تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-10-2022

جو صاحبِ جوہر ہیں جھکے رہتے ہیں اکثر

معاملہ عملی زندگی میں کامیابی کا ہو یا سماجی معاملات میں آگے بڑھنے کا‘ ہر جگہ صرف ایک چیز کام آتی ہے اور وہ ہے عجز۔ اگر کسی میں سر جھکانے کی صفت موجود نہیں تو اُس کے لیے امکانات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شعبہ کوئی بھی ہو‘ انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ محنت کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہوتا‘ سب کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ جب انسان سیکھتا ہے تبھی اپنی خامیوں کو دور کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ جس شعبے میں آگے بڑھنا ہے اُس کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہونا ناگزیر ہے۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں۔ بہت سوں میں صلاحیت بھی کم تھی اور لگن بھی زیادہ نہیں تھی مگر پھر بھی وہ کامیاب ہوئے اور کامیاب بھی ایسے کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔
ہر شعبہ انسان سے بہت کچھ طلب کرتا ہے۔ آج ہر شعبے میں اِتنی پیش رفت ہوچکی ہے کہ اگر کچھ بننا اور کرنا ہے تو بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔ سیکھے بغیر بات بنتی نہیں۔ بن ہی نہیں سکتی! بعض شعبوں میں تحقیق و ترقی کا بازار اس قدر گرم رہتا ہے کہ آگے جانے کے لیے دن رات ایک کیے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ نئی نسل کو کامیابی بہت اچھی لگتی ہے مگر جب کامیابی کے لیے ناگزیر سمجھی جانے والی محنت کر دکھانے کا مرحلہ آتا ہے تب ہوش ٹھکانے پر آجاتے ہیں۔ محض خواہش کرلینے سے کوئی بھی کچھ نہیں کر پاتا۔ اگر کچھ بننا ہے تو متعلقہ شعبے کے بارے میں جامع معلومات کا حصول لازم ہے۔ ذہن بنانا پڑتا ہے، ارادہ کرنا پڑتا ہے۔ محض سوچنے یا خواہش کرلینے سے انسان زیادہ آگے نہیں جاسکتا۔ جا ہی نہیں سکتا! یہ معاملہ ہر اُس انسان کے ساتھ رہا ہے جس نے کچھ کرنا چاہا ہے۔ بعض شعبوں میں مسابقت زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں مسابقت کم ہوتی ہے وہاں صلاحیت بھی غیر معمولی درکار ہوتی ہے۔ جن شعبوں میں عام آدمی کے لیے زیادہ کشش نہ ہو وہاں مسابقت کم ہوتی ہے۔ ہاں‘ متعلقہ مشکلات ضرور ہوتی ہیں جن پر قابو پانا پڑتا ہے۔ جہاں مسابقت زیادہ ہو وہاں محض قابلیت کام آتی ہے نہ محنت۔ محنت کرنے کی بھرپور لگن اپنی جگہ مگر اُس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان سے پوچھ دیکھیے۔ کامیابی کے راز بیان کرتے وقت وہ آپ کو بتائے گا کہ قابلیت، لگن اور محنت کے ساتھ ساتھ چند ایک شخصی اوصاف بھی ناگزیر ہیں۔ جن میں یہ اوصاف ہوتے ہیں وہ قابلیت کی کمی کے باوجود کامیاب ہو پاتے ہیں۔ یہ شخصی اوصاف غیر معمولی محنت نہ کرنے پر بھی انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔ آپ اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو پائیں گے جو عمومی نوعیت کی قابلیت کے باوجود اچھی خاصی کامیابی یقینی بنانے میں کامیاب ہو پائے ہیں۔
شخصی اوصاف کا کامیابی سے کیا تعلق ہے؟ کیا کوئی شخص محض اس لیے کامیاب ہوسکتا ہے کہ مطلوب قابلیت کا حامل نہ ہونے کی کمی کو خوش خُلقی سے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہو؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخصی وصف بھرپور محنت کی کمی کو پورا کرنے میں کامیاب ہو؟ ان تمام سوالوں کے جواب مجموعی طور پر اثبات میں ہیں۔ بات اتنی سی ہے کہ بھرپور کامیابی انسان کی قابلیت اور محنت کے ساتھ ساتھ اُس کے مزاج اور کردار سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ آپ ہر شعبے میں ایسے بہت سے لوگوں کو پائیں گے جو زیادہ کام نہ کرنے پر بھی محض اپنی خوش مزاجی اور خوش خلقی کی بنیاد پر آگے بڑھتے ہیں۔ دو دکانیں ساتھ ساتھ ہوں اور اُن میں یکساں سامان فروخت ہوتا ہو تو کون سی دکان زیادہ چلے گی؟ جو دکان دار گاہکوں سے نامناسب لہجے میں بات کرے لوگ اُس سے کچھ لینا پسند کریں گے؟ چین میں ایک کہاوت ہے کہ جسے مسکرانا نہ آتا ہو وہ دکان نہ کھولے۔ خوش مزاجی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے۔ معاشی معاملات میں خوش مزاجی کئی بار بگڑے ہوئے کام ایسی آسانی سے بنادیتی ہے کہ لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
جن شعبوں میں لوگوں سے زیادہ واسطہ پڑتا ہو اُن میں کام کرنے والوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ کاروباری معاملات میں انسان کو بہت سے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ہنس کر ملے، ڈھنگ سے بات کرے اور کسی سے خواہ مخواہ نہ اُلجھے تو بات بنی رہتی ہے اور تھوڑی بہت پریشانی کے باوجود معاملات اِتنے نہیں بگڑتے کہ اُنہیں درست کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ شوبز میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے تنک مزاجی ترک نہ کی اور برباد ہوا۔ کئی اداکاروں، اداکاراؤں، گلوکاروں اور دیگر فنکاروں کے حالاتِ زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ کئی انتہائی باصلاحیت فنکار محض اس لیے کچھ زیادہ نہ کر پائے کہ وہ بدمزاجی ترک کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جب کسی کو ابتدائی کامیابی ملتی ہے تب ذہن کو درست حالت میں رکھنا پڑتا ہے۔ مواقع سب کو ملتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے میں کون کس حد تک کامیاب ہو پاتا ہے۔
انکسار وہ دولت ہے جو انسان کو بلندی تک لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بالی وُڈ میں انکسار کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ امیتابھ بچن، دھرمیندر، جیتندر، پران، شمی کپور اور دوسرے بہت سے اداکاروں کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ کسی سے خواہ مخواہ نہیں الجھتے تھے اور جہاں تک ممکن ہوتا تھا، شوٹنگ کے دوران سیٹ پر موجود تمام متعلقین (یونٹ) سے خاصے بلند اخلاق سے پیش آتے تھے۔ بھرپور کامیابی کے دور میں بھی امیتابھ بچن نے کبھی یونٹ کے سامنے بلا جواز طور پر تکبر اور بدمزاجی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ منکسر مزاج، خوش خلق اور نرم خُو ہونے کے معاملے میں محمد رفیع مرحوم کا کوئی ثانی کل تھا نہ آج ہے۔ محمد رفیع صاحب نے ہمیشہ سرجھکاکر کام کیا، اپنے کام پر پوری توجہ دی اور کسی بھی فضول سرگرمی میں حصہ لینے سے واضح گریز کیا۔ وہ کبھی کسی بھی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر سے نہیں الجھتے تھے۔ انہوں نے کبھی پیسوں کے معاملے کو بھی ایشو میں تبدیل نہیں کیا۔ انڈسٹری میں جو کچھ اُنہیں ملنا چاہیے تھا وہ بنا مانگے ملتا رہا۔ اُنہوں نے عام سے انسان کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا اور جب انتقال ہوا تب اُن سے بڑا گلوکار برصغیر میں کوئی نہ تھا۔ آج بھی تمام گانے والے اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ اُن سے بڑا اور مکمل گلوکار پیدا نہیں ہوا۔ جیسی اُن کی رینج تھی ویسی کسی کی نہیں تھی۔ وہ گانے کے کسی بھی مقام سے ایسی روانی سے گزر جاتے تھے کہ سننے والے حیرت سے صرف سنتے رہ جاتے تھے۔ رفیع صاحب کے حوالے سے کوئی بھی ایسا واقعہ کسی کے علم میں نہیں کہ اُنہوں نے بدمزاجی کا مظاہرہ کیا ہو، کسی کی دل آزاری کی ہو یا کسی سے یونہی تلخ لہجے میں بات کی ہو۔ وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ کم گو تھے اور سب کو نرمی کے ساتھ بات کرنے اور کام پر متوجہ رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ پوری انڈسٹری اُن کے قدموں میں جھکی رہتی تھی اور وہ خود سرجھکاکر سب سے ملتے تھے۔ یوسف صاحب یعنی دلیپ کمار کا معاملہ یہ تھا کہ بالی وُڈ کے بے تاج بادشاہ رہے مگر کبھی اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ اُنہوں نے چھوٹے فنکاروں کے لیے ہمیشہ اخلاص کا مظاہرہ کیا، اُنہیں قیمتی مشوروں سے نوازا، کام میں بھی تعاون کیا اور اُن کے نجی معاملات میں بھی دلچسپی لے کر مشکلات دور کیں۔ یوسف صاحب کو زندگی بھر محترم سمجھا گیا اور اب جبکہ وہ دنیا میں نہیں ہیں تب بھی لوگ اُن کا ذکر خاصے احترام کے ساتھ، سرجھکاکر کرتے ہیں۔ لوگ جب اُن سے ملنے پہنچتے تھے تب محسوس ہوتا تھا کہ ع
اِس گھڑی سر جھکا دیے ہی بنے
معاملات پیشہ ورانہ ہوں یا معاشرتی، معاملہ مال کمانے کا ہو یا عزت کمانے کا، ہر جگہ صرف ایک چیز کام آتی ہے اور وہ ہے خوش خلقی۔ جس کے اخلاق اچھے ہیں وہ سب کے لیے محترم ہے۔ سرجھکانے والے عزت بھی پاتے ہیں اور مادّی کامیابی بھی۔ عجز و انکسار کے ساتھ زندگی بسر کرنا کبھی گھاٹے کا سودا ثابت نہیں ہوتا۔ نرمی سے پیش آنے والوں کی خامیاں اور کمزوریاں بھی نظر انداز کردی جاتی ہیں۔ میر انیسؔ نے خوب کہا ہے ؎
بداصل تکبر کے سخن کہتے ہیں اکثر؍ جو صاحبِ جوہر ہیں جھکے رہتے ہیں اکثر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved