواج جنوب اور مشرق میں روزانہ 700 سے 800 یوکرینی ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ کیف سکول آف اکنامکس کے مطابق عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں یوکرینی معیشت کو 113.5 بلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ تعمیرِنو اور بحالی کیلئے 200 بلین ڈالرز درکار ہوں گے۔ یوکرینی حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف ضروری خدمات اور تباہ حال معیشت کو چلانے کے لیے ماہانہ اسے 5 بلین ڈالرز کی ضرورت پڑے گی۔ یہ اعداد و شمار موسمِ خزاں اور سردیوں میں مزید بڑھ جائیں گے اور بالآخر بحالی کے لیے مجموعی طور پر 750 بلین ڈالرز چاہئیں ہوں گے۔ امریکہ نے یوکرین کو مجموعی طور پر 54 بلین ڈالر سے زیادہ کی مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے 24 فروری کو بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو 9.9 بلین ڈالر سے زیادہ کی جو فوجی امداد دی تھی‘ اس میں درجنوں بکتر بند گاڑیاں، آرٹلری سسٹم، ہزاروں گولے اور راکٹ لانچرزکے علاوہ ایسا جدید راکٹ سسٹم بھی شامل تھا جس کے بارے مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین کے لیے یہ روسی سپلائی لائنوں میں خلل ڈالنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ کیل انسٹیٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی کے مطابق دوسری سب سے بڑی فوجی امداد برطانیہ کی جانب سے دی گئی تھی۔ یورپی یونین کے ادارے 2.5 بلین ڈالر، پولینڈ 1.8 بلین ڈالر اور جرمنی نے 1.2 بلین ڈالر کی امداد بھیجی۔ کیل محققین کے مطابق یورپی اداروں نے یوکرین کو مجموعی طور پر 12.3 بلین ڈالر کی مالی امداد دینے کا وعدہ کیا۔ امریکی امداد میں یوکرین کی حکومت کو 8.5 بلین ڈالر کی براہ راست بجٹ سپورٹ بھی شامل ہے جو اقساط میں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ امریکہ یوکرین کو 1.5 بلین ڈالر سے زیادہ کی اضافی امداد مہیا کرے گا۔ مجموعی طور پر ڈونر ممالک نے یوکرین کے لیے 83 بلین ڈالر سے زیادہ کی مدد کا وعدہ کیا ہے؛ تاہم کیل انسٹیٹیوٹ کے ماہرِ معاشیات کرسٹوف ٹریبیش کا کہنا ہے کہ یوکرین میں پیسہ بہت آہستہ آہستہ پہنچ رہا ہے، جو جنگ کے حوالے سے باہمی اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈِس انفارمیشن ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا میں جنگ کے بارے میں غلط معلومات اور بعض اوقات متضاد بیانیے کا مقصد صرف ناظرین کو یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس جنگ میں روسی جارحیت پشیمانی اور شکست کے خطرات سے دوچار ہے جس کا مقصد ناظرین کو الجھانا اور عدم اعتماد کا بیج بونا ہے تاکہ ناظرین و سامعین کو یقین نہ رہے کہ کس بات پر یقین کرنا ہے۔ اگرچہ کسی بھی جنگ کے دوران ہلاکتوں کے درست اعداد و شمار حاصل کرنا دشوار ہوتا ہے، لیکن کچھ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا‘ امریکی رپورٹس کے برعکس‘ اندازہ ہے کہ روس کے 10 ہزار فوجی ہلاک اور 30 ہزار زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی کانگرس نے پنٹاگون پر زور دیا کہ وہ یوکرین کی ڈرون کی درخواست پر نظرثانی کا عمل تیز کرے۔ امریکی کانگرس کے سترہ اراکین نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کی جانب سے بڑے ڈرونز کیلئے پیٹاگون کے سکیورٹی جائزے میں تیزی لائیں۔ بائیڈن انتظامیہ کا یوکرین کو ایسے چار ڈرون فروخت کرنے کا منصوبہ جون میں اس خدشے کی وجہ سے التوا میں پڑ گیا تھا کہ بغیر پائلٹ کے جدید ترین نگرانی کی ٹیکنالوجی کا حامل ڈرون روس کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved