ایسی دانشوری کس کام کی جو حقائق کو توڑ مروڑ کر محض واہ واہ کے لیے ہو۔ہمارے ہاں ایسا ایسا دانشور عقل و دانش سے عاری ہونے کے باوجود اپنی دانشوری پر نازاں اور اترائے پھر رہا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔ ناقص اور ادھوری معلومات کو لے کروہ ادھم مچایا جاتا ہے کہ زمینی حقائق بھی حیران اور ششد رہ جاتے ہیں۔ اکثر مناظر دیکھنے اور بھگتنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب دانشوروں کے لیے دانش کا ہونا ضروری نہیں رہا۔ شاید انہیں حالات اور اسی نوعیت کے نام نہاد دانشوروں کے بارے میں جون ایلیا نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں کو ابھی پڑھنا چاہیے مگروہ لکھ رہے ہیں۔
میڈیا پر اور بالخصوص سوشل میڈیا پر اس بحث کو قومی مباحثہ بنانے والوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادارے صرف سیاسی ایجنڈوں پر کام کرتے ہیں‘حالانکہ جغرافیائی سرحدوں سے لے کر نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور داخلی انتشار اور بدامنی سے نمٹنے سے لے کر وطن دشمن عناصرکی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں کی بیخ کنی اوردہشت گردی کی کارروائیوں کے سفاک مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے جیسے کڑے مراحل کا سہرا انہی سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے سر ہے۔میری پارٹی میری مرضی‘ میرا بیانیہ میری مرضی،میرا صوبہ میری مرضی‘ میری گاڑی میری مرضی‘ میری زبان میری مرضی ، میری حکومت میری مرضی وغیرہ وغیرہ کے بعد اب میرا سوشل میڈیا چینل میری مرضی والوں نے من مرضی کا طوفان برپا کر رکھا ہے۔ یہ مرضی اب من مرضی اور خود غرضی کی تمام حدیں پار کرکے مملکت خداداد کو داخلی انتشار اور غیر مستحکم کرنے کا اندیشہ پیدا کرنے لگی ہے۔ ان اکاؤنٹس پر دیے جانے والے بھاشن اور دانشوری کے نام پر ریاستی امور اور قومی سلامتی سمیت اخلاقی و سماجی قدروں پر سوالات اٹھا کر فالوِنگ حاصل کرنے والوں کو اندازہ نہیں کہ وہ ٹاپ ٹرینڈنگ کی دوڑ میں غیرتِ قومی کا جنازہ نکال رہے ہیں۔
گھر بیٹھے مشہور ہونے سے لے کر مال کمانے تک کون سا حربہ استعمال نہیں کر رہے؟ ویڈیوکلپ ہٹ ہونا چاہیے‘مگر اندازوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی دعوؤں اور گمراہ کن پراپیگنڈے سے مال اور شہرت تو کمائی جاسکتی ہے لیکن ان کرتوتوں سے یہ لوگ ریاست کے لیے جو مسائل اور پریشانیاں پیدا کیے جارہے ہیں ان کاازالہ اور مداواکیونکر ممکن ہے؟یہ سوال دن بدن اہم اور تشویشناک مرحلے میں داخل ہوتا چلا جارہا ہے۔ آڈیو لیکس کی پوائنٹ سکورنگ دراصل فریقین کے اس دھوبی گھاٹ کا استعارہ ہے جہاں یہ سبھی اپنے اپنے گندے کپڑے اس قدر زور وشور سے دھو رہے کہ انہیں یہ ہوش بھی نہیں رہا کہ چھینٹے کہاں تک جارہے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ گھر بیٹھے سکرپٹڈ کلپ وائرل کرنے والے دانشور ڈھٹائی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی محا ذوں پر مستعد قومی اداروں پر تبصرے اور ہرزسرائی کی میراتھن سجائے کھلا پیغام دے رہے ہیں کہ ہمارا سوشل میڈیا چینل ہماری مرضی، ہماراسکرپٹ ہماری مرضی‘جبکہ واقفان بخوبی جانتے ہیں کہ من مرضی کے پیچھے اصل مرضی کس کی ہے۔ سمجھنے والے سمجھ گئے جو نا سمجھے وہ اناڑی۔
اگر ادارے سیاستدانوں کی مخبری میں مصروف ہیں تو داخلی انتشار اور دہشت گردی کی خونریز لہر پر بندھ باندھنے کے علاوہ وطن اور امن کے دشمن دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور نیٹ ورکنگ تک رسائی اورگرفتاریاں کون کررہا ہے؟ اداروں کو سیاسی ونگ اور محض مخبری کے تناظر میں پیش کرکے گمراہ کن پراپیگنڈاکرنے والوں کے ریکارڈ کی درستی کے لیے چند چشم کشا حقائق پیش خدمت ہیں۔دور نہ جائیں ملک کے سب سے بڑے صوبے کادارالحکومت طویل عرصے تک دہشت گردوں کا آسان ہدف بنا رہا ہے۔شہر کی حسا س اور اہم ترین عمارتوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور گنجان آباد علاقوں تک، نیزپبلک پارکس، مساجد، عباد ت گاہیں، ماتمی جلوس اور مزاروں جیسے پرہجوم مقامات بھی محفوظ نہ تھے۔ دہشت گردی کی بڑی کارروائیاں بھاری جانی نقصان کے علاوہ ریاستی رٹ کے لیے کھلا چیلنج بھی بنتی چلی جارہی تھیں۔ملک دشمن عناصر ہوں یا ان کے سہولت کار‘ان سبھی کی موجودگی کی قیمت سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی بڑے پیمانے پر چکائی۔خاک اور خون کے اس معرکے میں سکیورٹی اداروں کا کردار اور حکمت عملی نا قابلِ تردید اور لائق تحسین و تقلید ہے۔گلشن اقبال پارک میں معصوم بچوں کے خون کی ہولی کھیلنے والے ہوں یا چیئر نگ کراس پر مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کرنے والوں کا فائدہ اٹھا کر اعلیٰ پولیس افسروں سمیت عوام کو بربریت کانشانہ بنانے والے‘ارفع کریم ٹاور کے عقب میں بارود سے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑانے والے ہوں یاعبادت گاہوں پر حملے کرکے لوگوں کوچھلنی کرنے والے اور داتا دربار میں عقیدت مندوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے والے ہوں یاواہگہ بارڈر پر دہشت گردی کرنے والے اور رائیونڈ مرکز میں اور کچھ عرصہ پہلے جوہر ٹاؤن میں ایک کالعدم جماعت کے رہنما کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کرنے والے‘ یا وطن دشمن عناصرکی دیگرتخریبی کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈز سے کر سہولت کاروں تک پہنچنے کا کریڈٹ انہی قومی اداروں کو جاتا ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں یا جنوبی وزیرستان میں تخریب کاروں کی کھلی اورپوشیدہ دہشت گردی‘ہر جگہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ سکیورٹی ادارے مصروف عمل ہیں۔علاوہ ازیں اغوا برائے تاوان کے بڑے کیسز میں مغویوں کو خطرناک مجرموں کے ٹھکانوں سے بحفاظت بازیاب کروانے میں پولیس کی معاونت اور رہنمائی کے درجنوں کیسز اوراندھی وا رداتوں کے کیسز میں بھی سکیورٹی اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرموں کے ٹھکانوں تک پہنچاتی رہی ہے۔ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں بیٹھے سوشل میڈیا کے اداکاروں کو خبر ہو کہ اگر یہ ادارے سیاستدانوں کی ریکارڈنگ اور مخبریوں پر مامور ہے ہیں تو مذکورہ بالا ناقابلِ تردید قومی خدمات کون سے جن بھوت سرانجام دیتے رہے ہیں؟ کیا ان نام نہاد دانشوروں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟خدارا ہوش کے ناخن لیں۔اپنے دھندوں اور ایجنڈوں کی تکمیل میں انا اور خودداری کے ساتھ ساتھ غیرتِ قومی کوفراموش نہ کریں۔سکیورٹی ادارے ملک و قوم کی سلامتی اور وقار کی علامت ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی خواہشات اور حسرتوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔یہ سارا تام جھام ، ٹھاٹ باٹ ، ریل پیل اور موج مستی انہی اداروں کی خدمات کی بدولت اور ملک کی خیر و سلامتی سے ہے۔ان دانشوروں کے علم میں اضافہ کرنے کے علاوہ ایک سوال بھی اٹھاتا چلوں کہ ماضی میں سول انٹیلی جنس ادارے کے سربراہان کوکھڈے لائن لگا کرپرائم منسٹر ہاؤس میں براجمان ایک سر چڑھے بابو کی فرمائش پر جو سیٹ اپ بنایا گیا تھااس نے عمران خان کے انتہائی قریبی اور دیرینہ ساتھیوں کے خلاف فرمائشی رپورٹیں مرتب کرنے کے سوا کیا کیا تھا؟اس وقت یہ دانشوری اور ریٹنگ کا جنون کہاں سویا ہوا تھا؟چلتے چلتے یہ بھی باور کرواتا چلوں کہ حکمران ماضی کے ہوں یا دور ِحاضر کے ان سبھی کے ارد گرد موجود خدا جانے کون کس کی ڈیوٹی پر ہے۔اداروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنی صفوں میں ان کرداروں کو تلاش کریں۔یاد رہے! سکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے‘ عسکری ہوں یا سول‘ ملک و قوم کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved