تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     02-10-2022

گردش ِایام پہ رونا آیا

وزیر اعظم ہاؤس کے آڈیو کلپس لیک ہوئے تو تحریکِ انصاف نے اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کیا۔ ان آڈیو لیکس پر تحریک انصاف کا جشن جاری ہی تھا کہ عمران خان کی مبینہ آڈیو لیک ہو گئی جس میں وہ اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے ساتھ سائفر سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔ دوسری آڈیو میں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی بھی شریک تھے‘ جس میں عمران خان امریکہ کا نام نہ لینے کی ہدایت دے رہے تھے۔ عمران خان ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہونے کے دعویدار ہیں مگر فکری اعتبار سے وہ اس سطح کے لیڈر معلوم نہیں ہوتے۔ وہ جلسوں میں ایک پیپر لہراتے رہے جس پر ان کے حامی امریکی مداخلت کا شور مچاتے رہے جبکہ عمران خان خود اپنے قریبی رفقا کو اس کے برعکس ہدایت دے رہے تھے۔ کیا یہ دہرا معیار اور قول و فعل کا تضاد نہیں ؟ قومی سطح کے لیڈر کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دو عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے الگ مؤقف رکھے جبکہ قیادت کے سامنے دوسرا مؤقف پیش کرے۔ عمران خان کی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ گفتگو سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سازش کی کہانی تراشنے میں وہ تنہا نہیں تھے۔ نہ صرف یہ کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اصل کہانی کا معلوم تھا بلکہ وہ بھی عمران خان کی طرح جلسے جلسوں میں زور و شورسے امریکی سازش کو بیان کرتے رہے ۔
آڈیو کو ہیکر سے منسوب کرنا بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا۔ ہماری دانست میں یہ ہیکر کا کام نہیں ہو سکتا ۔ ہیکر قطعی طور پر اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کرتا۔ اسے صرف پیسوں سے غرض ہوتی۔ کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ ابھی بہت سی آڈیوز آنا باقی ہیں۔ ان آڈیوز میں جو ہو گا وہ اس ضمن میں اشارے بھی دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن کے پاس آڈیوز موجود ہیں وہ اپنی پسند کے لوگوں کو پہلے سے وہ سنوا چکے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کی آڈیو لیک ہونے کے بعد آنے والی آڈیو نے تحریکِ انصاف کے امریکی بیانیے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس ضمن میں اہلِ دانش کے دیرینہ مؤقف کو تقویت مل رہی ہے۔ عمران خان کو حکومت سے ہٹائے جانے کے بعد انہوں نے امریکی مداخلت کا بیانیہ گھڑا تھا جس کے بارے ہمارا روزِ اول سے خیال تھا کہ اس میں صداقت نہیں ہے۔ اب لیک ہونے والی آڈیوز نے اس مؤقف پر مہر ثبت کر دی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ایک بیانیہ تراشتے ہیں‘ ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کو داؤ پر لگاتے ہیں‘ اداروں کی بے توقیری کرتے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد اس پر یقین بھی کر لیتی ہے‘ حالانکہ یہ معاملہ کابینہ میں لایا گیا تو اسد عمر کی طرح کابینہ کے کئی اراکین نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ یہ لیٹر نہیں ہے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے‘ انہیں بھی اسد عمر کی تائید کرنی چاہئے تھی مگر وہ بوجوہ خاموش رہے۔
وزیر اعظم ہاؤس کی آڈیو لیک ہونے کے بعد دو کام ہوئے ہیں‘ ایک یہ کہ اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر کے تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے امید ہے بہت جلد کمیٹی حتمی سفارشات پیش کرے گی اور ذمہ داران کے چہرے قوم کے سامنے آ سکیں گے۔ دوسرا کام یہ ہوا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں موبائل فون اور لیپ ٹاپ لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ حساس اداروں نے وزیر اعظم ہاؤس اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سائبر سکیورٹی کا جائزہ لیتے ہوئے ایس او پیز تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں لگائی گئی تنصیبات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے‘ مستقبل میں سائبر سکیورٹی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جدید آلات نصب کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ آڈیو لیکس سے قبل وزیر اعظم ہاؤس میں میٹنگ کیلئے آنے والے گریڈ22 کے افسران کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ لانے پر پابندی نہیں تھی مگر ایس او پیز کی تبدیلی کے بعد سیکرٹریز کو پابند بنائے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں متعلقہ سیکرٹری وزیراعظم ہاؤس آنے سے پہلے بریفنگ کی تفصیلات وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ارسال کرنے کا پابند ہو گا پھر اگر وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری سمجھے کہ متعلقہ سیکرٹری کو لیپ ٹاپ بھی ساتھ لانا چاہئے تو پرنسپل سیکرٹری وزیر اعظم ہاؤس کے سکیورٹی انچارج کو اس حوالے سے آگاہ کرے گا۔ وزیراعظم ہاؤس‘ سیکرٹریٹ اور ایوان ِصدر میں خدمات انجام دینے والے سکیورٹی اہلکاروں کی سکروٹنی کا عمل سال میں ایک بار ہوتا تھا مگر اب آڈیو لیکس کے بعد ہر تین ماہ بعد سکیورٹی اہلکاروں کی سکروٹنی کی تجویز سامنے آئی ہے۔ سکیورٹی اہلکار اس سے قبل موبائل فون رکھ سکتے تھے مگر اب انہیں بھی وزیراعظم ہاؤس میں موبائل فون لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ وزیراعظم ہاؤس میں دوسرے اہلکاروں سے رابطہ کرنے کیلئے وائرلیس سیٹ اور انٹرکام استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
عمران خان صاحب جس سائفر کو بنیاد بنا کر اتحادی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں‘ حیرت انگیز امر ہے کہ اس ڈپلومیٹک سائفر کی کاپی وزیراعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ یہ کاپی کب سے غائب ہے اس بارے تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔ عمران خان ایک طرف سائفر پر سیاست کر رہے ہیں مگر دوسری طرف وہ سائفر کسی کو دینے یا دکھانے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں جب سائفر سے متعلق تحقیقات ہو رہی تھیں تب بھی تحریک انصاف نے سائفر اعلیٰ عدالت میں جمع نہیں کرایا تھا۔ اب جبکہ سائفر وزیر اعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہو چکا ہے تو بنیادی بات یہ ہے کہ وہ کون ہے جو دوسروں کو سائفر کی بھنک نہیں پڑنے دے رہا اور وزیر اعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے سائفر کے غائب ہونے کا ممکنہ طور پر فائدہ کس کو ہو سکتا؟ یہ عمران خان ہی ہیں جو قطعی طور پر نہیں چاہیں گے کہ سائفر کی حقیقت لوگوں کے سامنے آ ئے۔
تحریک انصاف نے آڈیو لیکس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سائفر اور آڈیو لیکس نے تحریک انصاف کو بند گلی میں داخل کر دیا ہے کیونکہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہوں گی‘ معاملہ قومی سکیورٹی کمیٹی میں جا چکا ہے جو ملکی سلامتی سے متعلق امور کی نگرانی کا سب سے اہم ادارہ ہے جس کی صدارت وزیر اعظم کے پاس ہے جبکہ وزرا کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے سربراہان بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ کہا جا رہاہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہونے والی ہے کیو نکہ 27مارچ 2022ء کو عمران خان نے سائفر کے مندرجات کا کابینہ سے ذکر کئے تھا جس کے بعد اسے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سیل کر دیا گیا۔بادی النظر میں تحریک انصاف نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی ہے‘ یوں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ سائفر جسے وہ اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں ان کی سیاسی ساکھ کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا اور ایک آڈیو تحریک انصاف کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے کافی ہو گی۔ شاید ایسے ہی موقع کے لیے شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ
مجھ پر ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردشِ ایام پہ رونا آیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved