تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-08-2013

الیس منکم رجل رشید

قرآن کی وہ آیت دل کی گہرائیوں میں تڑپ اٹھتی ہے۔ الیس منکم رجل رشید؟ کیا تم میں کوئی ایک بھی دانا آدمی نہیں، کوئی ایک بھی غور کرنے والا نہیں ؟ جناب الطاف حسین ایک ہی بار طے کر لیں کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔ کبھی وہ نواز شریف کے حلیف بنے، کبھی بے نظیر اور کبھی جنرل پرویز مشرف کے ۔ برسوں فوجی آپریشن کی ڈٹ کر مخالفت کی ۔ پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں فوج کے ساتھ مل کر انقلاب کا نعرہ بلند کیا ۔ جس سے لڑتے ہیں ، اسی کو دوست بناتے ہیں ۔پھر ایک دن اسی کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی سے مایوس ہو کر اب وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ شہر فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ خدانخواستہ ناکام ہو گئی تو کیا ہوگا؟ بظاہر وزیراعظم سے مطالبہ ہے ، اصلاًوہ جی ایچ کیو کے دروازے پر درخواست لیے کھڑے ہیں ۔ ؎ دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے 1992ء میں فوج نے آپریشن کیا تو گریہ کی آوازیں برسوں سنائی دیتی رہیں ۔ بریگیڈئیر امتیاز کی شہادت کے ساتھ ایم کیو ایم کے رہنما ٹی وی پر نمودار ہوئے۔ واویلا کیا کہ جھوٹی کہانیاں گھڑ ی گئیں اور ان کے حامیوں کا قتلِ عام ہوا۔اس سے قطع ِ نظرکہ ایم کیو ایم کے الزامات میں صداقت کتنی ہے ، واقعہ یہ ہے کہ تعجیل میں کی گئی، اس انتہا پسندانہ کارروائی سے ہرگز کوئی خیر برآمد نہ ہوا۔ یہ فوجی مہم جوئی کی ایک المناک مثال تھی ۔ سدھرنے کی بجائے حالات اور بھی بگڑے ؛حتیٰ کہ گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔ 1993ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو پھر سے بد امنی فروغ پانے لگی ۔ ؎ بہر لحظہ، بہر ساعت، بہر دم دگرگوں میشود احوالِ عالم پھر ایک دن ایوانِ صدر میں صدر فاروق لغاری ، وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور جنرل عبدالوحید کاکڑیکجا تھے ۔ راولپنڈی کے ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کو انہوںنے طلب کیا۔ بے چارگی کے عالم میں صدر نے کہا : کوئی امید تو نہیں لیکن آخری کوشش کر دیکھتے ہیں ۔ پولیس افسر نے کہا: مایوسی کا کوئی جواز نہیں لیکن شرط کڑی ہے۔ مرکزی حکمرانوں کے علاوہ سندھ کا وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کا سسرالی خاندان مداخلت نہ کرے ۔ا نہوںنے وعدہ کیا اور وعدے پر قائم رہے ۔ نصیر اللہ بابر نے کمان سنبھالی ۔ انٹیلی جنس کی تشکیلِ نو ہوئی اور کسی کی سفارش کبھی نہ سنی گئی ۔ ایم کیو ایم کو اس کارروائی پر بھی اعتراض تھا اور اب بھی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ ان کے بے گناہ حامی بھی مارے گئے ۔ بعض شکایات درست ہوں گی ۔ ہم توفقط یہ جانتے ہیں کہ امن قائم ہوا اور مکمل امن ؛حتیٰ کہ حکومت بدل گئی اور حالات پھر بگڑنے لگے ۔آئندہ بھی ہوا تو پولیس کے ذریعے ہوگا ۔ یک طرفہ نہیں ، انصاف کے ساتھ ! جنرل پرویز مشر ف کے دور میں امن رہا ۔ ایم کیو ایم اقتدار کا حصہ تھی اور یہ حصہ بقدرِ جثہ نہیں بلکہ بہت زیادہ تھا۔ وہ گئے تو پھر سے خرابی شروع ہوئی اوربڑھتی گئی ۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ فوجی حکمران کے د ورمیں قانون کا خوف برقرار رہے۔ معاملات جیسے ہی سیاستدانوں کو سونپے جائیں تو مرض بڑھے اوربڑھتا ہی چلا جائے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے ، جو اپنے ساتھ ہمیشہ خوں ریزی لے کر آتی ہے ۔ بعض باتیں اخبار میں لکھی نہیں جا سکتیں ؛اگرچہ سب ان سے آشنا ہیں ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کامگر کیا کیجئے ، جس میں چار جماعتوں کو بھتہ خوری کا ذمہ د ار ٹہرایا گیا۔بتایا گیا کہ انہوںنے مسلّح لشکر بنا رکھے ہیں ۔ حکمران پیپلز پارٹی کے علاوہ ان میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے، اے این پی اور سنّی تحریک بھی ۔ تب بھی قائم علی شاہ وزیراعلیٰ تھے ، اب بھی ہیں ۔ ایم کیو ایم کے لیے شرکتِ اقتدار کی پیشکش بھی برقرار ہے کہ آئیے مل کر ضیافت اڑائیں ۔ قیامِ امن کی ذرا سی خواہش بھی ان میں ہوتی تو اپنا مسلّح ونگ کیوں بناتے ؟ لیاری سے کچھی برادری کے ہزاروں افراد نے ہجرت کی توکس رسان سے وزیراعلیٰ نے کہا : میڈیا نے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے ۔ آدمی کی روح کانپ اٹھتی ہے کہ یار ب یہ کس طرح کے لوگ ہیں ۔ راتوں کو انہیں نیند کیسے آجاتی ہے ۔ ؎ خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا اور آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی تزکِ بابری کا نیا ایڈیشن کسی محقّق نے چھاپا ہے ۔ فرغانہ کے نواح میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا حال اس نے لکھا ہے ۔ قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ایسی پستیوں میں بھی آدمی گر سکتاہے ؟ یہی حال 1992ء کے بعد والے افغانستان کا تھا، جہاں جنگی سرداروں نے خود کو اس قدر رسوا کیا کہ لوگ طالبان کو گوارا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان سمیت، جب سکھ اور مرہٹے قتلِ عام کرتے رہے ، تاریخ کے ان اوراق کو پڑھو تو قرآنِ کریم کے حروف روشن تر ہونے لگتے ہیں ـ\\\"بے شک آدمی کو ہم نے بہترین تقویم پر پیدا کیا ، پھر اسے ارزل سے ارزل کر دیا ، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور جنہوںنے اجلے عمل کییـ\\\" صدیوں تک یورپ میں یہودیوں سے انتقام در انتقام ، مسیحی فرقوں کی باہمی جنگیں ، امریکہ میں ریڈ انڈین ، آذر بائیجان میں آرمینائوں کے ہاتھوں مقامی مسلمانوں کا قتلِ عام، سٹالن کے حکم پر ان کی جلا وطنی ، وسطِ ایشیا کی مسلم ریاستوں میں اشتراکیوں کی انتقامی خوں ریزی ۔ آدمیت کی ساری تاریخ یہی ہے ۔ انصاف کو شعوری طور پر جب خیر باد کہہ دیا جائے تو معاشرے ذلّت کی آخری حدوں کو چھولیتے ہیں۔ فرشتوں نے سچ کہا تھا ’’یہ خون بہانے والا آدمی‘‘ مگر اللہ کا فرمان یہ تھا کہ اس کے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ عدل آدمیت کا زیور نہیں ، یہ انسانیت کے جہاز کا انجن بھی ہے اور لنگر بھی ۔ انصاف جب نہ ہو تو شکایت جنم لیتی ہے ۔ برقرار رہے توعناد بنتی ہے ، پختہ ہو جائے توخوں ریزی فطرتِ ثانیہ ہو جاتی ہے۔ کراچی میں فوج نہیں آئے گی ۔ اوّل تو اتنی بڑی تعداد میں مہیا کیسے ہو ؟ آئے تو ہزار طرح کے مسائل پیدا ہوں گے ۔ مثلا اندرونِ سندھ کا ردّعمل ۔ پھر فوجی عدالتیں ہوں گی اور عسکری انصاف۔ ایم کیو ایم سمیت کوئی بھی تاب نہ لا سکے گا۔ ؎ یہ خبر نہ تھی ہم کو دار کے قر یب آکر ہم خیال لوگوں کو ہم زباں نہیں رہنا سیاسی اور شہری ادارے پہلے ہی نڈھال ہیں ۔ فوج آئی اور دیر تک رہی توباقی ماندہ بھی لٹ جائے گا۔ علاج یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اوّل اپنا مسلّح ونگ ختم کرے اور پھر دوسروں سے یہی مطالبہ کرے ۔ نہ مانیں تو قانون بروئے کار آئے اور مجرموں کا صفایا کرے ۔ اگر نہیں تو ایک دن مرکزی حکومت بروئے کار آئے گی اور گورنر راج نافذ ہوگا۔ فوج کو نہ بلایا جائے وگرنہ کیا ضمانت ہے کہ اس کا دائرہ کارلازماً کراچی تک ہی محدود رہے گا۔ بلوچستان اور پختون خوا میں کیوں نہ اسے پکارا جائے گا۔ آج کراچی کے تاجر اور شہری بلبلا رہے ہیں۔ کل لاہور، کوئٹہ اور پشاور والے بھی یہی کریں گے ۔دوا نہیں ، آدمی خوراک پہ زندہ رہتے ہیں ۔ سچّے ،کھرے ، ایک پائیدار نظامِ عدل کے بغیر معاشرے کو امن کبھی نصیب نہیں ہوتا۔ نظامِ عدل کا مطلب ہے غیر جانبدار اور تربیت یافتہ پولیس اور رو رعایت نہ کرنے والی عدالتیں ۔ ریاست کا استحکام اور قانون کی پاسداری ۔ ایسالگتاہے کہ ہماری سب سیاست ردّعمل کی سیاست ہے ۔ ہیجان اور ہنگامی فیصلوں کی ۔ برہمی اور انتقام کی ۔ جذبا تیت اور ہوسِ اقتدار کی۔ سطحی فیصلے، جن کے بطن میں حادثے پلتے ہیں ۔ کوئی نہیں ، ان میں غور کرنے و الا کوئی نہیں… قرآن کی وہ آیت دل کی گہرائیوں میں تڑپ اٹھتی ہے ۔ الیس منکم رجل رشید؟ کیا تم میں کوئی ایک بھی دانا آدمی نہیں، کوئی ایک بھی غور کرنے والا نہیں ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved