کسی بھی سیاسی نظام کو جانچنے کے دو طریقے ہیں‘اول یہ کہ اس کی قدرو قیمت کا اندازہ آئین ،قانون ، گورننس اور نظام عدل کے مسلمہ اور بنیادی اصولوں کی روشنی میں لگا یا جائے۔ہم آئین کے ودیعت کردہ سول اور سیاسی حقوق ،ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم اور ان کے باہمی تعلقات ، قانون کی حکمرانی ،اقتدار کی منتقلی کے طریقہ کار اور حکمرانوں کے احتسا ب کی روشنی میں اس نظام کا جائزہ لیتے ہیں۔اگر سیاسی نظام جمہوریت کی تائید کرتا ہے تواس کی نوعیت کیا ہے اور الیکشن میں کہاں تک انصاف اور مسابقت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
اس کے دوسرے معیار کا فوکس مسلمہ اصولوں کے نفاذ پر ہوتا ہے۔ اس سے مراد گورننس کا عملداری کی سطح پر تنقیدی جائزہ لینا ہے‘ جس کا مفہوم گورننس اورسیاست کے زمینی حقائق میں لیا جاتا ہے۔آئینی اصولوں کا نفاذ کیسے کیا جاتا ہے اور گورننس کے علاوہ فیصلہ سازی کا طریقہ کار اوراس کے حقیقی عناصر کیا کیا ہیں؟ کیا آئین میں ودیعت کردہ سول اور سیاسی حقوق عوام کو بلا امتیاز میسر ہیں؟ریاستی مشینری کس حد تک عوام کو بنیادی سروسز اور بنیادی انسانی ضروریات فراہم کر رہی ہے؟ کیا ایگزیکٹو اور عدلیہ سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہیں ؟ ریاستی پالیسیاں عوام اورملک کے بعض علاقوں کے لیے سماجی اور معاشی تفاوت میں اضافے کا باعث تو نہیں بن رہیں؟حکمرانوں کوکیسے منتخب کیا جاتا ہے اور ان کے احتساب کا طریقہ کار کیا ہے ؟ گورننس میں کرپشن کہاں تک سرایت کر چکی ہے اور اعلیٰ سرکاری حکا م اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ں تک بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں یا ریاستی وسائل کو کہاں تک ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کی ساری توجہ ہمیشہ مسلمہ اقدار اور ان اقدار پر عملد رآمد میں پائے جانے والے فرق پر ہوتی ہے۔ تھیوری اورپریکٹس میں جتنا فرق ہوگا ، گورننس اور سیاسی مینجمنٹ کے حوالے سے اتنے ہی سنگین مسائل درپیش ہوں گے۔ ایسے ممالک میںسیاسی نظام عوام کو بنیادی سہولتیں اور خدمات فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے جن کی بنیادی ضروریات بالا دست اشرافیہ کی ضروریات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ایسے ممالک کو کرپشن کا دیمک کھا جاتا ہے اور سرکاری حکام میں پیسے کی لوٹ مار عام ہو جاتی ہے؛ چنانچہ ریاست بلاامتیاز ادارہ جاتی احتساب میں مشکلات کا سامنا کرتی ہے۔ ایسے سیاسی نظام میں حکمران طبقے کو دولت کما نے ،ریاستی وسائل کی لوٹ مار اور اپنے حواریوں کو نوازنے کے منفرد اور وافر مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ایسے ملک میں قانون کی حکمرانی اور اربابِ اقتدار کے احتساب کی روایت بہت کمزور ہوتی ہے۔یہاں حکمرانوں کی ذاتی ہوس کی حدود اور سرکاری دائرہ کارمیں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔وہ سرکاری وسائل کو بھی اپنے ذاتی استحقاق کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ایسے نظام میں مفادات کے ٹکرائو کے نظریے کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا۔ان ممالک میں یہ ایک عام روایت ہے کہ یہاں اعلیٰ حکام اور ان کے اہلِ خانہ اعلیٰ سیاسی منصب پر بیٹھ کر بھی اپنے بزنس کی سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ان کے دورِاقتدار میں ان کا ذاتی بزنس بھی غیر معمولی انداز میں پھلتا پھولتا ہے۔جو ممالک سرکاری کرپشن کی وجہ سے بدنام ہیں وہاں حکمران اپنے بیٹوں کو دوسرے ممالک میں سیٹل کروا لیتے ہیں اور پھر ان کی کاروباری کامیابیوں کی داستانیں زبان زد عام ہو جاتی ہیں اور وہ سر تا پا دولت میں غرق نظر آتے ہیں۔
اگر ہم ان باتوں کا اطلاق پاکستان پر کریں تو یہ سمجھنا اتنا مشکل نہیں کہ پاکستانی سیاست میں اتنی محاذآرائی کیوں پائی جاتی ہے۔سیاسی اکابرین ہر صورت میں اقتدار پر قبضہ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ریاستی اقتدار ملنے سے انہیں ذاتی اور فیملی کی سطح پر بے شمار سرکاری وسائل دستیاب ہوجاتے ہیں مثلاًانتظامی مشینری او ر وسائل ، دولت اور اثرو رسوخ وغیرہ۔اپوزیشن رہنمائوں کو ذاتی حیثیت میں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے کیونکہ حکمران سرکاری وسائل کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کریں تو مروجہ اقدار اور سیاست وگورننس کی حقیقی عملدار ی میں گہرا تفاوت پایا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین بلندبانگ دعوے اور بیانات تو جاری کرتے رہتے ہیں مگر عوا م کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ضمن میں حکومت کی کارکردگی بہت ناقص ہوتی ہے۔اسی طرح قانون کی حکمرانی بہت کمزور ہوتی ہے جبکہ امیر اور غریب طبقات میں بہت گہری خلیج پائی جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عدم توازن میں اضافہ ہوتا ہے اور سوسائٹی کو جمہوریت کے ثمرات اس لیے نہیں مل پاتے کہ سماجی سطح پر تحمل، برداشت اور ایک دوسرے کے لیے رواداری کا جمہوری کلچر مفقود ہو جاتا۔
پاکستان میں سال ہا سال سے سیاسی اور سویلین حکومت سے متعلق ہمیں ناقص حکمرانی،اقتدار کے ذاتی استعمال ،سرکاری کرپشن اور ریاستی وسائل کے جانبدارانہ استعمال کے حوالے سے کافی ثبوت مل جاتے ہیں۔پاکستانی سیاست کمزور سیاسی جماعتوں میں اس قدر منقسم ہو چکی ہے کہ بیوروکریٹک اشرافیہ کو ان پر بالادستی حاصل رہی ہے۔ریاستی وسائل کے غلط استعمال ،لائسنس ،پرمٹس اور حکومتی پراجیکٹس کے کنٹریکٹس دلوانے کے بدلے میں کمیشن کی وصولی جیسے الزامات پر حکمرانوں کے احتساب کے بارے میں باتیں توبہت کی جاتی ہیں مگر حقیقت میں احتساب کے عمل کا جھکائو زیادہ تر حکمران اشرافیہ کی طرف رہا ہے۔1949ء میں PRODAایکٹ کو سیاسی لیڈروں کو دبائو میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا‘تاہم 1947-58 ء کے عرصے میں حکومتیں بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی رہیں اس لیے حکومت کی تبدیلی کے عمل سے جزوی یا مکمل ریلیف لینا آسان تھا۔ ایوب خان کی حکومت نے EBDOکے تحت بہت سے سیاسی رہنمائوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ایوب خان ،یحییٰ خان او رذوالفقار علی بھٹو نے کئی سو بیوروکریٹس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جن میں دیگر سزائوں کے علاوہ ملازمت سے برطرف یا ریٹائرمنٹ بھی شامل تھی۔
احتساب کا ایک اور نظام1997-99ء میںنواز شریف اور1999-2008ء میں پرویز مشرف نے متعار ف کرایا تھا۔ ان کے بعد آنے والی سویلین حکومتوں نے بھی اپنی سیاسی ضروریا ت کے مطابق احتساب کاعمل جاری رکھا۔عمران خان کی طرف سے سیاسی رہنمائوں کے احتساب کے دعوؤں کی وجہ سے ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا جس میں قومی احتساب بیورو مخالف سیاسی رہنمائوں ،حاضر سروس او رریٹائرڈ بیوروکریٹس، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور دیگر اداروں کے خلاف کافی متحرک نظر آیا۔اپریل 2022ء میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ہمیں احتساب کا ایک نیا چہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت اپنے قائدین کو احتساب سے ریلیف دینے کے لیے پر عزم ہے جس کے لیے انہوں نے احتساب کا قانون ہی تبدیل کردیا ہے جس کے بعد نیب کے اختیارات بہت محدود ہو گئے ہیں۔کئی سیاسی رہنمائوں کے خلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے کیسز واپس لے لیے گئے ہیں۔اسحاق ڈارکی واپسی اور کرپشن سے متعلق کیسز میں 2018ء میں مریم نواز کو ملنے والی سزائوں سے بریت سے اس امر کی بھرپور عکاسی ہو رہی ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین احتساب کے عمل کے حوالے سے کس قسم کا رویہ او ردیرپا پالیسی اپنانے کے خواہش مند ہیں۔ ضرورت اس مر کی ہے کہ احتساب کے عمل کوحکمرانوں کی ذاتی ترجیحات اور سیاسی ماحول میں تبدیلیوں سے مبراکرنے کے لیے احتسابی عمل کا ایک جامع تجزیہ کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved