زندگی کو محدود سے محدود تر کرتے جانا بھی ایک ''ہنر‘‘ ہے اور اس ''ہنر‘‘ میں جو مہارت ہم نے پیدا کی ہے وہ شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہو! زندگی اِس طور جینے کا نام ہے کہ کہیں بھی تنگی دکھائی دے نہ محسوس ہو مگر ہم آخری سانس تک زندگی کی فراخی گھٹانے پر تُلے رہتے ہیں۔ زندگی کی فراخی اُس وقت گھٹتی ہے جب ہم اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے لانے سے گریز کرتے ہوئے ایسے معاملات میں الجھے رہتے ہیں جن سے مطلوب نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
چین کے عظیم فلسفی کنفیوشس نے کہا تھا کہ ہم زندگی بھر زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ اُن کی بات کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ نے ہمیں جو زندگی عطا فرمائی ہے وہ بالکل سادہ اور آسان ہے۔ انسان کو بہت سے معاملات کا مکلف بنایا گیا ہے مگر یہ بھی اُس کے لیے اعزاز ہے نہ کہ بوجھ۔ بہت سی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہونے کی صورت میں قلب و جاں کی راحت کا بھی سامان ہوتا ہے اور توقیر کا بھی۔
بہر کیف‘ ہم زندگی بھر زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنانے میں ایسے سرگرداں رہتے ہیں کہ تماشا دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بیشتر پس ماندہ معاشروں کا یہی حال ہے۔ لوگ آسانیوں سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے بجائے اُن سے جان چھڑانے کی کوششوں میں گم دکھائی دیتے ہیں! سادہ سے معاملات کو بھی خواہ مخواہ پیچیدہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اِتنا بھی نہیں سوچا جاتا کہ ایسا کرنے سے الجھنیں کتنی بڑھیں گی، مسائل کی شدت میں کس قدر اضافہ ہوگا۔
آج ہم کس سطح پر جی رہے ہیں؟ زندگی کے تمام پہلو سمٹ کر صرف اور صرف اس بات میں سماگئے ہیں کہ ہم کتنا کماسکتے ہیں اور کتنا خرچ کرسکتے ہیں۔ آمدن اور صرف کا یہ چکر ہمارے تمام اہم امور پر حاوی ہوچکا ہے۔ زندگی کا ہر معاملہ کمائی سے شروع ہوکر خرچ پر ختم ہو رہا ہے۔ انسان کی ساری تگ و دَو صرف اور صرف یافت کے دائرے میں گھوم رہی ہے۔ گزر بسر کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہے نہ فرار۔ ہاں‘ یہ سمجھنا انتہائے حماقت ہے کہ زندگی صرف کام کرنے، کمانے اور خرچ کرنے کا نام ہے۔ زندگی ایک پورے نظام کا نام ہے اور یہ نظام ہمیں بنا بنایا نہیں ملتا، خود بنانا پڑتا ہے۔ زندگی وہی کچھ بنتی ہے جو ہم اُسے بناتے ہیں۔ ہم اگر زیادہ تگ و دَو نہ کریں تو زندگی کا معیار بلند ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اگر ہم صرف تگ و دَو میں مصروف رہیں تو جو کچھ بھی حاصل ہو پاتا ہے اُس سے محظوظ ہونے کا موقع ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ زندگی معاشرت و معیشت میں توازن برقرار رکھنے کا نام ہے۔ کمانا بھی لازم ہے اور غیر معاشی سرگرمیوں میں دلچسپی لینا بھی لازم ہے۔ ہم کسی ایک پہلو کو دوسرے پر ترجیح بھی نہیں دے سکتے اور نظر انداز بھی نہیں کرسکتے۔ جب کبھی ہم ایسا کرتے ہیں تب صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور ایسے میں وہ کام بھی بگڑ جاتے ہیں جنہیں ہم آسانی سے مکمل کرسکتے ہیں۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا یعنی کچھ پانے کی کوشش کرنا ہر عہد کے انسان کے لیے ناگزیر معاملہ رہا ہے۔ آج کے انسان پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ درست کہ فی زمانہ یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ زندگی کم ہے اور ایسا بہت کچھ ہے جسے انسان پانا چاہتا ہے۔ مادّی ترقی نے انسان کو حواس باختہ کردیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات کا حصول ممکن بنائے۔ کیوں؟ جتنی زیادہ اشیا و خدمات حاصل ہوں گی زندگی کا معیار اُتنا ہی بلند ہوگا۔ایسا ہی ہے نا؟ بظاہر یہی معاملہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات حاصل کرکے اُن کا صرف ڈھیر لگاتا جاتا ہے، اُن سے کماحقہٗ مستفید ہونے اور زندگی کا معیار بلند کرنے تک نوبت نہیں پہنچتی۔ بہت کچھ حاصل کرکے بھی انسان اگر وہیں کا وہیں رہے یعنی زندگی کی رنگینی میں اضافہ نہ کرسکے تو اِتنی تگ و دَو سے فائدہ؟
ہر انسان کو اپنے اور اہلِ خانہ یا متعلقین کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمت عطا ہو تو غیر معمولی محنت اور جاں فِشانی سے کام کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ آسائشوں کا حصول بھی یقینی بنانا چاہیے مگر ایسا کرتے وقت اس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی حاصل ہو اُس سے استفادہ بھی ممکن بنایا جائے۔ کوئی بھی چیز اصلاً صرف اس لیے حاصل کی جاتی ہے کہ اُس کی مدد سے زندگی کو آسان اور رنگین تر بنایا جائے۔ ہم اپنے گرد ایسا بہت کچھ جمع کرلیتے ہیں جس سے کماحقہٗ مستفید ہونے کی فرصت ہی نہیں مل پاتی۔ یہ معاملہ تھوڑی دانش کا متقاضی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ انسان کو ایسی معاشی تگ و دَو کرنی چاہیے جس کی مدد سے اُس کا معیارِ زندگی بلند ہو۔ اس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان زیادہ کمائے اور دوسرے یہ کہ جو کچھ کمائے اُس سے زندگی کو آسان بنانے والے وسائل کا حصول بھی یقینی بنائے۔ دولت کی شکل میں ہونے والی آمدن ہمارے لیے اُسی وقت کام کی ثابت ہوتی ہے جب ہم اِس کے ذریعے ایسا کچھ کر پاتے ہیں جو زندگی کو سہولتوں سے ہم کنار کرے، آسان بنائے اور بے جا مشکلات سے بچنے میں کوئی کردار ادا کرے۔ اگر ہماری یافت ہمارے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرسکتی تو پھر اُس کا کچھ فائدہ بھی نہیں۔
عصری تقاضوں کو نظر انداز کرکے کوئی بھی ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ ہمارا عہد بھی ہم سے بہت سے تقاضے کرتا ہے۔ سب سے بڑا تقاضا شاید یہ ہے کہ وقت کو احسن طریقے سے بروئے کار لاکر ضائع ہونے سے بچایا جائے اور اپنی محنت کا بہترین معاوضہ پانے کی کوشش کی جائے۔ وقت ہر دور میں انسان کا اہم ترین اثاثہ رہا ہے۔ اب اس اثاثے کے سامنے کسی بھی اثاثے کی کچھ اہمیت نہیں۔ اب وقت ہی سب کچھ ہے۔ وقت یعنی وجود، وقت یعنی زندگی۔ اب لازم ہوچکا ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے وہ یہ سوچتے ہوئے کیا جائے کہ وقت کو احسن طریقے سے بروئے کار لایا جائے گا اور جو کچھ بھی حاصل ہوگا اُس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر بہت زیادہ بھاگ دوڑ سے کچھ فائدہ نہیں۔ ایسے میں بہتر یہ ہے کہ کم کام کرتے ہوئے‘ کم کماکر نچلی سطح کی مگر اطمینان بخش زندگی بسر کی جائے۔
آج کا انسان زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں کسی جواز کے بغیر ایسی زندگی بسر کر رہا ہے جس پر اُس کا اختیار برائے نام ہے۔ ایک طرف بھرپور زندگی بسر کرنے کی خواہش ہے اور دوسری طرف وہ جدید ترین اشیا جن سے بازار بھرے پڑے ہیں۔ زندگی کو آسان تر بنانے والی اشیا و خدمات کی بھرمار ہے مگر اُن سے مستفید ہونے کی ذہنیت کمزور پڑتی جارہی ہے۔ آج کے انسان کو بہت کچھ سوچنا ہے۔ زندگی صرف کمانے کے لیے عطا نہیں کی گئی۔ زندگی کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں۔ رشتے ہیں، اخلاقی اقدار ہیں، روحانی معاملات ہیں۔ انسانی زندگی کا ایک اہم پہلو مذہبی افکار پر بھی مبنی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں انسان رشتوں کو بھی داؤ پر لگا رہا ہے اور اخلاقی اقدار کو بھی۔ مذہب زندگی کی تطہیر کے لیے ہوتا ہے مگر ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اُسے اپنا کام کرنے دیا جائے۔ اگر مذہبی رسومات کو محض رسمی کارروائی کے طور پر یا خانہ پُری کے لیے اپنایا جائے تو اِس کا کچھ حاصل نہیں۔ اگر کسی بھی چیز کو اُس کا کام نہ کرنے دیا جائے تو پھر وہ کسی کام کی نہیں رہتی۔ آج کے انسان نے صرف کمائی کے چکر میں زندگی کے دیگر تمام پہلوؤں کو خرابی سے دوچار کر رکھا ہے۔
یہی وقت ہے کہ انسان اپنے معمولات اور عادات و اطوار پر غور کرے۔ کمانے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ کمائی کو ڈھنگ سے، متوازن طور پر بروئے کار لانے کی ذہنیت اور مہارت کو بھی توانا کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی وہ نعمت ہے جس کی قدر و قیمت کا ہمیں اندازہ نہیں۔ ایسی نعمت کو صرف اور صرف کمائی کے لیے کی جانے والی تگ و دَو کی نذر نہیں کیا جاسکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved