دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور یہ اپنے ماننے والوں کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں کامل رہنمائی کرتا ہے۔ عقائد، عبادات اور معاملات میں اس دین کی رہنمائی ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی آخری کتاب کا نزول حضرت محمد رسول اللہﷺ کے قلبِ اطہر پر فرمایا۔ اللہ کے آخری نبیﷺ نے قرآنِ مجید کی آیات کو لوگوں پر کھول کھول کر بیان کیا اور ساتھ ہی آپﷺ نے اپنے فرامین (احادیث) مبارکہ کے ذریعے ان کی تشریح اور توضیح بھی فرما دی اور انسانوں کے لیے اس راستے کا تعین فرما دیا جس پر چل کر انسان دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود کو حا صل کر سکتا ہے۔ دین سے وابستگی یقینا ہر انسان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ جو شخص دین سے وابستگی کو اختیار کرتا ہے اللہ تبار ک وتعالیٰ اس کے لیے دونوں جہانوں کو سنوار دیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی خواہشات کے اسیر ہوتے ہیں اور دینی احکامات کو یکسر نظر انداز دیتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا وآخرت میں خائب وخاسر ہو جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے۔ مغربی نظامِ سیاست کی بنیاد ایسی جمہوریت پر ہے جس میں مقننہ کو قانون سازی کے لاـمحدود اختیارات حاصل ہیں؛ چنانچہ مغرب میں بتدریج بہت سے ایسے قوانین منظر عام پر آتے چلے گئے جن کا بائبل کی تعلیمات سے کسی بھی اعتبار سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ابتدائی طور پر زِنا بالرضا مغربی تمدن میں قابلِ قبول ٹھہرا اور اس کے بعد تبدریج ہم جنس پرستی کے بھی دروازے کھول دیے گئے۔
مسلم معاشرے البتہ اس قسم کی آلائشوں سے پاک رہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہے۔ قراردادِ مقاصد اور 73ء کے آئین میں اس بات کو طے کر دیا گیا کہ قانون ساز اسمبلیوں کو قانون سازی کا فقط اتنا ہی اختیار ہے جو کتاب وسنت کی حدود میں ہو اور اس سے تجاوز کرنے کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ملک میں بعض ایسے عناصر موجود ہیں جو ملک کے آئینی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے ہمہ وقت سازشوں اور کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ کبھی نبی کریمﷺ کی حرمت اور آپﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے قوانین کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور کبھی حقوق اور آزادی کے نام پر ایسے قوانین کو پاس کیا جاتا ہے جن کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ 2018ء میں مخنثوں (خواجہ سرائوں) کے حقوق کے نام پر ایک ایسے ایکٹ کو پاس کیا گیا جس میں مردوں کو عورت بننے اور عورتوں کو مرد بن کر زندگی گزار نے کی اجازت دے دی گئی اور یوں ہم جنس پرستی کا دروازہ کھولنے کی طرف پیش قدمی کی گئی۔ مذہبی جماعتوں کے لوگ مخنثوں کے نام پر بننے والے اس قانون کا باریک بینی سے مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے اس سازش کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ بعد ازاں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس قانون کے سقم کوواضح کرکے اس بات کو سینیٹ اور عوام کے سامنے رکھا کہ اس قانون کے ذریعے ملک میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے اور ملک کی تہذیب و تمدن اورثقافت کے ساتھ ساتھ اس کے اسلامی تشخص کو بھی شدید قسم کے خطرات لا حق ہو سکتے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد کی اس آواز کے بعد ملک میں اس حوالے سے باقاعدہ طور پر بڑے پیمانے پر حرکت ہوئی اور علمائے دین نے اپنے اپنے انداز میں اس بارے میں عوام کی بہترین انداز میں رہنمائی کی۔ اس حوالے سے مجھے بھی دو اہم تقریبات میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت طلبہ نے 'لاء ڈیپارٹمنٹ‘ کے الرازی ہال میں ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں طلبہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر مجھے وہاں خطاب کی دعوت دی گئی، میں نے اپنے خطاب میں طلبہ اور طالبات کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین پاکیزگی اور طہارت کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الاعلیٰ کی آیت نمبر 14 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''یقینا کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا اور اس نے یاد کیا اپنے رب کا نام (اور ) پس نماز پڑھی‘‘۔
تزکیۂ نفس کی اہمیت کو قرآنِ کریم کے مختلف مقامات پر احسن طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ تزکیۂ نفس کا یہ بھی تقاضا تھا کہ انسان زمین پر شرفِ انسانیت کے مطابق زندگی گزارے اور اخلاقی اقدار کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے سطحِ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے راستے پر نہ چل نکلے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ محمد میں کفار کے اعمال کو جانوروں کے مشابہ قرار دے کر ان کے انجامِ بد کا بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ محمد کی آیت نمبر 12میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ (لوگ) جنہوں نے کفر کیا‘ وہ فائدہ اُٹھاتے ہیں (صرف دنیا کا) اور وہ کھاتے ہیں (ایسے) جیسے جانور کھاتے ہیں اور آگ ہی ان کے لیے رہنے کی جگہ ہے‘‘۔ زمین پر اچھی زندگی گزارنے کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نہایت احسن طریقے سے رہنمائی فرمائی ہے۔ انسانوں کے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نکاح کے راستے کو اختیار کرنے کا حکم دیا اور نکاح کے علاوہ باقی تمام راستوں کو غلط اور حرام قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زناکاری کی شدید انداز میں مذمت کی۔ اور اس برائی کے مرتکبین کے لیے 100 کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا گیا اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے حدیث مبارکہ میں سنگسار کرنے کی سزا کا تعین کیا گیا ہے۔ جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اخلاقی اقدار کی پاسداری کے لیے زناکاری کی شدید انداز میں مذمت کی‘ وہیں ایسے افعال شنیع کی بھی نشاندہی کی جن کے ارتکاب کی وجہ سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کو پامال کرنے والا بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا ذکر بڑی وضاحت سے کیا۔ اس قوم میں یہ بیماری تھی کہ ان کے مرد اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ فطرت سے انحراف کرتے ہوئے اپنی بیویوں کو چھوڑ کر اپنے ہم جنسوں سے اپنی ہوس کو پورا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس مکروہ فعل کی قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر نہایت شدید اور صریح انداز میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیات 80 تا 81 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا تم ارتکاب کرتے ہو (ایسی) بے حیائی کا (کہ) نہیں سبقت لی تم سے اس کی کسی ایک نے جہان والوں میں سے۔ بے شک تم آتے ہو مردوں کے پاس (اپنی) شہوت سے عورتوں کو چھوڑ کر‘ یقینا تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان آیات کے بعد قومِ لوط کے انحراف اور ان کے انجامِ بد کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف ہی کی آیات 82 تا 84 میں فرماتے ہیں: ''اور نہ تھا جواب اس (لوط) کی قوم کا مگر یہ کہ انہوں نے کہا: نکال دو انہیں اپنی بستی سے‘ بے شک یہ (ایسے) لوگ ہیں (جو) بہت پاک بنتے ہیں، تو ہم نے بچالیا اسے اور اس کے گھر والوں کو مگر اس کی بیوی تھی وہ پیچھے رہنے والوں (جو ہلاک ہوئے) میں سے اور بارش برسائی ہم نے ان پر زور کی بارش (پتھروں کی) پس دیکھیے کیسا ہوا انجام مجرموں کا‘‘۔ قومِ لوط کے انجامِ بد کا ذکر فرما کر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح فرما دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ایسی اقوام پر اپنے غضب کا نزول فرماتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے بتلائے ہو ئے راستے سے انحراف کرکے حدِ اعتدال سے تجاوز کرتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس بتلائے ہوئے طریقہ کار سے ہٹنے کا راستہ کسی بھی طور پر قوموں کے مفاد میں نہیں ہو سکتا بلکہ ایسی اقوام تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہیں۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں مخنثوں کے حقوق کی آڑ لے کر ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ملک میں ہم جنسیت کے دروازوں کو کھولا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے نوجوانوں اور طلبہ کا مثبت کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے تاکہ اس قسم کے قوانین کو منسوخ کیا جائے اور ملک میں حقیقی معنوں میں تزکیہ اور طہارت کے فروغ کے لیے مثبت کردار ادا کیا جائے۔
اسی طرح 30 اکتوبر جمعۃ المبارک کو منصورہ میں امیرِ جماعت اسلامی برادرِ اکبر جناب سراج الحق صاحب نے مذہبی جماعتوں کے عمائدین کو اس حوالے سے طلب کیا اور ان سے ٹرانس جینڈر بل پر ان کی آرا کو طلب کیا گیا۔ اس موقع پر میں نے بھی چند گزارشات کو منصورہ میں عمائدین کے سامنے رکھا۔ منصورہ کا یہ اجلاس اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں ملک کے نمائندہ علماء کرام شریک ہوئے اور ٹرانس جینڈر بل کے حوالے سے عوام کو یکسو کرنے کے لیے 7 اکتوبر کو مسجد شہداء مال روڈ پر ایک بڑے احتجاجی اجتماع کا اعلان کیا۔ اس اجتماع کے توسط سے عوام سے اس بات کی اپیل کی جائے گی کہ عوام اس بل کے خلاف یکسو ہو کر میدان میں نکلیں تاکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر برقرار رکھا جا سکے اور مستقبل میں بے راہ روی کے دروازوں کو بند کیا جا سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس ٹرانس جینڈر بل‘ جس کی خامیوں کی نشاندہی سینیٹر مشتاق احمد صاحب کر چکے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل جس کو شریعت کے خلاف قرار دے چکی ہے‘ سے جلد از جلد پاکستانی عوام کی جان چھوٹ جائے گی اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایک پاکیزہ مسلم ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ایک نمائندہ کردار ادا کرتا رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved