ٹرانس جینڈر ایکٹ آج کل ہر جگہ موضوعِ بحث ہے۔ کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر اس بارے بعض ایسی باتیں سننے کو مل رہی تھیں جو فطرت اور شریعت کے خلاف معلوم ہوتی ہیں اور جو ہمارے پہلے سے بکھرے ہوئے معاشرے کو زیادہ تیزی سے انتشار کا شکار کر سکتی ہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کے لیے کئی بار سوچا لیکن معلومات جمع کرنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ یہ زبان زد عام ایکٹ ہے کیا؟ ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ء درحقیقت ایک قانون ہے جسے پاکستان کی پارلیمنٹ نے 2018ء میں قانونی طور پر خواجہ سرائوں کو مساوات فراہم کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ملک میں خواجہ سرائوں (مخنث) کو قانونی طور پر تسلیم کرنا تھا۔ اس ایکٹ کی منظوری سے بظاہر انہیں عام شہریوں کی طرح تمام فوائد اور حقوق حاصل کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک سمجھاجاتا ہے جو خواجہ سرائوں کو قانونی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس ایکٹ کی بدولت، خواجہ سرا ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ تک حاصل کر سکتے ہیں۔ خواجہ سرا اپنی صوابدید پر قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے ریکارڈ میں اپنی مرضی سے جنس کی شناخت کر سکتے اور اسے تبدیل کرا سکتے ہیں۔ گھر میں یا عوامی جگہ پر خواجہ سرائوں کو ہراساں کرنا ممنوع ہے۔ تعلیمی یا معاشرتی طور پر خواجہ سرائوں سے امتیازی سلوک ممنوع ہے۔ یہ ایکٹ حکومت کو محفوظ مکانات قائم کرنے اور خواجہ سرائوں کو طبی اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کا پابند بناتا ہے۔ اس سے حکومت کو سائیکو تھراپی مہیا کرنے کے لیے مراکز قائم کرنے کی بھی سہولت ملتی ہے۔ یہ قانون حکومت کو جیلوں میں خواجہ سرائوں کے لیے الگ کمرے قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔ کسی شخص کو خواجہ سرائوں سے زبردستی بھیک منگوانے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ اور 6 سال تک قید یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انہیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک کی فراہمی میں قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ خواجہ سرائوں کو کوئی عوامی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
''ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ‘‘ میں خواجہ سرا کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں؛ پہلے نمبر پر انٹر سیکس خواجہ سرا ہیں، جن کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ ان میں مرد و خواتین‘ دونوں کی جینیاتی خصوصیات شامل ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔ دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں، جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت کی اپنی جنس سے خود کو مختلف یا متضاد سمجھتے ہوں۔ 2019ء میں سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواجہ سرائوں کی کل تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہے اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات عام ہیں۔ خصوصاً خیبر پختونخوا میں خواجہ سرائوں کے خلاف جنسی تشدد کے بے شمار واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈرز کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، اس ایکٹ کے تحت خواجہ سرائوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص جرم کا مرتکب ہو گا۔ یہ قانون 25 ستمبر 2012 ء کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا۔ اس قانون میں واضح کیا گیا کہ خواجہ سرائوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا اور یہ درخواست اسلامی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ہرمافروڈائٹ (hermaphrodite) بچوں کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے باعزت طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔اِس وقت ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف درخواستیں وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کو اسلامی احکام کے منافی قرار دے کر چیلنج کرنے والے متعدد افراد کو اس قانون کے خلاف درخواستوں میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد 2018ء سے نافذالعمل ہونے والے اس قانون کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس ایکٹ کی کئی شقوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شرعی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور یہ کہ یہ ایکٹ نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
ٹرانس جینڈر درحقیقت ایک مغربی اصطلاح ہے اور یہ ایک پوری کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہے جسے عرفِ عام میں 'ایل جی بی ٹی‘ کہتے ہیں۔ اس کمیونٹی کو خواجہ سرائوں (مخنث) سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ 2018ء کے ایکٹ میں جنس کے تعین یا جنس کی تبدیلی کا اختیار خود فرد کو دے دیا گیا اور اس میں خواجہ سرا (مخنث) کی قید بھی نہیں۔ یعنی کوئی بھی فرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس مرد سے عورت یا عورت سے مرد کرا سکتا ہے۔ اور یہ محض خدشات نہیں بلکہ سینیٹر مشتاق احمد خان کے ایک سوال کے جواب میں سینیٹ کو بتایا گیا کہ 2018ء کے بعد تین برسوں میں نادرا کو جنس کی تبدیلی کی تقریباً 31 ہزار کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس مرد سے عورت جبکہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس عورت سے مرد کرائی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مخنث یعنی خواجہ سرائوں کی مجموعی طور پر محض 30 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 21 نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر اپنی جنس کے اندراج کی درخواست دی۔ ان اعداد و شمار سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ ایکٹ کا فائدہ خواجہ سرائوں کو نہیں ہو رہا بلکہ اس کی آڑ میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسی لیے اس ایکٹ کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کونسل نے اپنے اعلامیے میں حقیقی مخنثوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ٹرانس جینڈر ایکٹ کے جائزے کے لیے کمیٹی بنائے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترمیم اس تبدیلی کو میڈیکل ٹیسٹ کے ساتھ مشروط کرتی ہے یعنی ایک مرد سرجن، ایک لیڈی سرجن اور ماہر نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ درخواست گزار مخنث ہے یا نہیں اور اس کا اندراج کس جنس کے طور پر کیا جانا چاہئے۔ برطانیہ میں بھی 2004ء میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کو لازمی قرار دیا گیا تھا جبکہ ہمارے یہاں مذکورہ ایکٹ میں کسی بھی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلیٔ جنس کا آپریشن کرانے کی کھلی چھٹی دی گئی اور جس نے ہم جنس افراد کی باہمی شادی کا قانونی راستہ کھول دیا۔ اب کوئی مرد عورت کی جنس کے ساتھ قومی شناختی کارڈ بنوا کر نہ صرف عورتوں کی مختص سیٹوں پر ملازمت حاصل کر سکتا ہے بلکہ دیگر کئی فوائد بھی لے سکتا ہے اور یقینا یہ امر قانونِ فطرت اور شریعت‘ دونوں کے خلاف ہے۔ یہ انتہائی حساس مسئلہ ہے ۔ اب یہ ارکان پارلیمنٹ، مذہبی جماعتوں، سماجی تنظیموں، دانشوروں اور علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ ترمیمی بل کو منظور کرانے اور جنس کی تبدیلی کے لیے طبی معائنے کو لازمی قرار دلانے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں پر دبائو بڑھائیں تاکہ مخنثوں کی آڑ میں دوسرے مقاصد کو فروغ دینے اور معاشرتی تہذیب کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved