تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-09-2022

Triple Squeeze of 1965

اسے غیر دانستہ غفلت پر محمول کیا جائے یا کسی سوچی سمجھی سازش کا نام دیا جائے کہ اب ستمبر کے مہینے میں بھی 65ء کی جنگ کا تذکرہ 6 ستمبر تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ 6 ستمبر کو شروع ہونے والی یہ جنگ سترہ روز تک جاری رہی تھی اور 22 ستمبر کو اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اب مگر ستمبر کے پہلے عشرے کے بعد نہ تو جرائد اور نہ ہی میڈیا و سوشل میڈیا پر اس جنگ سے متعلق کوئی چیز پڑھنے‘ سننے کو ملتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہر سال کوئی نہ کوئی شخص اٹھ کر اس جنگ کے حوالے سے قوم کو ایسی بات بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس کا ذکر نہ تو تاریخی کتب میں ملے گا اور نہ واقعاتی شہادتوں سے جس کی تصدیق ہو گی۔ ایک طبقہ‘ جس میں ہمارے کچھ سیاستدان پیش پیش ہیں‘ محض سیاسی بیان بازی کے شوق کی خاطر آج ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ 6 ستمبر 1965ء کو نصف شب کے قریب شروع ہونے والی اس جنگ میں بھارت کا پلڑا بھاری رہا تھا۔ مقصد اس طبقے کا اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی بہادر افواج کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے نئی نسل کے سامنے ان کا امیج داغدار کیا جائے اور اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کی جائے۔ سیاست کے میدان میں اونچ نیچ تو ہوتی رہتی ہے لیکن دشمن ملک کے مقابلے میں ملکی آن اور سکیورٹی اداروں کے وقار کو مجروح کرنے کیلئے اس قسم کی جھوٹی اور بے سر و پا کہانیوں اور بہتان تراشیوں سے جو نقصان پہنچتا ہے‘ ان کا ازالہ اور مداوا کرنے میں کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسی کئی تقاریر قومی اسمبلی کے ایوان میں کی گئی تھیں۔ کیا بھارت میں آج تک کوئی ایسا وزیر دفاع یا وزیر خارجہ آیا ہے جس نے یہ کہا ہو کہ بھارت کو پاکستان نے جنگِ ستمبر میں شکست سے دوچار کرتے ہوئے اس طرح گھیرے میں لے لیا تھا کہ اسے امریکہ اور روس کے پائوں پڑ کر روتے اور گڑگڑاتے ہوئے خط لکھ کر یہ کہنا پڑا تھا کہ ہمیںاسTriple Squeeze سے بچا لو ورنہ ہمارا حشر نشر ہو جائے گا؟ معاملہ یہ ہے کہ بھارت میں ایسے معاملات پر کسی کی جرأت کی نہیں ہوتی کہ لب کشائی کرے مگر ہمارے یہاں جس کا دل کرتا ہے‘ حقائق و حقیقت سے قطع نظر‘ سیاسی بیان بازی کے شوق میں‘ جو منہ میں آئے کہہ دیتا ہے۔
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو بائیس ستمبر کو گزرے ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ یہی وہ تاریخ تھی جب بھارت اور پاکستان کی افواج میں ستمبر 65ء کی جنگ بندی ہوئی تھی اور جس کیلئے پاکستان پر امریکہ اور روس کا دبائو اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس جنگ بندی کا معاہدہ کرنا پڑا تھا۔ اگر کوئی اس کالم کو اداروں کی مدح سرائی سے تشبیہ دیتا ہے تو بحیثیت ایک پاکستانی یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہو گی لیکن ایسے حضرات کی عقل و شعور پر ماتم کرنے یا ان سے بحث کرنے کے بجائے ایسے دوستوں کے سامنے میں بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کا وہ خط رکھنا چاہوں گا جس میں شاستری نے امریکہ سے بھیک مانگتے اور یہ کہتے ہوئے مدد کی درخواست کی تھی کہ بھارت کو بچا لو! لال بہادر شاستری کے اس حوالے سے ایک نہیں بلکہ دو خطوط ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی اور جو آج بھی بھارت کی حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔ نام نہاد دانشوروں اور ترقی پسندوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو بھی ان خطوط کا معالعہ کرنا چاہئے تاکہ انہیں علم ہو سکے کہ 65ء کی جنگ میں ہوا کیا تھا۔
لال بہادر شاستری نے‘ جو 65ء کی جنگ کے وقت بھارت کے وزیراعظم تھے‘ ایک خط نما درخواست نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کو پہنچاتے ہوئے زور دیا کہ اپنی حکومت کو اس پر فوری طور پر ایکشن لینے کا کہا جائے اور یہ انتہائی خفیہ خط بھارتی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ایل کے جھا نے 18 ستمبر 1965 کو ذاتی طور پر امریکی سفارت خانے میں امریکی سفیر کو مل کر ان کے حوالے کیا تھا۔ امریکی سفیر نے اس خط پر جو ٹیلی گرام (کیبل) امریکہ بھیجا‘ اسے ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کے بعد RG59,Central files1964-66 کے نام سے امریکی انتظامیہ کے ریکارڈ میں محفوظ کیا گیا ہے۔چونکہ یہ خط اب ڈی کلاسیفائیڈ ہو چکا ہے‘ لہٰذا اس کے مندرجات تک حصول مشکل نہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ میں اس وقت کے بھارتی سفیر بی کے نہرو نے امریکی صدر لنڈن بی جانسن سے ایک ہنگامی ملاقات کی تھی جس میں بھارتی وزیراعظم کا جنگ میں چین اور انڈونیشیا کی جانب سے پاکستان کی بھرپور عسکری مدد پر بھارت میں پائی جانے والی ''شدید پریشانیوں اور اضطراب‘‘ سے امریکی صدر کو آگاہ کرنے والا ایک خط صدر کو دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکی فوج کے سینئر ارکان بھارت کی مسلح افواج کی رہنمائی کیلئے نئی دہلی بھیجے جائیں۔ بی کے نہرو نے لال بہادر شاستری کا بھیجا ہوا خفیہ خط امریکی صدر جانسن کو دیتے ہوئے کہا:
Dehli felt there was a clear Chinese- Pakistan- Indonesian understanding to put a triple squeeze on us.
پاکستان کے سیاستدانوں‘ حکمرانوں سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا خمیازہ بھی سب کو بھگتنا پڑا ہے لیکن اپنے ریاستی اداروں پر جنگ ہارنے اور ناقص کمان جیسے بے بنیاد الزامات لگانا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ وہ بھی ایسی صورت میں جب تمام حالات ان الزامات کی نفی کرتے ہوں۔ ایسا کہنا یقینا اس وطن کے شہیدوں اور غازیوں کے خون اور ان کی دی گئی قربانیوں سے غداری کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگِ ستمبر سے پہلے پاکستان کے ترکی، ایران اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے اس قسم کے تعلقات تھے کہ ان سب نے اپنے وسائل پاکستان کیلئے وقف کر دیے تھے اور یہی ایک حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی ہوتی ہے۔ انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو نے جنگ کا آغاز ہوتے ہی اپنی نیوی کے ذریعے بھارت کے سمندروں میں کچھ اس قسم کی سٹریٹیجک ناکہ بندی کر رکھی تھی کہ بھارتی بحریہ کا مغربی پاکستان کی جانب بڑھنے کا خواب اس کے دل ہی میں دب کر رہ گیا تھا۔ دوسری جانب چین بھی اپنے دوست کی بھرپور مدد کیلئے تیار تھا۔ دورانِ جنگ بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے یہ اطلاع دیتے ہوئے نئی دہلی کو چونکا دیا تھا کہ چینی فوج کی چند بٹالینز لداخ میں بھارت کی مشرقی سرحدوں اور مقبوضہ کشمیر میں چھمب سیکٹر کی طرف حرکت میں آ تی دیکھی جا رہی ہیں۔
اگر اس وقت کی دونوں عالمی قوتوں‘ امریکہ اور روس کے ذریعے دبائو ڈال کر پاک بھارت جنگ بندی نہ کرائی جاتی تو بھارتی نیوی کے ہیڈ کوارٹر اور ان کے جنرل ہیڈ کوارٹر کے وار روم کے اس خدشے کو حقیقت بننے سے روکنا مشکل ہو چلا تھا کہ جلد ہی پاکستان انڈونیشین نیوی کی مدد سے جزائر انڈیمان اور نکوبر پر قبضہ کرتے ہوئے بھارت کو سخت نقصان پہنچا ئے گا۔ یہاں پر یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ ان کو یہ خدشات کیوں لاحق تھے؟ کیا ان میں کچھ حقیقت بھی تھی؟ اس کی تفصیلات جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ انڈونیشیا نے پاکستان کیلئے خود کو اس قدر خطرے میں کیوں ڈالا؟ اور امریکہ، بھارت اور روس سمیت مغربی ممالک نے کیسے مل کر صدر سوئیکارنو کو اس کی سزا دی۔ سب سے پہلے یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنا پڑے گی کہ پاکستان کے عظیم دوست چین کے صدر چو این لائی نے اس سلسلے میں صدر سوئیکارنو کو ہمت دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انڈونیشیا نے اپنے بڑے بحری بیڑے‘ جن میں روس سے لی گئیں سب میرینز، ریگا کلاس فریگیٹس، سکوری کلاس ڈسٹرائیرز‘ اگر لکھتا جائوں تو ان کی تفصیلات بہت طویل ہو جائیں گی، بس یہ سمجھ لیجئے کہ صدر سوئیکارنو نے جنگ ستمبر میں پاکستان کے تحفظ کیلئے انڈونیشیا کی پوری بحریہ کو وقف کر دیا تھا بلکہ اس وقت کے پاکستانی صدر اور فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایئر مارشل اصغر خان کو ایک خفیہ مشن پر انڈونیشیا بھی بھیجا تھا۔ صدر سوئیکارنو انڈونیشین نیوی کی سب میرینز اور میزائل بوٹس پاکستا ن بھیجنے اور ساتھ ہی پاکستان کی ایئر فورس کو مزید تقویت دینے کیلئے MIG طیارے دینے پر بھی تیار ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کا گولہ بارود بھیجنے کیلئے بھی وہ چوبیس گھنٹوں کا وقت مانگ رہے تھے۔ جیسے ہی بھارت کو اس کی خبر ہوئی‘ نئی دہلی کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور لال بہادر شاستری امریکی صدر جانسن کے آگے مدد کیلئے گڑگڑانے لگے۔
بی کے نہرو نے شاستری کا دوسرا خط جب امریکی صدر کو دیا تو اپنے ساتھ بیٹھے سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین رسک سے کہا ''امریکہ کو اب فوری طور پر بھارت کی مدد کیلئے آنا ہو گا کیونکہ اگر پاکستان نے چین اور انڈونیشیا کی مدد سے بھارت کو ذرا بھی نقصان پہنچایا تو اس کا نقصان امریکہ کو بھی ہو گا کیونکہ پھر بھارت چین کا مقابلہ کرنے کیلئے اس پوزیشن میں ہی نہیں رہے گا کہ اسے دبائو میں لا سکے۔ بھارت کے پاس اب بھی یہی ایک حربہ ہے یا شاید امریکہ کا مفاد‘ جس کے سبب آج تک امریکہ بھارت کے خلاف جانے سے گریز کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت بھارت کا جھکائو امریکہ کے برعکس سوویت یونین یعنی روس کی جانب تھا۔ بھارت کا سارا اسلحہ بھی روسی ساختہ تھا مگر اس کے باوجود بھارت نے امریکہ پر دبائو ڈال کر عین جنگ کے دوران پاکستان کو اسلحے کی فراہمی بھی رکوا دی تھی۔
بھارت نے جنگ ستمبر کی جنگ بندی سے تین دن پہلے ہی امریکیوں پر یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر پاکستان انڈونیشیا کی مدد سے نکوبر اور انڈیمان کے جزائر پر قابض ہو جاتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ پورا خطہ قدرتی طور پر چین کے کنٹرول میں چلا جائے گا، اس طرح امریکہ چین کو جنوبی ہند کے سمندروں میں الجھانے کے لائق نہیں رہے گا۔ یہیں سے جنگ بندی کیلئے روس اور امریکہ نے پاکستان پر سخت دبائو ڈالنا شروع کیا اور بھارت کی جان بچائی۔واضح رہے کہ قائداعظم نے بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم لیگ انڈونیشیا کی برطانوی راج سے آزادی کی جنگ میں ایسے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو ہندوستان سے انڈونیشیا جا کر جنگِ آزادی میں شریک ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر انڈونیشین قوم کو آزادی دلائی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved