یوں لگتا ہے کہ سیاست کی ہنڈیا پریشر ککر بن کر پھٹنے کو ہے۔ معاملہ بیانیوں کی گولہ باری سے نکل کر نجی اور خفیہ گفتگو افشا کرنے کی پوائنٹ سکورنگ تک آن پہنچا ہے۔ ابھی شہباز شریف کی آڈیوکا شور تھما نہیں تھا کہ عمران خان اور ان کے معتمدِ خاص اعظم خان کی آڈیو نے بیانیہ سازی اور بیانیہ فروشی کا وہ پول کھول ڈالا ہے جس کا کئی حالیہ کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ مملکتِ خداداد بھی کرۂ ارض پر انوکھا خطہ ہے جہاں حکمرانوں کی کارکردگی اور وژن کے بجائے بیانیوں اور سیاسی قلابازیوں پر عوام جھومتے اور تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ امپورٹڈ حکومت‘ بیرونی مداخلت اور عالمی سازش جیسے بیانیے حب الوطنی اور غیرتِ قومی کو جگانے کے علاوہ عوام کو اکسانے‘ اشتعال دلانے اور تقسیم کرنے کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔ بیانیہ سازی سے لے کر بیان بازی تک‘ پوائنٹ سکورنگ سے لے کر غلبہ حاصل کرنے تک‘ مخالفین کے لتے لینے سے لے کر کردار کشی تک‘ سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد‘ بغض اور دشمنیوں میں تبدیل کرنے سے لے کر پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے تک‘ ایک دوسرے کی وطن پرستی پر انگلی اٹھانے سے لے کر غداری کا طعنہ دینے تک منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہوتا چلا جارہا ہے کہ خدا خیر کرے میرے آشیانے کی۔ حصولِ اقتدار کے لیے بے تاب اور بے چین رہنے والے ہوں یا طولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے والے‘ سبھی کردار تو بدل چکے ہیں‘ لیکن اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا سبھی سیاستدان اپنی اپنی آڈیو لیکس کی وضاحتیں اور توجیہات اس قدر ڈھٹائی سے پیش کر رہے ہیں کہ ان کے دلوں کے بھید بھاؤ بے نقاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ بیانیوں سے لگائی آگ مزید تباہی کا باعث بنتی‘ امریکی سازش کے عمرانی بیانیے کی حقیقت بھی آشکار ہو چکی۔
بیانیہ سازی سے لے کر بیانیہ فروشی تک کے سبھی کردار فراموش کرنے پر آتے ہیں تو قانون اور ضابطوں سے لے کر آئین اور حلف تک سب یکسر فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان سبھی سے انحراف کرکے بھی محض اس لیے اترائے پھرتے ہیں کہ ان کا بیانیہ سپرہٹ ہو گیا۔ بس بیانیہ چلنا چاہیے اور بھلے کچھ چلے نہ چلے۔ ان جمہوری چیمپئنز سے کوئی تو پوچھے کہ وہ کون سا سنہری دور تھا‘ وہ کون سے خوش نصیب دن تھے‘ وہ کون سے یادگار لمحات تھے کہ مملکتِ خداداد میں حقیقی جمہوریت کی کونپلیں پھوٹی ہوں؟ عوامی مینڈیٹ کے درخت پھل پھول سے لدے ہوں؟ تحمل‘ برداشت اور بردباری کی فضا نے سیاسی ماحول کو مہکایا ہو؟ آئین کی پاسداری اور قانون و ضابطوں پر عملداری ہوئی ہو۔ انتخابی دعووں اور وعدوں کو برسر اقتدار آکر عملی اقدامات کی شکل دی گئی ہو؟ مفادِ عامہ نصب العین بنایا گیا ہو؟ سرکاری وسائل اور خزانے کو امانت سمجھا ہو۔ صادق اور امین کے معانی نہ الٹائے گئے ہوں۔ داد رسی کیلئے سائل در در کی خاک نہ چھانتے ہوں۔ ناحق مارے جانے والوں کی روحیں انصاف کے لیے نہ بھٹکی ہوں۔ سربلند کو سرنگوں کرنے کیلئے انتظامی مشینری کا ناجائز استعمال نہ کیا ہو؟ کلیدی عہدوں کی بندر بانٹ نہ کی گئی ہو؟ پیداواری عہدوں کی بولی نہ لگی ہو؟ اقتدار اور وسائل کے بٹوارے نہ ہوئے ہوں؟ بوئے سلطانی کے ماروں نے اداروں کو نہ للکارا ہو۔ بندہ پروری اور اقربا پروری کے ساتھ ساتھ شکم پروری کی بدعت کو فروغ نہ دیا گیا ہو۔ حرام حلال کی تمیز کو نہ مٹایا ہو؟ ان چشم کشا اور ناقابلِ تردید تلخ حقائق کی موجودگی میں کس منہ سے بیرونی مداخلت اور عالمی سازش کی بات کی جاتی ہے؟ مسلسل بداعمالیوں کے بعد کسی سازش کی ضرورت باقی رہتی ہے؟ انحراف آئین سے ہو یا عوام سے کیے گئے وعدوں سے‘ دونوں صورتوں میں یہ ملک و قوم کے خلاف سازش ہے۔ بیرونی مداخلت کا بیانیہ بھی ضرور بیچیں لیکن خیال رہے کہ شعلہ بیانی اور اشتعال انگیزی میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ پھر اس اشتعال انگیزی پر آپ خود بھی قابو نہ پا سکیں۔
ماضی کے سبھی ادوار سے جاری یہ مجہولِ سیاست اور معذور طرزِ حکمرانی جوں کا توں جاری ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کردار اور چہروں کے سوا نہ کچھ بدلا ہے اور نہ ہی کچھ بدلتا نظر آرہا ہے۔ اکثر چہرے تو وہی ہیں جو ہر دور میں پارٹی اور وفاداری کی تبدیلی کے ساتھ ہر بار عوام کو کھلا دھوکا دیتے ہیں۔ یہ سبھی بوئے سلطانی سے مجبور اور نظریات سے عاری ہی پائے گئے ہیں۔ عوام کی سادگی کا ماتم کیا جائے یا ان کے نصیب کا‘ جو ہر بار سیاستدانوں کو مینڈیٹ دے کر مقدر کا سکندر تو بنا دیتے ہیں‘ لیکن اپنے مقدر کو ووٹ کی سیاہی مل کر خود ہی سیاہ کر لیتے ہیں۔ سیاہ بختی اور بدنصیبی کا یہ دور یونہی چلتا رہے گا؟ اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہوں یا اختیارات سمیت بے پناہ نعمتوں کے حامل‘ کیا وہ نہیں جانتے کہ اقتدار کا پہلا دن ہی اختتام کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ گویا ہر گزرتا ہوا دن اقتدار کی اختتامی منزل کا سنگِ میل ہوتا ہے۔ اقتدار ہو یا اختیار‘ شروع ہوتے ہی اختتام کی طرف دوڑا چلا جاتا ہے۔ اپنے ہی ہاتھوں اپنے راستے کھوٹے کرنے اور منزلیں اجاڑنے والے خدا جانے کارکردگی کے بجائے بیانیہ سازی پر انحصار کیوں کر لیتے ہیں۔ کارکردگی اور قول کی حرمت سے بے نیاز سیاستدان حصولِ اقتدار کے لیے مارے مارے پھرنے والے ہوں یا آزمائے ہوئے‘ سبھی نجانے کن ناکردہ گناہوں کی سزا اور عذابِ مسلسل لگتے ہیں۔ وہی چہرے وہی کردار۔ وہی دعوے وہی بڑھکیں۔ وہی بیانات وہی الزام تراشیاں۔ نہ کوئی اخلاقیات نہ کوئی شرم و لحاظ‘ نہ احترامِ آدمیت۔ تحمل‘ برداشت اور بردباری جیسے اوصاف تو گویا ناپید ہی ہو چکے ہیں۔ زبانوں سے ایک دوسرے کے خلاف یوں شعلے اگلتے ہیں کہ بس نہیں چلتا مدِمقابل کو بھسم کر ڈالیں۔ ایسی چیخ و پکار کرتے ہیں‘ جیسے ان کی جائیدادوں کے جھگڑے اور ذاتی دشمنیاں ہوں۔ ملک کو کہیں اکھاڑا تو کہیںعناد‘ بغض اور انتقام کی آگ سے انگار وادی بنا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ قسمت ہی روٹھ گئی ہے۔ تبھی تو یہ سیاہ بختی پون صدی گزرنے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر دن‘ ہرگھنٹہ‘ ہر لمحہ مایوسی‘ اندیشوں اور وسوسوں میں اس قدر اضافے کا باعث ہے کہ بیان کرنا بھی چاہوں تو الفاظ کم پڑ جاتے ہیں کہ ہم ان حالاتِ پریشاں کے اظہار سے قاصر ہیں۔
اب تو گلی‘ محلوں‘ تھڑوں اور چوراہوں سے لے کر ایوانوں تک سبھی ایک دوسرے سے ایک ہی سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ ا ب کیا ہوگا؟ اچھے بھلے سیاسی پنڈت اور دور کی کوڑی لانے والے بھی ششدر اور حیران ہیں کہ ان کی پیشگوئیاں اور سیاسی ٹوٹکے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اپنے مستقبل سے پریشان عوام وطن عزیز کے مستقبل سے خوفزدہ نظر آتے ہیں۔ جس طرح نسبتیں نسلوں کا پتا دیتی ہیں اسی طرح فیصلے اور ان کے نتائج حکمرانوں کی نیت اور ارادوں کا پتا دیتے ہیں۔ اسی تناظر میں ماضی اور حال بھی مستقبل کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ماضی کی کھیتی حال اور حال کی کھیتی مستقبل کو کاٹنا پڑتی ہے۔ ایسی فصلوں کی کٹائی میں خدا جانے کتنی نسلوں کے ہاتھ لہولہان ہونا ابھی باقی ہیں۔ کہیں ہم کوڑھ کی کاشت تو نہیں کررہے؟ یہ سوال روز بروز اس لیے اہم ہوتا چلا جارہا ہے کہ فصل کاٹنے والوں کے ہاتھوں سے رِستا ہوا خون کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہا اور یہ سوال بھی دن کا چین اور رات کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے کہ اب کیا ہوگا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved