پاکستان میں تعلیم اور صحت دو ایسے بنیادی مسائل ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ معیارِ تعلیم بہتر ہونے کے بجائے گر رہا ہے۔ اور نظامِ صحت کا ڈھانچا فرسودہ سے فرسودہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اسے مقدس سمجھ کر تحفظ دیا جا رہا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں کیوبا کے کامیاب نظامِ تعلیم کا ذکر کیا تھا۔ یونیسیف اور دیگر عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں جو صحت کے کامیاب ماڈل ہیں‘ ان میں ایک کیوبا کا بھی ہے۔ کیوبا میں ہر شہری کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ کیوبا میں کوئی پرائیویٹ ہسپتال یا نجی کلینک نہیں ہے۔ کیوبا کی حکومت سرکاری طور پر قومی سطح پر قائم نظامِ صحت کی ذمہ دار ہے۔ کیوبا کی مغربی اور روایتی ادویات کی جان کاری اور استعمال کی طویل تاریخ ہے۔ یہ ملک انیسویں صدی کی ابتدا سے مغربی ادویات اور پیشہ ور ڈاکٹرز استعمال کر ر ہا ہے۔ یہاں پر پہلا سرجیکل کلینک 1823ء میں قائم ہوا تھا۔
کیوبا میں انقلاب کے بعد اس کے نظامِ صحت میں بھی کئی انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ انقلاب سے پہلے بھی اس ملک کے پاس اچھا نظامِ صحت تھا۔ 1950ء میں کیوبا میں آبادی کے تناسب سے ڈاکٹروں کی دستیابی برطانیہ‘ فرانس اور نیدر لینڈ سے بہتر تھی۔ ییل یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق لاطینی امریکہ میں صحت کی رینکنگ میں یہ ملک یوراگوئے اور ارجنٹائن کے بعد تیسرے نمبر پر تھا۔ لیکن اس وقت کیوبا کا سب سے بڑا مسئلہ عدم مساوات تھا اور ڈاکٹروں کی کسی علاقے میں دستیابی اسی عدم مساوات کا عکس ہوتی تھی۔ اکثر ڈاکٹر خوشحال‘ بڑے شہروں اور متمول قصبوں میں پریکٹس کرتے تھے۔ جبکہ دیہات کی صورتحال اس اعتبار سے نا گفتہ بہ تھی۔ کسی دیہاتی کو بہت ہی کم صحت کی سہولت میسر ہوتی یا کسی ڈاکٹر تک رسائی ہوتی تھی۔ لیکن اس وقت بھی کیوبا میں کم اموات کی شرح دنیا میں تیسرے نمبر پر تھی‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش کے مطابق کیوبا میں بچوں کی شرحِ اموات لاطینی امریکہ میں سب سے کم تھی؛ تاہم ''کاسترو سے پہلے کیوبا کی حالتِ زار‘‘ نامی اس رپورٹ کو بہت سارے مقامی ماہرین ماننے سے انکاری ہیں۔ ان کے خیال میں یہ رپورٹ جانبدار ہے‘ جو انقلاب کے بعد کیوبا کی قابلِ رشک کامیابیوں کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ انقلاب کے بعد 1960ء میں چے گویرا نے کیوبا کے نظامِ صحت کا ایک خاکہ پیش کیا۔
چے گویرا خود بھی ایک تربیت یافتہ میڈیکل ڈاکٹر تھا۔ ''انقلابی ادویات‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون میں اس نے نظامِ صحت پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس نے لکھا کہ یہ وزارتِ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو صحت کی سہولتیں مہیا کرے۔ لیکن ملک کی پوری آبادی کو صحت کی مفت اور یکساں سہولتیں مہیا کرنا ایک عظیم منصوبہ تھا‘ جو بہت ساری مشکلات کا شکار ہوا۔ اس میں ایک بڑی رکاوٹ یہ پیدا ہوئی کہ کیوبا کے آدھے سے زائد ڈاکٹر ملک چھوڑ کر امریکہ بھاگ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مشکل وقت میں کیوبا کے پاس صرف تین ہزار ڈاکٹر اور سولہ میڈیکل سائنس کے پروفیسر رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود کیوبا نے صحت کی خدمات کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میدان میں قابلِ رشک ترقی کی۔ 1976ء کے آئین میں صحت کی سہولتیں ہر شہری کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا اور ریاست نے باضابطہ طور پر آئین میں صحت کی سہولتوں کی ضمانت فراہم کی۔ آئین میں کہا گیا کہ ریاست ایک میڈیکل نیٹ ورک کے قیام کے ذریعے ہسپتال اور کلینک قائم کرکے ہر شہری کو مفت علاج کی سہولت مہیا کرے گی۔ حکومت صحت کے لیے عوامی سطح پر مہم چلا کر‘ صحت کی تعلیم‘ طبی معائنوں اور ویکسین کے ذریعے صحت کو فروغ دے گی۔ آئین میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ صحت کی سہولتوں کی نجکاری ایک قانونی جرم ہے اور ریاستی سطح پر اس سے بہتر سہولتیں ہر شہری کو میسر ہیں۔ حکومت کی اس پالیسی کے فوری اثرات دکھائی دینے لگے۔ 1958ء میں انقلاب سے تھوڑا پہلے کیوبا میں ہر دس ہزار لوگوں کے لیے دس کے قریب ڈاکٹر میسر تھے‘ 1999ء میں ہر دس ہزار لوگوں کے لیے ساٹھ کے قریب ڈاکٹر دستیاب تھے۔ ساٹھ کی دہائی سے حکومت نے یونیورسل ویکسین کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے پولیو اور ٹیٹنس جیسے امرض پر مکمل قابو پا لیا گیا۔ The CIA World Factbook 2012 کی ایک رپورٹ کے مطابق کیوبا میں بچوں کی اموات کی شرح گر کر 4.83 فیصد فی ہزار ہو گئی ہے جبکہ امریکہ میں یہ شرح 6فیصد اور کینیڈا میں 4.8 فیصد تھی۔ کیوبا کا قومی صحت کا نظام متعدد درجات اور پروگراموں پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر کیوبا کا فیملی فزیشن اور نرس پروگرام ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیموں پر مشتمل ہے جو افراد اور خاندانوں کو میڈیکل سروسز پیش کرتی ہیں۔ وہ حکومت کے بنائے ہوئے فیملی میڈیسن دفاتر کے اوپر ہی رہائش رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ براہِ راست ان کمیونٹیز میں رہتے ہیں جن کو وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور 24 گھنٹے دستیاب رہتے ہیں۔ فیملی ڈاکٹر اور نرسوں کی ٹیمیں سال میں کم از کم ایک بار ہر خاندان کے گھر جا کر ان کی صحت کا جائزہ لیتی ہیں۔ دائمی بیماری والے افراد کو کم از کم ہر تین ماہ بعد دیکھا جاتا ہے۔ ان ٹیموں کا کردار صحتِ عامہ میں کلیدی ہے۔
دوسرے نمبر پر پولی کلینکس ہیں۔ پولی کلینکس کمیونٹی پر مبنی کلینک ہیں‘ جن میں بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے ماہرین ہوتے ہیں۔ وہ کیوبا کی ہر کمیونٹی میں موجود ہیں اور ان لوگوں اور کمیونٹیز سے بخوبی واقف ہیں جن کی وہ خدمت کرتے ہیں۔ اپنے مریضوں کی خدمت کرنے کی ان کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہیں۔ پولی کلینک کے ماہرین ڈاکٹروں کی ضرورت پڑنے پر ان کی مدد کے لیے موجود ہیں۔ ماہرین کا ہر کلینک ڈاکٹروں اور نرسوں کی ٹیموں کی مدد کرتا ہے۔ پولی کلینک کے اندر بنیادی کام کی ٹیمیں فیملی میڈیسن دفاتر کے پڑوس اور طبی صحت کے کام کی نگرانی کرتی اور جائزہ لیتی ہیں۔
اگرچہ طبی دیکھ بھال‘ تشخیصی ٹیسٹ اور ہسپتال میں داخل مریضوں کے لیے دوائیں مفت ہیں لیکن صحت کی دیکھ بھال کے کچھ پہلوؤں کی ادائیگی مریض کے ذمے ہے۔ وہ اشیا جن کی ادائیگی مریضوں کے ذمے ہے‘ جو اپنی آمدن کے حساب سے اسے برداشت کر سکتے ہیں: ان میں بیرونی تجویز کردہ ادویات‘ سماعت‘ دانتوں اور آرتھوپیڈک عمل‘ وہیل چیئر اور بیساکھی جیسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ جب کوئی مریض یہ اشیا ریاستی سٹور سے حاصل کرتا ہے تو ان کی قیمتیں کم ہوتی ہیں کیونکہ ان اشیا کو ریاست کی طرف سے سبسڈی دی جاتی ہے۔ کم آمدنی والے مریضوں کے لیے یہ اشیا مفت ہیں۔ کیوبا امریکہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے معاشی رکاوٹوں اور ادویات پر پابندیوں نے کیوبا کے صحت کے نظام کو متبادل ادویات اور جڑی بوٹیوں کو نظامِ صحت میں شامل کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو کہ وسیع تر آبادی کے لیے زیادہ قابل رسائی اور سستی ہیں۔ یہاں قدرتی‘ روایتی اور مغربی ادویات کا استعمال عام ہے۔ کیوبا کے نظامِ صحت کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ یہاں صحت کی سہولتیں انسان کا بنیادی حق ہے اور حکومت یہ سہولتیں فراہم کرنے کی اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved