تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-09-2022

The Choice

آج کل آڈیو لیکس کا سیزن شروع ہے۔ وکی لیکس اور پاناما لیکس سے بات اب آڈیو لیکس تک آن پہنچی ہے۔ ویسے کبھی حیران ہوتا ہوں کہ میں اس جنریشن سے ہوں جس نے ان برسوں میں کیا کچھ نہیں دیکھا اور مسلسل دیکھے جارہی ہے۔ یاد کرتا ہوں کہ میں اُس گاؤں میں پیدا ہوا تھا جہاں بجلی اُس وقت آئی جب میں نویں یا میٹرک میں تھا۔ ٹاٹ سکول سے پڑھا اور لالٹین کی روشنی میں پڑھا۔ روزانہ دکان سے مٹی کا تیل لے کر آتے جسے لالٹین میں ڈال کر جلاتے‘ دن کو اس کی چمنی صاف کرتے۔ پھر ریڈیو کا اپنا ایک جنون تھا جس کی جگہ ٹیپ ریکارڈر کے رومانس نے لے لی۔ ٹی وی اس وقت آیا جب بجلی آئی۔ پھر بلیک اینڈ وائٹ سے کلر ٹی وی تک کا سفر طے کیا اور پھر وی سی آر کا دور شروع ہوا۔ ضیا دور میں پولیس چھاپے مار کر فلم دیکھنے والوں کو پکڑ کر لے جاتی اور ہم دیہاتی لڑکے چندہ جمع کر کے وی سی آر لاتے اور گھر والوں اور پولیس سے چھپ کر رات بھر فلمیں دیکھتے اور چوری چھپے صبح گھر لوٹتے تو اماں کے ہاتھوں پٹ کر آرام سے بستر پر سو جاتے۔ یہ روٹین بڑا عرصہ چلی۔
کبھی حیران ہوتا ہوں کہ دنیا ان دس برسوں میں کتنی بدل گئی ہے۔ سب کچھ ایک سمارٹ فون میں سمٹ کر آگیا ہے۔ میں اب اس فون کو بطور گھڑی‘ کیمرہ‘ ٹارچ‘ وڈیوز دیکھنے‘ کالم لکھنے‘ حساب کتاب کرنے‘ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز‘ فلمی چینلز‘ لائیو کرکٹ میچز‘ وڈیو کالز اور کہیں جانے کے لیے راستہ تلاش بتانے کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ سب کچھ اس فون میں سمٹ گیا ہے۔ اب یہی میری دنیا ہے۔ سب کچھ یہ فون ہے۔ باقی سب کچھ چھوٹ گیا ہے۔ کہاں گیا ٹیلی گرام‘ فیکس۔ شاید آج کی نسل تو ان چیزوں کے ناموں سے بھی واقف نہ ہو جو کچھ میری نسل نے دیکھا ہے۔ لیکن اس فون نے ہماری زندگیوں کو عدم تحفظ کا شکار بھی کر دیا ہے۔ مجھے علم ہے کہ میں اپنے ساتھ ایک جاسوس لے کر چل رہا ہوں۔ میری ہر حرکت اور لفظ پر اس کی توجہ ہے۔ یہ سب کچھ ریکارڈ کررہا ہے۔ میں جو بات کرتا ہوں‘ یہ فون نہ صرف سن رہا ہے بلکہ اس کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ اب نہ میں اس کے بغیر رہ سکتا ہوں نہ اس کے ساتھ۔ اب فون وہ ہڈی بن چکا جو نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اگلی جا سکتی ہے۔ یہ جو آڈیو لیکس کا شور سن رہے ہیں یہ سب اسی سمارٹ فون کے کمالات ہیں۔ مشہور لوگوں کو جتنے زیادہ خطرات ہوتے ہیں وہ اتنے ہی لاپروا ہوتے ہیں کیونکہ کامیاب لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا اور یہی بات انہیں مار دیتی ہے۔ بڑے لوگ ہمیشہ غفلت کرتے ہیں اور سکینڈل بنوا بیٹھتے ہیں۔ ابھی اس فون کو دیکھ لیں کب شہباز شریف یا عمران خان نے سوچا ہوگا کہ یہ چھوٹی سی سکرین والی مشین ان کی سب گفتگو ٹیپ کررہی ہے اور اسے ریکارڈ کیا جارہا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ مرحوم پولیس افسر شاہد حیات‘ جو اُس وقت ایف آئی اے کراچی کے ڈائریکٹر تھے‘ جب بھی اسلام آباد آتے اوران سے ملاقات ہوتی تو وہ میرا اور اپنا فون کافی فاصلے پر رکھ دیتے اور پھر گفتگو کرتے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس سے کیا ہوگا؟ وہ مجھے کہتے تھے کہ سب کچھ اس کے ذریعے ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ دور بیٹھے لوگ بڑے آرام سے اس کے مائیکرو فون اور وڈیو کیمرے کو آن کرکے سب کچھ ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ یہ میں آپ کو پانچ‘ چھ سال پہلے کی بات بتا رہا ہوں۔ یہ کام کب کا شروع ہو چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے ادارے ان باتوں سے وزیراعظم کو آگاہ نہیں کر رہے تھے یا ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہ تھا؟ فواد چوہدری صاحب نے ہمارے ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ نے کئی مواقع پر سابق وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دھیان رکھا کریں۔ بہتر ہے وزیراعظم ہاؤس کو بھی جدید آلات سے لیس کریں۔ فون ٹیپنگ‘ ہیکنگ یا سائبر اٹیک ہو سکتا ہے۔ بلکہ بقول فواد چوہدری جنرل باجوہ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ بہتر ہوگا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں وہی سائبر سکیورٹی سسٹم لگوائیں جو جنرل کیانی نے اپنے دور میں جی ایچ کیو میں سائبر اٹیکس سے بچنے کے لیے لگوایا تھا۔ حیران کن طور پر عمران خان نے اس بات پر توجہ نہ دی تھی اور آج ان کی اپنی آڈیو لیکس ہورہی ہیں۔ اس طرح ایک اور کابینہ سورس نے مجھے بتایا تھا کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہیں پاکستان کی سپریم ایجنسی کے دفتر میں بریفنگ کے لیے بلایا گیا جہاں سب اہم عسکری اداروں کے عہدے دار شریک تھے۔ اس اجلاس میں عمران خان کو پہلی دفعہ بتایا گیا تھا کہ وہ واٹس ایپ کو استعمال کرنا بند کردیں کیونکہ یہ کمپرومائز ہو چکا ہے۔ شاید ان کا اشارہ اسرائیلی جاسوسی سسٹم کی طرف تھا جس کی مدد سے واٹس ایپ کو ہیک کر لیا جاتا تھا۔ بلکہ ایک بڑا سکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ کچھ حکومتوں نے اسرائیل سے وہ سسٹم خرید کر اپنے سیاسی مخالفوں کے فونز کو ہیک کیا۔ بھارت میں یہی ہوا اور وہاں اپوزیشن لیڈرز کے فون ہیک کیے گئے جس پر کافی رولا پڑا۔ بلکہ اس وقت تو یہ بھی خبر سامنے آئی تھی کہ شاید عمران خان کا فون بھی ہیک ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ انہوں نے وزیراعظم کو خبردار نہیں کیا یا وزیراعظم ہاؤس کی سائبر نگرانی نہیں کی گئی؟ اس پر ایک سکیورٹی افسر نے اچھا جواب دیا۔ اس نے کہا: وزیراعظم ہاؤس کے سکیورٹی پروٹوکول کے تحت کوئی بھی مہمان فون اندر نہیں لے جا سکتا اور یہ بات سب وزیٹرز کے لیے لازم ہے لیکن یہاں چونکہ وی آئی پی کلچر چلتا ہے لہٰذا کسی ایجنسی کے نچلے اہلکار کی کیا مجال کہ وزیراعظم آفس کے اہم افسران کو روک سکے کہ فون یہیں باہر چھوڑ کر جائیں کیونکہ سب سائبر اٹیکس آج کل سمارٹ فونز کے ذریعے ہوتے ہیں۔ یہ بات تو وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے بھی ایک ٹی وی شو میں تسلیم کی کہ یہ ہم سب وزرا کی غلطی تھی کہ ہم نے سکیورٹی پروٹوکول کو فالو نہیں کیا‘ فونز ساتھ لے جاتے تھے اور مارے گئے۔
بہت سے لوگ کہیں گے کہ اچھا ہوا ہمیں اپنے حکمرانوں کی سوچ اور ان کے کرتوتوں کا علم ہو رہا ہے کہ وہ جلسوں میں عوام کے دکھ میں مر رہے ہوتے ہیں لیکن جب اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ کیا کیا باتیں کرتے ہیں اور عوام دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کے چہروں سے ماسک اتر رہا ہے۔ لیکن جو بات عام انسان نہیں سمجھ رہا کہ اس سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں تباہ ہوا ہے کہ جو ملک اپنے وزیراعظم آفس میں ہونے والی گفتگو کا تحفظ نہیں کر سکتا وہ دنیا بھر کے سربراہان کے دورے میں ان کی کیا حفاظت کر پائے گا؟ یقینی طور پر پاکستان کو اس سے سخت نقصان پہنچا ہے۔ بہت سے اداروں کی نالائقی اور ناکامی اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ جس بات کا علم چھ سات سال پہلے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر شاہد حیات کو تھا کہ سمارٹ فون اپنے قریب نہیں رکھنا وہ ہمارے سکیورٹی اداروں یا ان اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو کیوں نہیں تھا کہ وہ سب راز اس کے ساتھ شیئر کررہے تھے؟ اگر جنرل باجوہ کی وارننگ بھی وزیراعظم عمران خان پر اثر نہ کر سکی تو پھر خان صاحب نے بھلا اور کس کی سننی تھی؟ سیانے کہتے ہیں ہم اپنی مرضی سے کوئی چوائس تو لے سکتے ہیں لیکن اس چوائس کے جو نتائج نکلتے ہیں ان پر ہمارا بس نہیں چلتا۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کی وارننگ یا مشورے پرعمل نہ کیا‘ شہباز شریف نے بھی وہی کیا۔ اس کا نتیجہ وہ اب بھگت رہے ہیں۔ زندگی میں ہم سب چوائسز لیتے ہیں اور ان کے اچھے‘ برے نتائج بھی بھگتتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved