سابق وفاقی وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار بالآخر پانچ سال بعد جلا وطنی ختم کرکے دوبارہ معاشی ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھے ہیں۔ پاکستانی سیاست کا چلن بھی عجیب ہے‘ جب وہ جلاوطن ہو کر ملک سے گئے تب بھی وزیر خزانہ تھے‘ لیکن ان پر یہاں عرصۂ حیات تنگ ہو چکا تھا۔ ان کے جانے کے بعد ہم یہی سنتے رہے کہ کیسے انہوں نے قومی معیشت کو مہنگائی اور ڈالر کی قیمت مصنوعی طریقے سے قابو میں رکھنے کی پالیسی سے تباہ کیا اور موجودہ معاشی چیلنجز انہی کی پالیسوں کی مرہون منت ہیں۔ اب گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ و ہی ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ ہماری قومی سیاست کے یہی تضادات ہیں جنہوں نے بنیادی طور پر ہماری سیاست کو آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں الزام اور جھوٹ‘ حقیقت سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ بہرحال‘ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مفتاح اسماعیل نے چاہے سخت اور غیر مقبول فیصلے کیے جن کا خمیازہ عوام کو اپنی جیبیں ہلکی کرکے بھگتنا پڑا لیکن انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ انہوں نے سبسڈی ختم کرنے جیسے ٹھوس اقدامات کی بنیاد رکھی تاکہ اس سے پاکستانی معیشت کے سٹرکچر میں جو بنیادی ٹیرھ پن ہے وہ ٹھیک ہو سکے۔ لیکن کیا کریں‘ سیاست سب کو مقدم ہوتی ہے اور خاص طور پر جب حکومت میں اتحادی جماعتیں موجود ہوں‘ ایسے میں سخت فیصلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی بے چینی کو قابو میں رکھنے کیلئے دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہ اسی دباؤ کا شاخسانہ ہے کہ (ن) لیگ نے منہ زور معاشی طوفان کے بیچوں بیچ معاشی ٹیم کے گھوڑے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کچھ پاپولر فیصلے کرکے عوام کو ریلیف مہیا کیا جائے۔ قرضے اور سیلاب میں ڈوبے پاکستان کی معاشی سمت کو بہتر کیا جائے‘ جس سے حکومت کو بھی فائدہ ہو۔
اسحاق ڈار‘ رواں سال پاکستان کے تیسرے وزیر خزانہ ہیں جبکہ 2018ء کے الیکشن سے اب تک وہ چھٹے وزیر خزانہ ہیں۔ یہ چھوٹی سی حقیقت‘ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان اس وقت کس مشکل معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں اسحاق ڈار کے سامنے دو چیلنجز ہیں‘ ایک تو ملک کی معاشی بنیاد کو درست کرنا‘ جو آئی ایم ایف کا سب سے بڑا مطالبہ ہے اور دوسرا چیلنج یہ ہے کہ ان سخت حالات میں جب ایک ایک روپیہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جانا ہے‘ وہ حکومت کے لیے سانس لینے کی جگہ بنائیں تاکہ اگلے الیکشن سے قبل ترقیاتی کاموں پر بجٹ خرچ کرکے عوام کا غم و غصہ کم کیا جا سکے۔ گوکہ اسحاق ڈار کی واپسی کی خبروں کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں ایک دم 9 روپے کمی ہوئی لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ واقعی ڈالر کی قیمت میں کمی اسحاق ڈار کی آمد کی وجہ سے ہے یا پھر یہ پیش رفت وزیراعظم کے حالیہ دورۂ امریکہ اور وہاں آئی ایم ایف سے ہوئی ملاقاتوں کی مرہونِ منت ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں آئے سیلابوں سے مچی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو عالمی معاشی اداروں کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کے بعد ورلڈ بینک نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی نوید سنائی۔ ادھر امریکہ پاکستان کیلئے امداد میں اضافہ کررہا ہے لیکن سب سے اہم یقین دہانیاں وہ ہیں جو آئی ایم ایف نے کروائی ہیں جن کے باعث کچھ عرصے کیلئے ہم آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو معطل کرکے عوام کو ریلیف دے سکتے ہیں اور اس ریلیف کا کریڈٹ حکومتِ پاکستان کو مل سکتا ہے۔ مثلاً اگلے چند ہفتوں میں آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط ملنی ہے‘ عین ممکن ہے کہ ایک کے بجائے اکٹھی دو اقساط ریلیز کر دی جائیں۔ دوسری یقین دہانی پٹرولیم مصنوعات پر لگے لیوی ٹیکس کے حوالے سے ہے‘ جس میں آئی ایم ایف 3 ماہ کی چھوٹ دے سکتا ہے‘ یوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری طور پر 15روپے فی لیٹر تک کمی متوقع ہے جو عوام کیلئے ایک بڑا ریلیف ہوگا۔ اس وقت عالمی منڈی میں پٹرول کی فی بیرل قیمت کم ہو کر 89ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس کے ثمرات عوام کو اس لیے نہیں مل رہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے معاہدے کے سبب حکومت کو ہر مہینے پٹرولیم مصنوعات پر پانچ روپے فی لٹر تک ٹیکس بڑھانا پڑتا ہے۔ اسی طرح تیسری یقین دہانی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول کرنے کی شرط میں نرمی کے حوالے سے ہے جس کے بعد ہم باآسانی کپاس اور گندم امپورٹ کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ یقین دہانیاں حقیقت میں تب بدلیں گی جب آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ اس کی منظور ی دے گا اور یہ تب ہوگا جب اسحاق ڈار آئی ایم ایف کو بہتر طریقے سے انگیج کریں۔ ماضی میں اسحاق ڈار نہایت کامیابی کے ساتھ آئی ایم ایف کے پروگرام مکمل کرکے ان سے نکل چکے ہیں اور ماضی قریب میں وہ مفتاح صاحب کو عوامی سطح پر آئی ایم ایف سے سختی سے نمٹنے کے مشورے دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی تمام باتیں ماننے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور عالمی معاشی اداروں سے کیسے نمٹیں گے؟ اس کے علاوہ اسحاق ڈار کو ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے مافیا کا بھی سامنا ہوگا جن میں 8کمرشل بینک بھی شامل ہیں جنہوں نے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی سے مبینہ طور پر اربوں روپے کمائے۔ اسی لیے اسحاق ڈار نے ہنڈی اور حوالہ کا کام کرنے والوں کو بھی وارننگ دی ہے کہ وہ ملک کے ایکسچینج ریٹ سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں ورنہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مفتاح اسماعیل‘ ڈالر کی یہ سمگلنگ روکنے میں ناکام رہے جس کا ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسحاق ڈار اپنے تجربے کی بنیاد پر اس مافیا پر قابو پا سکتے ہیں۔
اگر اسحاق ڈار کی واپسی کا سیاسی تجزیہ کیا جائے تو ڈار صاحب کو بنیادی طور پر نواز شریف کا آدمی کہا جاتا ہے اور بڑے میاں صاحب ان کی ہر بات کو وزن دیتے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں ڈار صاحب کو ڈپٹی وزیراعظم کا درجہ حاصل تھا اور وہ کھلم کھلا اپنی مرضی کے فیصلے کرتے تھے۔ لیکن اب حالات تھوڑا مختلف ہیں‘ اس بار وزیراعظم شہباز شریف ہیں جو اپنی طرز کے بندے ہیں اور جو بہت تفصیل سے ہر معاملے کی تہہ تک جاتے ہیں۔ انہیں کھل کر پیسے خرچ کرنے کی عادت ہے لیکن اسحاق ڈار پیسوں پر سخت کنٹرول رکھنے کے حامی ہیں۔ ان کا اور ڈار صاحب کا ورکنگ ریلیشن شپ کیسا ہوگا؟ اس پر سب کی نظر ہوگی۔ اسحاق ڈار ماضی میں مخالف سیاسی جماعتوں پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں اور انہیں معیشت کی تباہی اور لوڈشیڈنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں۔ اس وقت کیبنٹ میں وہ جماعتیں حلیف کے طور پر موجود ہیں اور ظاہر ہے مالی معاملات پر ان کی بھی ڈیمانڈز ہوں گی۔ اسحاق ڈار‘ ان سے کیسے نمٹیں گے‘ یہ دیکھنا بھی اہم ہوگا۔ مجموعی طور پر اسحاق ڈار نے اپنا امیج ایسے اکانومسٹ کے طور پر بنایا ہوا ہے جو ڈلیور کرتا اور عوام کو ریلیف مہیا کرتا ہے۔ کیا وہ اپنا یہ امیج برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں گے اور اپنی تیزی سے غیر مقبول ہوتی حکومت کیلئے سہارا بنیں گے یا پھر کٹھن معاشی حالات انہیں بھی مفتاح اسماعیل کی طرح آنسو بہانے پر مجبور کردیں گے؟ آنے والے دنوں میں یہ سب کچھ دیکھنا خاصا دلچسپ ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved