کامیاب زندگی اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔ اعتماد زندگی کا جوہر ہے۔ ہر انسان کے لیے اعتماد اُسی طور ناگزیر ہے جس طور سانس لینے کے لیے آکسیجن ناگزیر ہے۔ ہمیں قدم قدم پر اعتماد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اعتماد جس کیفیت کا نام ہے وہ اگر پوری زندگی پر محیط ہو تو انسان الگ ہی دکھائی دیتا ہے۔ زندگی کا حسن اگر نکھرتا ہے تو اعتماد سے۔ ہمارے قول و فعل میں جان پڑتی ہے تو اعتماد سے۔ ہم کسی بھی صورتِ حال کی پیدا کردہ الجھن کا ڈھنگ سے سامنا کر پاتے ہیں تو اعتماد سے۔ یہ اعتماد ہی تو ہے جس کی بدولت کوئی بھی انسان کسی بھی صورتِ حال میں ہمت ہارے بغیر‘ مایوس ہوئے بغیر اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتا ہے۔
اعتماد ہی کے دم سے زندگی کا رونق میلہ ہے۔ ہم زندگی کا حق ادا کرنے کے قابل اُسی وقت ہو پاتے ہیں جب ہم میں بھرپور اعتماد پیدا ہوتا ہے اور ہم اُس اعتماد کو بروئے کار لانے کے معاملے میں بھی بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ اعتماد ہی کی بدولت یہ بھی ممکن ہو پاتا ہے کہ صفر سے اننگز شروع کرنے والا سنچری یا ڈبل سنچری کے انفرادی سکور کی منزل تک پہنچ پاتا ہے۔ اعتماد ہی کی بدولت بہت سے غریب گھرانوں کے بچے زندگی کی دوڑ میں خوش حال گھرانوں کے بچوں سے آگے نکلنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اعتماد ہی کے ذریعے لوگ اپنے معاشی اور معاشرتی معاملات کو بطریقِ احسن نمٹانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ اعتماد چہرے سے جھلکتا ہے، قول و فعل میں پایا جاتا ہے اور قدم قدم پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اعتماد آخر ہے کیا اور یہ کہ اِس کی بدولت ہم کس طور اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اعتماد اُس ذہنی حالت کا نام ہے جب انسان کسی بھی چیز سے، کسی بھی بات سے اور کسی بھی شخص سے بے جا طور پر خوف محسوس نہ کرے۔ بعض معاملات میں انسان کو خوف ضرور محسوس ہوتا ہے۔ خوف کا پیدا یا محسوس ہونا کوئی اِتنی بُری بات نہیں کہ اِس سے جان چھڑانے کے لیے انسان حواس باختہ ہو جائے۔ خوف اِس لیے نہیں ہوتا کہ اُس کے آگے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔ خوف تو اِس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ انسان کو صورتِ حال کی نزاکت کے مطابق اُٹھ کھڑا ہونا اور کچھ کر دکھانا ہے۔ اعتماد اُس ذہنی کیفیت کا نام ہے جب خوف موجود تو ہو مگر معاملات پر حاوی نہ ہو اور ہم ذہن سے کام لینے کی حالت میں رہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر اعتماد کا تقاضا کرتی ہے۔ اعتماد سے کام لیتے ہوئے چلنا ناگزیر ہے۔ ایسا کیے بغیر ہم کسی بھی معاملے میں ڈھنگ کی مسافت ممکن نہیں بناسکتے۔ عبدالحمید عدمؔ نے کہا تھا ؎
کہیں سے پیدا کرو اُس جوان کو یارو!
وہ کہہ رہے ہیں عدمؔ کی بڑی ضرورت ہے
زندگی اعتماد چاہتی ہے۔ اعتماد ہی وہ جوان ہے جس کی بڑی ضرورت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اعتماد پایا ہی جاتا ہے تو اُسے ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہر انسان میں کسی نہ کسی سطح کا اعتماد پایا جاتا ہے۔ اعتماد سے مکمل محرومی کی واضح ترین علامت اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ ہے۔ بہت سوں کو آپ اس حال میں دیکھیں گے کہ جب اعتماد سے مکمل محروم ہو جاتے ہیں تو مرنے کو ترجیح نہیں دیتے مگر اُن کی زندگی موت سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں جینے کا خود کو کچھ فائدہ ہوتا ہے نہ ہی دوسروں کو کچھ حاصل ہو پاتا ہے۔
کیا ہمارے معاشرے میں اعتماد کی کمی ہے؟ اعتماد کی کمی کسی بھی معاشرے میں نہیں ہوتی۔ ہر معاشرے میں لوگ کسی نہ کسی حد تک اعتماد کے حامل ہوتے ہیں۔ اعتماد نہ ہو تو کوئی بھی معاشرہ چل نہیں سکتا۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے ناگزیر ہے کہ اعتماد کی دولت پائی جائے اور بروئے کار لائی جائے۔ ہمارے ہاں عام آدمی میں اعتماد کسی نہ کسی حد تک ضرور پایا جاتا ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ سوال محض اعتماد کا نہیں بلکہ اس بات کا بھی ہے کہ بھرپور اور جامع اعتماد کس طور پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ بھرپور اور جامع اعتماد یعنی؟ وہ اعتماد جس کی بدولت ہم کچھ کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ بچوں میں بھی اعتماد پایا جاتا ہے۔ عنفوانِ شباب میں بھی اعتماد کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ تھوڑی سی پختہ جوانی بھی اعتماد ہی کی مظہر ہوتی ہے۔ تو پھر جامع اعتماد یعنی؟ ہمیں صرف اعتماد کی نہیں بلکہ ایسے اعتماد کی ضرورت ہے جس میں ہمارے لیے کچھ ہو۔ بھرپور جوان اور تنومند بیل ہمارے کس کام کا؟ اگر ہمیں دودھ درکار ہے تو گائے پالنا پڑے گی۔ اعتماد بھرپور ہونے کے باوجود ہمارے کسی کام کا نہ ہو تو اُس کا ہم کیا کریں؟ زندگی کو بامعنی، بامقصد اور بارآور بنانے کے لیے ہمیں کیسا اعتماد درکار ہے؟ یہ اہم سوال ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔ ہم عمومی سطح پر جس اعتماد کے حامل ہوتے ہیں وہ فطری ہوتا ہے۔ اِس سے کئی قدم آگے جاکر ہمیں اپنے اندر وہ اعتماد پیدا کرنا ہوتا ہے جس کی مدد سے ہم کچھ بننے اور کرنے کے قابل ہوسکیں۔ آپ نے ایسے بہت سے نوجوان دیکھے ہوں گے جو حلقۂ یاراں میں خوب چہک رہے ہوتے ہیں۔ وہ بات بات پر چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُن کی باتوں سے بھرپور اعتماد جھلک رہا ہوتا ہے۔ بالکل درست! یہ اعتماد ہی ہے جو اُنہیں بولنے کے قابل بناتا ہے۔ بھری محفل میں چہک چہک کر بولنا اعتماد کی علامت ہے مگر اعتماد صرف ایسی ہی کیفیت کا نام نہیں۔ چرب زبانی اور حاضر دماغی اعتماد کا محض ایک پہلو ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم چرب زبانی اور حاضر دماغی کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتے ہیں یا نہیں۔ طبیعت کا کِھلا ہوا ہونا اچھی بات ہے۔ یہ بھی اعتماد کی علامت ہے مگر صرف کِھلی کِھلی طبیعت کو جامع اعتماد قرار دے کر سکون کا سانس نہیں لیا جاسکتا۔ ہمیں بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ اگر کسی کی آواز اچھی ہے اور وہ محفل میں گا سکتا ہے تو اِسے اعتماد ہی قرار دیا جائے گا مگر اچھا گلوکار بننے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں۔ کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کے لیے عمومی اعتماد سے کئی قدم آگے جاکر تخلیقی اعتماد پیدا کرنا پڑتا ہے۔ آپ جن معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں وہ خوب سہی مگر سوال یہ ہے کہ اُن کے بطن سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
عملی زندگی کے بازار میں صرف تخلیقی اعتماد کا سکہ چلتا ہے۔ تخلیقی اعتماد یعنی ایسا اعتماد جو ہمیں بہت کچھ بننے میں مدد دے، ہماری شخصیت کو پروان چڑھائے اور اپنے شعبے میں بہت آگے پہنچنے میں ہماری مدد کرے۔ عمومی سطح پر پایا جانے والا اعتماد ہمارے لیے بہت کچھ ہوتا ہے مگر سب کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں زندگی بھر سیکھنا پڑتا ہے۔ آواز اچھی ہو تو انسان تھوڑا بہت گنگنا لیتا ہے۔ اگر کسی سے گانے کی تھوڑی بہت تربیت بھی پائی ہو تو انسان اچھا گا سکتا ہے مگر بلند درجے کا گلوکار بننے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں۔ لازم ہے کہ اپنے اندر تخلیقی اعتماد پیدا کرے یعنی کچھ سیکھنے پر مائل ہو۔ کچھ سیکھنے کے لیے جو اعتماد درکار ہوتا ہے اُس کی نوعیت مختلف ہے۔ معاشرتی زندگی کے لیے درکار اعتماد اور معاشی یا عملی زندگی کے معاملات کے لیے مطلوب اعتماد میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ علمی زندگی کے لیے درکار اعتماد ہم سے بہت سی قربانیاں مانگتا ہے۔ معاشرتی معاملات میں ہم محض کِھلی ہوئی طبیعت اور چرب زبانی سے اپنے لیے راہ بنالیتے ہیں مگر عملی یا معاشی زندگی کے تقاضے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ جہاں معاملہ لین دین کا ہو وہاں مطلوب اعتماد کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے۔ آج ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ خود بھی بہت کچھ سیکھنے پر متوجہ ہوں اور اپنی نئی نسل کو بھی تخلیقی اعتماد کی دولت کا حامل بنانے میں مدد دیں۔ آج کا ماحول صرف اور صرف مسابقت سے عبارت ہے۔ ہر معاملے میں بھرپور مقابلہ درپیش ہے۔ قدم قدم پر کچھ کر دکھانے کا تقاضا ہے۔ تخلیقی اعتماد محض پیدا نہیں کرنا بلکہ پروان چڑھانا بھی ناگزیر ہے۔ گزارے کی سطح پر جینا زیادہ دشوار نہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عمومی اعتماد عمومی سطح پر زندہ رہنے کے لیے کافی ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے تخلیقی اعتماد کو گلے لگانا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved