ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ 2018ء میں جب مسلم لیگ نواز کی حکومت ختم ہوئی تھی تو اس وقت بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار 19 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے کسی نئے ممکنہ عبوری سیٹ اَپ کیلئے ان کا نام کثرت سے لیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے جو کچھ کہا‘ جو مسلم لیگی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان تو ہے ہی ‘ اس سے عمران خان اور تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے اس موقف کی بھی تائید ہوتی ہے کہ انہیں ملکی معیشت اس حالت میں ملی تھی کہ معاشی طور پر ملک دیوالیہ ہو چکا تھا اور انہوں نے ہزار جتن کرنے کے بعد اسے ابھی سہارا دیا ہی تھا کہ ان کے پائوں تلے سے قالین کھینچ کر ان کی تمام محنت پر پل بھر میں پانی پھیر دیا گیا۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا کہ ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آگے کیا ہو گا۔ عمران خان کے پیشِ نظر یقینا یہ حالات تھے اور اسی لیے انہوں نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے سازش کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اس وقت ملکی سیاسی حالات میں ارتعاش پیدا کیا گیا تو معیشت کو گہرائیوں میں لڑھکنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ہونی اگرچہ ہو کر رہی مگر عمران خان کا خدشہ بالآخر درست ثابت ہوا۔ پی ڈی ایم نامی بھان متی کے کنبے نے اس وقت پاکستان اور اس کے عوام کا ایسے بھرکس نکالا ہے کہ بائیس کروڑ سے زائد لوگ ہچکیاں لے لے کر رو رہے ہیں۔ یہ کوئی لفاظی نہیں ہے۔ جنہیں ان الفاظ پر شک ہے‘ وہ کچے پکے دیہات اور قصبوں سمیت شہروں کے متوسط اور نچلے طبقے کے لاکھوں خاندانوں کے گھروں میں جھانک کر دیکھ لیں۔ وہ گھرانے جن کی ماہانہ آمدنی بیس‘ تیس ہزار سے ساٹھ‘ ستر ہزار روپے تک ہے، وہ بجلی کے بل ہاتھوں میں پکڑ کر سوال کناں ہے کہ انہیں حیات کی صورت میں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ نچلے طبقات کے گھروں کو گزشتہ دو‘ تین ماہ سے بجلی کا بل کہیں دس سے بیس ہزار تو کہیں چالیس سے پچاس ہزار روپے تک بھیجا جا رہا ہے۔ میں حلفیہ طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ بیان نہیں کیے جا سکتے۔ صرف بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے غربت اور افلاس اپنی زندگی گروی رکھنے پر مجبور ہو چکی ہے۔
2014ء میں میاں نواز شریف حکومت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے۔ سب کو یاد ہو گا کہ انہوں نے اس وقت بڑی شان و شوکت سے امریکہ میں سکوک بانڈز کا اجرا کیا تھا اور اربوں ڈالر کا بوجھ اس غریب قوم پر لاد دیا تھا۔ شاید وہ جانتے تھے کہ اگلے انتخابات کے بعد ان کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا اور جو بھی آئے گا‘ یہ بوجھ اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اگر اس نے یہ قرضہ اتارنے کی کوشش کی تو ہر چیز اس قدر مہنگی ہو جائے گی کہ لوگ پھر سے ہمیں یاد کرنا شروع ہو جائیں گے اور اگر یہ قرضہ نہ اتارا گیا تو ملکی معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ ان کے لیے ہر دو صورتوں میں ''وِن وِن‘‘ صورتحال تھی۔ اپنے تھوڑے سے سیاسی مفاد کے لیے ملکی معیشت کا وہ حال کیا گیا کہ تمام معاشی ماہرین چیختے ہوئے ان کے اقدامات کو ''بارودی سرنگوں‘‘ سے تشبیہ دینے پر مجبور ہو گئے۔ ان کے بعد جو لوگ اقتدار میں آئے انہوں نے اپنا ووٹ بینک کم کرنا تو گوارہ کر لیا‘ اپنی پالیسیوں کو ری وائز کر کے ''یوٹرن‘‘ کا طعنہ تو سہہ لیا، اپنے لیے گالیاں تو برداشت کر لیں لیکن وہ تمام سخت اقدامات کیے جن کی ملک و قوم کو ضرورت تھی۔ سب سے پہلے سکوک بانڈز پر لیا گیا ایک ا رب ڈالر سے زائد قرضہ واپس کیا گیا۔ عمران خان حکومت کی یہ نیک نیتی سٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت ملکی ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان اور ان کی اقتصادی ٹیم کو ان لوگوں کی جانب سے بڑے تواتر سے نااہل کہنا شروع کر دیا گیا۔ ان کی بچھائی ہوئی بساط انہی پر الٹ رہی تھی۔ حقائق لوگوں کے سامنے آ رہے تھے اور سب تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ مسلم لیگ حکومت کے ''تجربہ کار‘‘ وزیر خزانہ نے اپنی نااہلی کے سبب ایسے ایسے فیصلے کیے کہ جن کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑا۔
اس کہانی کو یہیں روک کر ایک نظر 27 ستمبر 2017ء کی ایک خبر پر ڈال لیتے ہیں۔ واضح رہے اس وقت ملک میں مسلم لیگ نواز برسرِ اقتدار تھی اور شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیراعظم تھے۔ خبر کے مطابق ''پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر بدعنوانی کے الزام میں کی گئی تحقیقات کی روشنی میں باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔ عدالت کی سربراہی کرنے والے جج کی طرف سے ان کے خلاف الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔ کہا گیا کہ اسحاق ڈار کے خلاف کی گئی چھان بین سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان کے اثاثوں کے مالیت ان کی طرف سے بتائی گئی ان کی آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس موقع پر وزیر خزانہ نے اپنے خلاف تمام الزامات کی تردید کی۔واضح رہے کہ ملکی قوانین کے مطابق اسحاق ڈار اپنے خلاف عدالتی کارروائی کے باوجود اس وقت تک وزیر کے عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں جب تک عدالت انہیں اپنے فیصلے میں قصور وار قرار نہیں دے دیتی‘‘۔ اس کے چند ہفتوں بعد ڈار صاحب لندن روانہ ہو گئے اور وہاں سے انہوں نے ناسازیٔ طبع کے باعث 3 ماہ کی چھٹی کی درخواست دی جو وزیراعظم شاہد خاقان نے منظور کر لی۔ جنوری 2018ء میں ڈار صاحب کے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایک میڈیکل رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق اسحاق ڈار کو گردن میں تکلیف ہے اور وہ اس تکلیف کے باعث دائیں بازو میں بھی درد محسوس کررہے ہیں۔ وہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں اور علاج کی خاطر لندن میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹرز نے انہیں طویل سفر اور جسمانی مشقت کے کاموں سے گریز کا کہا ہے۔
واپس آتے ہیں بارودی سرنگوں کی طرف۔ پاکستان جیسا قرضوں کے پہاڑ تلے دبا ہوا ملک روزانہ ڈھائی لاکھ ڈالر ایل این جی ٹرمینل کے کرائے کی مد میں ادا کر رہا تھا، عمران خان جیسے 'نا تجربہ کار‘ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے کے ڈیڑھ سال بعد ایسا کمال کر دکھایا کہ ڈھائی لاکھ ڈالر روزانہ کے اس بوجھ سے نجات مل گئی۔ ترکی کی ایک کمپنی سے کیے گئے ایک معاہدے کی خلاف وزری کے سبب حکمرانوں نے پاکستانی عوام کی کمر پر ڈیڑھ ارب ڈالر جرمانہ لاد رکھا تھا۔ عمران خان نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوا کر بھی قومی خزانے کو سکھ کا سانس فراہم کیا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر جرمانہ قوم پر لادنے والے اور ان کے مددگار آج بھی بضد ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کو ناتجربہ کار اور نااہل کے نام سے یاد کرو اور جو اربوں ڈالر خسارے کا پہاڑ کھڑا کر گئے‘ انہیں ذہین و فطین اور تجربہ کار کہہ کر پکارو۔ واضح رہے کہ ہماری معیشت کی چلتی ہوئی سانسیں بند کرنے کیلئے ریکوڈک معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے جرم میں 6 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ بھی ملک پر عائد کیا گیا تھا۔ اب سوچئے کہ غیر تجربہ کار وزیراعظم جیسے ہی حلف اٹھاتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ 19 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ، ایک ارب ڈالر سکوک بانڈ کا، چھ ارب ڈالر ریکوڈک جرمانہ، ڈیڑھ ارب ڈالر ترک کمپنی کے اور ہر روز ڈھائی لاکھ ڈالر ایل این جی ٹرمینل کے کرائے کے۔ اس کے علاوہ گزشتہ دس سالوں میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کیلئے گیارہ ارب ڈالر کا بھاری بھرکم بوجھ اب آپ کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان سب پر مستزاد کورونا‘ جس نے دنیا بھر میں معیشت کو ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ نیت نیک ہو تو رحمتِ خداوندی آگے بڑھ کر مدد کرتی ہے۔ ریاست پر لادے گئے ساڑھے سات ارب ڈالر کے جرمانوں کے علاوہ ڈھائی لاکھ ڈالر روزانہ کا بوجھ بھی ختم کیا گیا، سمارٹ لاک ڈائون سے نہ صرف کورونا سے نمٹا گیا بلکہ معیشت کا پہیہ بھی رواں رکھا گیا۔ ان سب مسائل کے باوجود معاشی نمو کو 6 فیصد کی سطح پر لے جایا گیا، تمام معاشی اشاریے اور ریٹنگز جس وقت مثبت ہو گئیں‘ اس وقت وہ گروہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا‘ جسے اپنی دکان بند ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اس وقت حالات کیا ہیں، سب کے سامنے ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ ڈار صاحب نے سینیٹر کا حلف اٹھا لیا ہے‘ وزیرِ خزانہ کے طور پر ان کی نامزدگی ہو چکی ہے، خدا خیر کرے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved