تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-10-2022

’’ نفسیاتی‘‘ کون نہیں؟

کوئی الجھن سی الجھن ہے کہ اب کوئی بھی سلجھا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ زمانے کی روش ایسی بدلی ہے کہ جس میں بالغ نظری ہے وہ عجیب دکھائی دیتا ہے، جو تعقل پر یقین رکھتا ہو اُس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں اور جو ایک قدم آگے جاکر دانش کا پرچار کرتا ہے وہ تو کسی اور ہی سیارے سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہاں‘ بے ذہنی کے ساتھ زندگی بسر کیجیے، عقل سے کام لینا ترک کیجیے اور سب میں گھل مل جائیے۔
فی زمانہ جو چند اصطلاحات عوامی سطح پر بے حد مقبول و مستعمل ہیں اُن میں ''نفسیاتی‘‘ بھی شامل ہے۔ اب ہر اُس شخص کو نفسیاتی کہہ دیا جاتا ہے جو ذرا سا الجھا ہوا ہو۔الجھا ہوا کون نہیں؟ اب معاملہ یہ ہے کہ ہر انسان غیر معمولی دباؤ کے تحت جی رہا ہے۔ کسی ایک معاملے کا دباؤ ہو تو بات بھی ہے۔ یہاں تو دباؤ ہی دباؤ ہے۔ ایک طرف کمانے کا دباؤ ہے اور دوسری طرف رشتے اور تعلقات نبھانے کا دباؤ۔ اپنے وجود کے لیے وقت نکالنا بھی اب خاصے دباؤ والا معاملہ ہے۔ بڑے شہروں میں جینے والوں کا یہ حال ہے کہ ع
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں
جو بہت مصروف ہیں وہ تو وقت کے حوالے سے پریشان ہیں ہی، جن کے پاس کوئی کوئی کام نہیں اُن کے پاس بھی وقت نہیں! یہ ایسی دلچسپ حقیقت ہے کہ غور کیجیے اور محظوظ ہوتے رہیے۔ بڑے شہروں میں رہنا وقت کو ٹھکانے لگاتے رہنا ٹھہرا ہے۔ فی زمانہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے اس لحاظ سے فائدے میں ہیں کہ اُن کا وقت اس طرح ضائع نہیں ہوتا۔ بڑے شہروں میں فاصلے بھی بڑے بڑے ہیں۔ انسان یومیہ سفر ہی میں کھپ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُس کے دل و دماغ پر دباؤ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کراچی ہی کی مثال لیجیے۔ لوگ کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے لیے یومیہ تیس‘ چالیس کلومیٹر کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف تو اس یومیہ سفر کا خرچہ اچھا خاصا ہے اور دوسری طرف تھکن ہے اور سب سے بڑھ کر ہے وقت کا ضیاع۔ وقت کا ضیاع ایسا معاملہ ہے جس پر انسان زیادہ کُڑھتا ہے۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ انسان کو وقت کے ضیاع کا احساس تحت الشعور کی سطح پر ہوتا ہے۔ وہ پیسوں اور جسمانی توانائی کے ضیاع کے بارے میں شعوری سطح پر سوچتا ہے۔ وقت کے ضیاع کا احساس ذہن کی نچلی سطح پر کسی کونے کھدرے میں پایا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ آج کا انسان بہت سے بلکہ بیشتر معاملات میں انتہائی دباؤ کے تحت جی رہا ہے۔ ایک طرف معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد ہے اور دوسری طرف گھریلو اور خاندانی زندگی۔ کمانے کے ساتھ ساتھ رشتوں اور تعلقات کو بھی نبھانا ہے۔ گویا پورے رونق میلے کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی پریشان کن ہے۔ کم و بیش ہر انسان کے لیے کسی نہ کسی قسم کا دباؤ موجود ہے۔ اب ذہنی دباؤ سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ جس کی جیب خالی ہے وہ بھی پریشان ہے اور جس کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں وہ بھی الجھن میں مبتلا ہے۔ سب کو اپنے اپنے حصے کے دُکھ ملے ہوئے ہیں۔
جب پورا معاشرہ ہی ذہنی سطح پر گنجلک ہوچکا ہو تب اس بات کی گنجائش کہاں رہتی ہے کہ محض چند افراد کو ''نفسیاتی‘‘ کہتے ہوئے الگ کردیا جائے۔ اب تو سبھی کے ذہن الجھے ہوئے ہیں۔ اب مسئلہ یہ آ پڑا ہے کہ کسے ''غیر نفسیاتی‘‘ قرار دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اس حد تک الجھا ہوا ہے کہ اُس کا اپنا وجود بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ کوئی کسی کے لیے الجھنیں پیدا نہ کرنا چاہتا ہو تب بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی جاتا ہے جو پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی سے پہنچنے والی تکلیف دانستہ ہو یا کسی بڑی منصوبہ بندی کا حصہ ہو۔ اب تمام معاملات آپس میں ایسے جُڑے ہوئے ہیں کہ کسی ایک معاملے کا دیگر معاملات پر اور بہت سے معاملات کا کسی ایک معاملے پر اثر انداز ہونا فطری امر ہے۔ ہم نا دانستہ طور پر بھی کسی کو پریشان کر بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھی کسی کی طرف سے ہمیں ایسی الجھن ملتی ہے جو اُس کی شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بعض معاملات کا دائرہ پھیلتے پھیلتے بہت سے معاملات کو لپیٹ میں لیتا ہے اور یوں بہت کچھ بگڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں کون کس پر الزام دھرے؟ اور کیوں؟
آج کی زندگی ایسی الجھی ہوئی ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی چند ایک معاملات میں کچھ غلط کر بیٹھتا ہے۔ ایسے میں کسی کو خواہ مخواہ نفسیاتی مریض سمجھ لینا خلافِ دانش ہے۔ سبھی کے ذہن الجھے ہوئے ہیں۔ ہر عہد کی چند نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں۔ آج کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ذہنوں پر دباؤ بڑھتے رہنے سے انسان معقول نظامِ فکر و عمل تیار کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اب ہر معاملے کو تواتر کے ساتھ دیکھنا پڑتا ہے تاکہ کوئی بھی الجھن بلا جواز طور پر پنپ کر پوری زندگی کو ڈبونے پر نہ تُل جائے۔ جس طور آنکھ جھپکنے پر کبھی کبھی جان لیوا حادثہ ہو جاتا ہے بالکل اُسی طور ذرا سی عدمِ توجہ سے بہت سے معاملات شدت کے ساتھ بگڑ جاتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عام آدمی پر ذہنی دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ دنیا کی آبادی محض بڑھ نہیں رہی بلکہ اُس کی نوعیت بھی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ میڈیا کے فروغ سے اب کسی بھی فرد کا مکمل نارمل حالت میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، بہت سے معاملات اُس پر اثر انداز ہوکر ہی رہتے ہیں۔ محض گزارے کی سطح پر جینا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ جب انسان کچھ بننے کا سوچتا ہے تب پتا چلتا ہے کہ اس راہ میں کتنے اور کیسے سخت مقام آتے ہیں۔ جب انسان دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا ہے تب زندگی امتحان میں تبدیل ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ کس طور ممکن ہے کہ ذہن پر دباؤ نہ پڑے اور انسان نارمل رہے؟ اور پھر نارمل کی تعریف کیا ہے؟ یہ کس طور متعین ہو پائے گا کہ کوئی نارمل ہے یا ابنارمل؟ فی زمانہ کسی بھی انسان کا مکمل ہوش و حواس کی حالت میں رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ عام آدمی زیادہ مصروف نہیں رہتا۔ اس کے پاس اچھا خاصا وقت ہوتا ہے پھر بھی وہ کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اِس عمل کے دوران قدرے بدحواس ہو رہتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جن کی مصروفیات واقعی بہت زیادہ ہیں اُن کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ جب ذہن پر تواتر سے دباؤ مرتب ہو رہا ہو تب وہ بہت سے معاملات میں مطلوب طرزِ فکر و عمل کا حامل نہیں رہ پاتا۔ یوں غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی کو ''نفسیاتی‘‘ قرار دیا جائے تو؟ آج کل جو بھی شدید ذہنی دباؤ کے باعث تھوڑی غیر معروف یا ناپسندیدہ طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ کرے اُسے ''نفسیاتی‘‘ قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔
اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے کم ہیں کہ فی زمانہ ذہن پر مرتب ہونے والا بوجھ اس قدر ہے کہ انسان کے لیے ہر معاملے میں متوازن طرزِ فکر و عمل کا حامل رہنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ہم خود بھی بہت سے معاملات میں کسی جواز کے بغیر توازن کھونے لگتے ہیں۔ یہی معاملہ دوسروں کا بھی ہے۔ لازم ہے کہ زمانے کے مجموعی تاثر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ جب مختلف حوالوں سے دباؤ بڑھتا ہے تب متوازن رہنا کافی دشوار ثابت ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو ناممکن بھی ٹھہرتا ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو؟ کسی غلطی کا سرزد ہونا کسی کے نا اہل ہونے کا ثبوت ہے نہ سند۔
ہمارے اپنے معاشرے کا یہ حال ہے کہ جو کوئی بھی ذرا سی اصول پسندی دکھائے، عقل کے مطابق زندہ رہنے کی کوشش کرے، دانش سے کام لیتے ہوئے معاملات کو درست کرنے پر متوجہ ہو اور کسی کو بے جا رعایت دینے کے لیے تیار نہ ہو اُسے ''نفسیاتی‘‘ قرار دینے میں تاخیر سے کام لیا جاتا ہے نہ بُخل سے۔ اور ہم اس کا نتیجہ بھی جانتے ہیں۔ جب ہم کسی کے معقول رویے کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں تو اپنے لیے الجھنیں محض بڑھارہے ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved