تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     03-10-2022

ملک کیسے بچتے ہیں؟…(2)

الائیڈ فورسز کی اتنی بڑی فائر پاورز کرہ ٔارض پر پہلے کبھی کسی ایک ملک کے خلاف حملہ آور نہیں ہوئی تھیں‘ اس لئے اتحادیوں کا خیال یہ تھا کہ وہ جرمنی کو مکھی کی طرح مسل کر رکھ دیں گے‘ جو پھر کبھی سر نہیں اُٹھا سکے گا۔ لیکن جرمن قوم نے امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور باقی حملہ آوروں کو بتایا کہ ملک کیسے بچتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں صفحہ ہستی سے مٹادینے والے حملوں کے بعد جاپان اور جرمنی‘ دونوں ملک کس طرح سے بچے؟ یہ صحیح معنوں میں معجزاتی Survival کا کیس سٹڈی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تو جرمنی کی طرح جاپان کی آرمی بھی ختم ہو گئی۔ جب شاہ ہیرو ہیٹو نے جاپان کی فوجوں کے سرنڈر کا فیصلہ کیا تو جاپان کی رائل آرمی کے چیف آف سٹاف مسٹر Mitsuru Ushijimaنے 22 جون 1945ء کو 57 سال کی عمر میں ایک فوجی بیرک کی کھڑکی میں بیٹھ کر اپنی بندوق سے اتاری ہوئی Bayonet دونوں ہاتھوں سے اپنے دل میں اُتار لی۔ امریکی فاتح فوج کے سامنے سرنڈر کرنے کی بجائے موت کی وادی میں اُترنے کو ترجیح دینے والے جنرل Mitsuru Ushijima ایک عظیم کمانڈر کے طور پر تاریخ کے صفحات میں زندہ ہیں اور بلاشبہ جاپانی قوم کے ہیرو بھی‘ جنہیں لیجنڈ آف ورلڈ وار ٹو سیمورائے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس پُرعزم اور باغیرت کمانڈر کی دیکھا دیکھی لاتعداد مزید جاپانی فوجی جرنیلوں اور سولجرز نے اپنے آپ کو سزائے موت دے کر Witness of Surrender بننے سے انکار کر دیا۔
آج وہی جاپان دنیا کی چند پہلی عظیم معاشی طاقتوں اور قابلِ فخر قوموں میں سے ایک ہے۔ جاپانی برینڈز اتحادی ملکوں کی مارکیٹس اور شاپنگ مالز میں چھائے ہوئے ہیں۔
یہاں ایک الم انگیز اور رنج آور سوال یہ ہے کہ ہمارے پیارے وطن کو کیا ہوا؟ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھی ہم مسلسل مغربی قرض اور تقسیم ِ دولت میں ناانصافی کی وجہ سے معاشی مرض کی دلدل میں ڈوبتے چلے گئے۔ آج بنگلہ دیش ہم سے آگے ہے۔ بنگالی ٹکہ تو کیا افغانی روپیہ بھی ہمیں مات دے گیا ہے۔ یہ صرف ایک ریاست کا کامیابی سے ناکامی کی طرف سفر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کے اصل مالکان کا self denialبھی ہے۔ جو ناکامی کو کامیابی‘ ذلت کو عزت اور غربت کو پسے ہوئے طبقات کا مقدر ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور ملک کا ''امپورٹڈ شو بوائے‘‘آن کیمرہ کہتا ہے‘ ہم قرض کا سود واپس کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔
اس طرف پھر آئیں گے۔پچھلی صدی کے سال 1962ء میں واپس چلتے ہیں۔ جب جرمنی امریکی امداد پر چلنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا۔ اور المیہ یہ ہے کہ آج امریکی امداد کے ٹکڑوں پر پلنے والی سب سے بڑی قوم پاکستانی ہے۔ بہت سے قارئین کے لیے 1962ء کی ناقابلِ یقین اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی تب دنیا کے 14 ملکوں سے امداد لیتا تھا۔ امداد دینے والے ان ڈونرز ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اُسی دور میں پاکستان نے 20 سال کے لیے جرمنی کو 12 کروڑ روپے کا قرض دیا تھا۔ اُس کے نتیجے میں جرمن چانسلر صاحب نے اس کمالِ مہربانی پہ گورنمنٹ آف پاکستان کا بھرپور تحریری شکریہ ادا کیا۔ جرمن چانسلر کا وہ Letter of Thanks آج بھی پاکستان کی فارن منسٹری کے آرکائیو میں محفوظ ہے۔
چند سال بعد جرمنی میں مختلف شعبوں کے ہنرمندوں کا قحط بڑھنے لگا تو جرمن حکومت نے پاکستان سے 10 ہزار ہنرمند کارکن مانگ لیے۔ منیجرز عالمی صورتحال کا تجزیہ کرنے سے عاری تھے اس لیے جرمنی کی یہ درخواست مسترد کر دی۔ اس کے بعد جرمنی نے ایک اور اسلامی ملک‘ ہاف یورپین ترکی کے سامنے یہی درخواست رکھی۔ ترکی کی دور اندیش قیادت نے خوش دلی سے ہاں کر دی اور اپنے ہنرمندوں کو فوراً جرمنی پہنچا دیا۔ جس کے نتیجے میں آج جرمنی میں 30 لاکھ سے زیادہ ترک خاندن ایسے ہیں جن کی تیسری نسل ترکش جرمن کہلاتی ہے۔
جرمنی اور 1960ء کے عشرے کا اس کا محسن ملک پاکستان آج کہاں کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا تقابلی جائزہ لیے بغیر ہم یہ کبھی نہیں سمجھ سکیں گے کہ ملک کیسے بچتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آج جرمنی‘ یورپ کی سب سے بڑی اور ناقابلِ شکست معیشت ہی نہیں بلکہ دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت بھی ہے۔ ہمارے کرپٹ لیڈرز‘ جو اقوام متحدہ کی دو سال پہلے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سات سو بلین یو ایس ڈالر کی سالانہ منی لانڈرنگ کرنے والے لٹیروں میں شامل ہیں اس لیے ہم معاشی اعتبار سے دنیا میں 41ویں نمبر پر جھولی پھیلائے کھڑے ہیں۔ جرمنی کا جی ڈی پی 3400 بلین یو ایس ڈالر سالانہ ہے۔ ہمارا ریورس گیئر جی ڈی پی کو 271 بلین ڈالر پر کھینچ لایا ہے۔ جرمن قوم کی سالانہ ایکسپورٹ 2100 ارب یو ایس ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری برآمدات امپورٹڈ حکومت کے آنے سے پہلے صرف 29 ارب ڈالر تک پہنچی تھیں۔ جرمنی اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی تقابل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس لیے آئیے جرمنی کی فی کس آمدنی پر نظر ڈال لیں۔ یہ آمدن 41 ہزار 171 ڈالر ہے جبکہ ہم لڑھکتے لڑھکتے فی کس آمدنی کے1ہزار 434 ڈالر پر جا پہنچے ہیں۔ کسی نے لکھا :پاکستانیو! تصور کرو‘ 50 سال پہلے تم نے جرمنی کو 12 کروڑ روپے کا قرضہ دیا تھا۔ آج جرمنی صرف ایک دن میں 12 کروڑ روپے کے پیپرپن بناتا ہے۔
اس کے باوجود ہم کہتے ہیں پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اتنے محفوظ ہاتھ جو اپنا اور اپنی نسلوں کا مستقبل پاکستان میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ 20 کروڑ لوگ پیدائش سے قبر تک‘ ماچس سے پی ٹی وی تک۔ ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں اور کرپٹ مافیا کے محفوظ ہاتھ اسے دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کے Safe Havens میں پہنچا دیتے ہیں۔ کسان محنت کرتا ہے۔ کھیلنے کی عمر میں اس کے بچے اور بچیاں کھیت میں جُت جاتے ہیں تاکہ ہماری تقدیر کے مالکان کے بچے ہائیڈ پارک لندن یا سینٹرل پارک نیویارک میں کھیل کود سکیں۔ میں نے آپ کو بتایا ملک کیسے بچتے ہیں؟ مجھے آپ بتائیں‘ کیا ملک ایسے بچتے ہیں؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved