ہماری نئی نسل شدید اشتعال کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اُس کا ذہن الجھا ہوا ہے۔ الجھے ہوئے ذہن نے معمول کی زندگی کو بھی الجھاکر رکھ دیا ہے۔ عام پاکستانی نوجوان بیشتر معاملات میں شدید مشتعل ہو اٹھتا ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے؟ صرف نقصان‘ اور کیا؟ اشتعال بھلا اور کیا دے سکتا ہے؟ بے سمت اشتعال کے نتیجے میں ہمیں صرف نقصان پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں واحد اور توانا ترین اُمید نوجوان ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو نظر انداز کرکے ملک کے بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ نئی نسل ہمارے لیے سب سے بڑی اُمید کا درجہ رکھتی ہے اور نئی نسل کے لیے بھی اُمید کی بہت اہمیت ہے۔ اگر کسی بھی معاملے میں ہم اُمید سے محروم ہوں تو کام کرنے اور معاملات کو سمجھنے کی بھرپور لگن پیدا نہیں ہو پاتی۔ ویسے تو خیر کسی بھی معاشرے کے تمام ارکان کا پُرامید رہنا ناگزیر ہے مگر نئی نسل کے لیے پُرامید رہنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ رجائیت پسندانہ رویہ ہی نئی نسل کو بہتر زندگی کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
ہر پس ماندہ معاشرے میں حالات کا سب سے زیادہ دباؤ نئی نسل کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نئی نسل پر مختلف حوالوں سے دباؤ مرتب ہوتا رہتا ہے۔ ایک طرف تو اُسے اپنے لیے کوئی راہ منتخب کرکے اُس پر ڈھنگ سے گامزن ہونا ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی ناگزیر ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی معاون ثابت ہو۔ کسی بھی گھرانے میں سب سے زیادہ توقعات نئی نسل سے وابستہ کی جاتی ہیں۔ والدین اور گھر کے دیگر افراد کے لیے نئی نسل ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ اُس کی تعلیم و تربیت اور عمدہ کارکردگی ہی پر گھرانے کی ترقی اور خوشحالی کا مدار ہوتا ہے۔ نئی نسل کو معاشرے میں اپنے لیے الگ مقام بھی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے پہلے بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔
کسی بھی عمومی پس ماندہ معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرے کا نوجوان بھی راہ سے ہٹ کر جی رہا ہے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر موزوں ترین راہ نہیں مل رہی۔ اُس کے دل میں آرزوئیں اور اُمنگیں مچلتی رہتی ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کرے تو کیا کرے۔ ریاستی ڈھانچے کو بھی نئی نسل کی کچھ خاص پروا نہیں اور والدین بھی شدید بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ خاندان کے بزرگ بھی اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔ ایسے میں نئی نسل کا بے سمت ہونا فطری امر ہے۔ ہمارے نوجوان مختلف حوالوں سے شدید دباؤ کے باعث حواس کے معاملے میں متوازن نہیں رہ پاتے۔ اُن کی سوچ میں بھی ٹیڑھ پائی جاتی ہے اور ارادوں کی کمزوری بھی نمایاں ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ اُن پر دباؤ تو مرتب ہو رہا ہے مگر دباؤ سے نجات یقینی بنانے کے معاملات پر توجہ نہیں دی جارہی۔ نئی نسل میں غیرمعمولی توانائی پائی جاتی ہے۔ ارادے بلند اور جذبے جوان ہوتے ہیں۔ اُن کے سامنے امکانات ہی امکانات ہوتے ہیں۔ زندگی ابھی شروع ہی ہوئی ہو تو انسان بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ نوجوانوں سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ اگر خاطر خواہ توجہ دی جائے تو نئی نسل توقعات پر پوری بھی اترتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں نئی نسل کی الجھنوں کے بارے میں نہیں سوچا جارہا۔ اگر کچھ ہو بھی رہا ہے تو محض سرسری طور پر‘ اوپری سطح پر۔ نیم دلانہ سوچ کے ساتھ کچھ بھی کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج کے برآمد ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
معاشرے کو پروان چڑھانے میں نئی اور پُرانی نسل کا ملا جلا کردار ہوتا ہے۔ نئی نسل میں جوش ہوتا ہے اور پرانی نسل میں ہوش۔ نئی نسل میں تجربے کی کمی ہوتی ہے جو پرانی نسل پوری کرسکتی ہے۔ نئی نسل چلنا چاہتی ہے۔ پرانی نسل کو اُس کے لیے راستے تلاش کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ نئی نسل امنگوں سے سرشار ہوتی ہے۔ پرانی نسل میں غیرمعمولی سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ نئی نسل کو بہت سے معاملات میں صائب مشورے درکار ہوتے ہیں۔ پرانی نسل مشوروں سے نوازنے کے معاملے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ نئی نسل کسی بھی ہدف تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ پرانی نسل اُس کے لیے معقول اہداف کا تعین کرسکتی ہے۔
پاکستان کی نئی نسل میں غیر معمولی صلاحیت بھی ہے اور سکت بھی۔ وہ ولولے سے بھی ہم کنار ہے اور کچھ کر دکھانے کی بھرپور لگن بھی رکھتی ہے۔ ضرورت ہے تو بس تھوڑی سی راہ نمائی کی‘ سنجیدگی کی اور معقول طرزِ فکر و عمل کو اپنانے کی۔ ہماری نئی نسل حالات کی روش سے نالاں ہے۔ ہونی ہی چاہیے۔ مستقبل تاب ناک بنانے کے حوالے سے معمولی سے درجے کی بھی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دے رہی۔ نئی نسل کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے معاملے میں ریاستی ڈھانچا اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ نجی شعبہ زمینی حقیقتوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اپنے طور پر جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کر ہی رہا ہے۔ دنیا بھر میں مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے نئی نسل کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے۔ نئی نسل کو تاب ناک مستقبل کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ناگزیر ہے مگر ہمارے ہاں اب تک اس کی ضرورت اور اہمیت کماحقہ محسوس نہیں کی گئی۔
ہماری نئی نسل کی ساری توانائی اشتعال کی نذر ہو رہی ہے۔ جب ذہن میں کچھ نہ ہو تو صرف اشتعال کو راہ ملتی ہے۔ معاشرے میں ہر طرف لُوٹ مار اور بندر بانٹ ہے۔ باصلاحیت اور توانا نوجوانوں کو بہتر مواقع نہیں مل پاتے۔ وہ سرکاری اور غیر سرکاری دونوں ہی سطحوں پر اپنے لیے جب معقول مواقع نہیں پاتے تو اُن میں بدحواسی کا گراف بھی بلند ہوتا ہے اور اشتعال بھی بڑھتا ہے۔ جب ذہن بے ترتیب ہو تو اُس میں معقول انداز سے کام کرنے کی سوچ مشکل سے پنپتی ہے۔ ہماری نئی نسل کو راہ نمائی بھی درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ باصلاحیت نوجوانوں کو معقول مواقع فراہم کرکے اُن سے بہ طریقِ احسن کام لینے کی ضرورت ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں نوجوان ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پارہے۔ وہ اپنے طور پر بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر خاطر خواہ مواقع نہ مل پانے کے باعث کچھ خاص نہیں کر پاتے۔ چڑھتی جوانی بہترین مواقع بھی چاہتی ہے۔ اگر یہ وقت بکھرے ہوئے ذہن کے ساتھ گزرے تو بہت کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ 16سے 18یا 20سال کی عمر کے دوران نئی نسل کو واضح سمت درکار ہوتی ہے۔ اگر اس مرحلے میں درست اور موزوں ترین سمت نہ مل پائے تو ذہن منشتر ہو جاتا ہے۔ نئی نسل چونکہ غیرمعمولی توانائی کی حامل ہوتی ہے اس لیے وہ بہت کچھ بہت تیزی سے کرنا چاہتی ہے۔ اگر موزوں مواقع نہ ملیں تو بدحواسی بھی تیزی سے بڑھتی ہے۔ ذہنی انتشار بہت سے کام بگاڑتا ہے۔ نئی نسل کو ذہنی طور پر توانا رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اُس کی صلاحیت و سکت سے بھرپور استفادہ کیا جائے‘ اُسے کچھ کرنے کے معقول مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس معاملے میں کوتاہی پورے معاشرے کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
جب نئی نسل کو دینے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا تب معاشرے میں انتشار بڑھتا ہے کیونکہ نئی نسل بگڑتی جاتی ہے۔ نئی نسل کا بگڑنا معاشرے میں شدید انتشار کا باعث بنتا ہے۔ کسی نوجوان کے بے راہ رَو ہونے سے پورا گھر بگاڑ کا شکار ہوتا ہے۔ اُس کا بے سمت ہو جانا معاملات کو غیر منطقی انجام تک لے جاسکتا ہے۔ پاکستانی نوجوان کو راہ درکار ہے اور حوصلہ افزائی بھی۔ وہ بہت کچھ کرسکتا ہے۔ اس وقت وہ صرف مشتعل ہے۔ معاملات کا بگاڑ اُس کے ذہنی انتشار میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایسے میں اہلِ خانہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے اور معاشرے کو بھی۔ حکومتی سطح پر ایسی کوششیں کی جانی چاہئیں جن سے نئی نسل کی توانائی اشتعال کی نذر ہونے سے محفوظ رہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved