تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     03-10-2022

پرانے گھر اور نئے خیالات

گزشتہ دنوں میں نے پاکستان میں تعلیم اور صحت کے مسائل اور ان کے حل کے تناظر میں کیوبا کی ان شاندار کامیابیوں کا ذکر کیا تھاجو وہاں ان شعبوں میں حاصل کی گئی ہیں۔ کیوبا میں خواندگی کی شرع سو فیصد کے قریب ہے اور اس ملک میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کو صحت کی تمام سہولیات میسر نہ ہوں۔ اس سے پہلے میں نے کیوبا کے سفر کے دوران اس ملک کے نظام صحت اور تعلیم پر اپنے ذا تی تاثرات و مشاہدات پیش کیے تھے۔ میری گائیڈ ایلیسا کو جن چیزوں میں گہری دلچسپی تھی‘ ان میں ایک تاریخ بھی ہے۔ ہم نے کیوبا کا قدیم ترین تاریخی گھر دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ گھر سولہویں صدی میں کیوبا کے پہلے گورنر کی رہائش گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا‘ یہاں تک ہم نے دو بسیں بدل کر جانا تھا۔ پہلی بس نے ہمیں اس مقام سے کافی دور اُتار دیا۔ یہاں سے ہمیں آگے جانے کے لیے ایک دوسری بس لینی تھی۔ میں نے ایلیسا کو تجویز دی کہ اتنے اچھے موسم میں بس میں بیٹھنے کے بجائے اگر ہم پیدل چلیں تو ہم موسم کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں اور شہر کا یہ حصہ بھی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایلیسا نے میری بات سے اتفاق کیا اور ہم خراماں خراماں اپنی مطلوبہ عمارت کی طرف چل پڑے۔ اس چہل قدمی کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ایلیسا نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے کیوبا کی تاریخ کا ایک جامع خاکہ میرے سامنے پیش کردیا۔ اس نے بتایا کہ کیوبا کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح بر اعظم امریکہ کے مقامی باشندے جنوبی امریکہ سے کیوبا آنا شروع ہوئے۔ کیوبا میں یہ لوگ زیادہ تر زراعت سے وابستہ رہے۔ زراعت میں مکئی‘ تمباکو اور کاٹن ان کی پسندیدہ ہ کاشت تھی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کا انحصار مچھلی پکڑنے اور جنگلی جانوروں کا شکار بھی رہا۔ یورپ کے ساتھ کیوبا کے تعلق کا آغاز 1492 ء میں کرسٹوفر کولمبس کی آمد اور اس کے بعد ہسپانوی حملے سے ہوا۔ اس سے پہلے اس دھرتی کے اصل باشندے ہی اس جزیرے پر آباد تھے لیکن کیوبا پر ہسپانوی قبضے کے بعد یہ لوگ تیزی سے ختم ہوتے گئے۔ مقامی باشندوں کے تیزی سے ختم ہونے کی دو وجوہات تھیں‘ ایک وجہ بیماریاں تھیں۔ حملہ آور اپنے ساتھ جو بیماریاں لائے تھے‘ مقامی باشندے ان سے نا واقف تھے اور ان کے خلاف ان میں قدرتی قوت مدافعت بھی نہیں تھی؛ چنانچہ ان پر جب ان بیماریوں کا حملہ ہوا تو وہ بڑی تعداد میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان کا اس دھرتی سے نام و نشان مٹنے کی دوسری وجہ اپنی دھرتی پر قبضے کا دکھ اور صدمہ تھا۔ نسبتاً بہتر ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی وجہ سے وہ میدانِ جنگ میں ہسپانوی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان لوگوں کو بڑے پیمانے پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا یا گیا؛ چنانچہ ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد صدمے کی کیفیت میں چلی گئی اور اس حالت میں موت کا شکار ہو گئی۔ جب ہسپانوی کیوبا میں فتح کا جشن منا رہے تھے مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد خود کشی‘ صدمے اور دکھ سے مر رہی تھی۔ اس تباہی‘بربادی اور نسل کشی کے بعد کیوبا کے معاشرے پر ان مقامی باشندوں کا اثر محدود ہوتا گیا اور ہسپانوی ثقافت‘ ادارے‘ زبان اور مذہب غالب آتے گئے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں اس جزیرے پر نوآبادیاتی تسلط کے بعد نوآبادیاتی معاشرہ آہستہ آہستہ تیار ہوا۔ زراعت نے معیشت کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔ فتح کے بعد پہلی تین صدیوں تک‘ یہ جزیرہ ہسپانوی بحری بیڑوں کے لیے پڑاو ٔکا کام کرتا رہا۔ یہ بحری بیڑے نئی دریافت شدہ دنیا کا دورہ کرتے اور براعظم امریکہ کی معدنی دولت کے ساتھ سپین واپس لوٹ جاتے۔ اس طرح تین صدیوں تک خوابِ خرگوش میں رہنے والا کیوبا انیسویں صدی میں ڈرامائی طور پر بیدار ہوا۔ اس بیداری کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما تھے۔ ان میں ایک بڑا عنصر ایک آزاد قوم کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ترقی اور بطور طاقت اس کا ابھار تھا۔ دوسرا عنصر ہیٹی کا بحران تھا۔ اس خطے میں چینی پیدا کرنے والی ایک بڑی کالونی کے طور پر ہیٹی کا خاتمہ ہو گیا تھا جس کی وجہ سے ہسپانوی اور کیوبا کا کاروباری طبقہ اس جزیرے پر شوگر انقلاب برپا کرنے کے لیے یکجا ہو گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں کیوبا ایک سوئے ہوئے‘ غیر اہم جزیرے سے دنیا کے بڑے چینی پیدا کرنے والے ملک میں تبدیل ہو گیا۔ جوں جوں گنے کی کاشت اور چینی سے جڑے کاروبار میں اضافہ ہوتا گیا غلاموں کی تعداد بڑھتی گئی۔ بڑی جاگیریں چھوٹی جاگیروں کو نگلنے لگیں۔ غربت کی جگہ خوشحالی نے لے لی۔ ان عوامل نے انیسویں صدی کے اوائل میں آزادی کی طرف پیش قدمی میں رکاوٹ پیدا کی۔ اس وقت جب لاطینی امریکہ کا بیشتر حصہ سپین سے آزاد ہو رہا تھاکیوبا نو آبا دیاتی وفا داری پر قائم رہا۔
انیسویں صدی کے آخر میں ہسپانوی استبداد‘ ٹیکسوں میں اضافہ اور کیوبا کی قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحا نات کے نتیجے میں کیوبا کی سامراجی وفا داری تبدیل ہونا شروع ہوگئی۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں ایک طویل اور خونریز جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ جنگ دس سال تک سپین کے خلاف لڑی گئی‘ لیکن اس جنگ سے کیوبا آزادی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ 1895 ء میں دوسری جنگِ آزادی کے آغاز میں کیوبا کی آزادی کے رہنما ہوزے مارٹی کو قتل کر دیا گیا۔ سپین اور ریاست ہائے متحدہ کے درمیان بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات کے نتیجے میں امریکی 1898 ء میں سپین کیوبا تنازع میں شامل ہو گئے۔ دسمبر 1898ء میں پیرس معاہدے کے تحت امریکہ اس جنگ میں فاتح طاقت کے طور پر ابھرا‘ اس طرح کیوبا سے سپین کے اخراج اور کیوبا کے معاملات پر امریکی بالا دستی کا آغاز ہوا۔ سپین سے آزادی اور انقلاب کے درمیان کیوبا کی حکومتوں کو ریاستہائے متحدہ کی کلائنٹ ریاستوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ 1902ء سے 1932 ء تک کیوبا اور ریاست ہائے متحدہ کے قانون میں پلاٹ ترمیم شامل تھی‘ جس نے کیوبا میں امریکی مداخلت کے حق کی ضمانت دی اور کیوبا کے خارجہ تعلقات پر پابندیاں عائد کیں۔ 1934ء میں کیوبا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے تعلقات کے معاہدے پر دستخط کیے‘ جس میں کیوبا کو امریکی معیشت کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنے کا پابند کیا گیا تھا‘ اس کے بدلے میں امریکہ نے کیوبا کو امریکی چینی مارکیٹ کا 22 فیصد حصہ دیا جو بعد میں 49 فیصد کیا گیا۔ یہ صورتحال کیوبا کے انقلاب تک جاری رہی۔
گفتگو کے دوران ہم اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ کیوبا کا یہ قدیم ترین گھر پہلے گورنر کے نام سے ہی موسوم ہے اور اسے سپینش میں کاسا دے ڈیگو والیزکے کہا جاتا ہے۔ سولہویں صدی کے اس گھر کو بڑی مہارت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کو ایک تاریخی میوزیم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں قدیم تاریخی فرنیچر اور سجاوٹ کا سامان رکھا گیا ہے۔ یہ سامان سولہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی تک کے تاریخی فرنیچر اور ڈیکوریشن کے سامان پر مشتمل ہے۔ گھر کی حالت دیکھ کر کسی طرح بھی نہیں لگتا کہ یہ پانچ سو سال پرانا گھر ہے۔ کیوبا میں اس طرح کی بے شمار پرانی عمارتیں ہیں اور یہ لوگ ان عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ کرنے میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ کیوبا کو پرانی عمارتوں کا گھر سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرانے گھر اور نئے خیالات رکھنے والا ملک ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved