تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-10-2022

دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

صبر و تحمل اور استحکامِ فکر و نظر شرطِ اول ہے۔ یہ عہد بہت کچھ ساتھ لایا ہے اور بہت کچھ اپنے ساتھ لے جائے گا۔ آپ سوچیں گے کون سی نئی بات ہے۔ ایسا تو ہر دور کے معاملے میں ہوتا آیا ہے۔ ہر دور کچھ لاتا ہے اور کچھ لے جاتا ہے۔ آپ کا یہ سوچنا بجا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بہت کچھ نہیں بلکہ سبھی کچھ ساتھ لے جانے پر تُلا ہوا ہے۔ اِس عہد کے ساتھ آنے والی تبدیلیاں بھی کم ہوش رُبا نہ تھیں۔ اِس سے بھی مشکل مرحلہ یہ ہے کہ جو کچھ یہ لے جانا چاہتا ہے اُس کے جانے سے ہمارے پاس کچھ بھی نہ رہے گا۔
گزرے ہوئے زمانوں میں جینے والے انسانوں کو فکر و نظر کے معاملے میں بحرانی کیفیت کا سامنا رہا مگر تب معاملات ایسے نہیں بگڑے تھے کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جاتا۔ تب روح باقی تھی، ضمیر زندہ تھا، باطن سلامت تھا۔ بہت کچھ پانے کی تمنا ضرور تھی مگر سب کچھ کھو بیٹھنے کی قیمت پر نہیں۔ آج معاملات اُس مقام تک پہنچ چکے ہیں جہاں کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونے پر آمادگی دکھانا بھی معیوب نہیں سمجھا جارہا۔ زندگی جیسی نعمت کو معمولی باتوں پر نچھاور کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو وجود بخشا ہے وہ اُس کا شاہکار ہے۔ اِس شاہکار کو کسی بھی ایسی ویسی بات پر نچھاور کردینا قدرت کی عطا کی صریح توہین ہے۔ زندگی کسی بھی اعتبار سے کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ بے ذہنی اور عدم توجہ کی نذر کردیا جائے۔ آج کے انسان کا ذہن شدید دباؤ کی زد میں ہے۔ یہ دباؤ روز افزوں ہے۔ اب بعض باتوں کے ساتھ جینا ہے۔ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ دباؤ کہیں جانے والا نہیں۔ جینا ہے تو اِس کے ساتھ جینا ہے اور اِسے نبھانا بھی ہے۔
آج کے انسان کو سب سے زیادہ صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔ بات بات پر بدحواس ہونے سے کام نہیں چلتا۔ بدحواسی تو بنتے کام بگاڑ دیتی ہے۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال کو سامنے پاکر ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینے سے کچھ بھی اچھا نہیں ہو جاتا۔ ایسا کرنے سے مشکلات بڑھتی ہی ہیں۔ یہ دور پیچیدہ ہے اور روز بروز پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ زمانے گئے جب عدمِ توجہ سے کوئی خاص بگاڑ پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ توجہ ذرا سی ہٹ جائے تو بہت کچھ بگڑ جاتا ہے۔ مادّی ترقی نے انسان کو شدید نوعیت کی الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ اب سبھی کچھ مادّی ترقی کی چوکھٹ پر دھر دیا گیا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ آسائشیں حاصل کرے۔ سوال صرف حصول کا ہے۔ آج کا انسان زیادہ سے زیادہ چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ استفادہ کرنے کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ انسان اشیا و خدمات صرف حاصل کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتا ہے۔ اُن سے کماحقہٗ مستفید ہونے کا مرحلہ آتا ہی نہیں۔ اِس کے نتیجے میں زندگی کا معیار بھی بلند نہیں ہو پاتا۔
آج کا انسان کئی معاملات میں الجھے ہوئے ذہن کا مالک ہے۔ وہ دن رات زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات کا حصول یقینی بنانے کے چکر میں استحکامِ فکر و نظر کو داؤ پر لگانے پر تُلا رہتا ہے۔ ہر دور کے انسان نے بہت کچھ پانا چاہا ہے۔ یہ کوئی انوکھی یا بُری بات نہیں۔ آج کا انسان بھی بہت کچھ پانا چاہتا ہے تو اِس میں کوئی قباحت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں بدحواسی کو کس حد تک اپنایا اور قبول کیا جاسکتا ہے۔
دنیا بہت بدل چکی ہے۔ اس بدلی ہوئی دنیا میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے۔ ہر شعبے میں بے شمار باقابلِ یقین ایجادات و اختراعات ممکن بنائی جاچکی ہیں۔ آج کے انسان کو محض ایک اشارے پر بیسیوں اشیا و خدمات میسر ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے کے حوالے سے بازار میں بہت کچھ دستیاب ہے۔ یہی تو مشکل ہے۔ آسانیوں نے زندگی کو مشکل بنا ڈالا ہے۔ آج کے انسان کو زندگی بہت چھوٹی لگتی ہے۔ جب تحقیق و ترقی کا بازار گرم نہیں ہوا تھا تب زندگی آسان تھی۔ تب انسان کو بیشتر کام خاصی محنت سے کرنا پڑتے تھے۔ وقت بھی خوب گزرتا تھا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کل تک کئی گھنٹوں میں ہونے والا کام اب چند منٹ میں ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وقت خوب بچنا چاہیے۔ بچتا بھی ہے مگر یہ بچا ہوا وقت انسان کو زیادہ بدحواس کر رہا ہے۔ انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے وہ اس کے لیے کافی ہے مگر یہ کیفیت اُسے سکون عطا نہیں کر رہی۔ ذہن پُرسکون ہونے کے لیے تیار ہی نہیں۔ یہ کچھ نہ کچھ مانگتا ہی رہتا ہے۔ مرزا غالبؔ نے خوب کہا ہے ؎
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چُھوٹا جائے ہے مجھ سے
آج کے انسان کو شدید ذہنی پیچیدگیوں کے باعث بہت سے معاملات میں بلا جواز طور پر بھی پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ بے صبری نے انسان کو نادیدہ زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ آج کا انسان بہت کم وقت میں بہت تیزی سے سبھی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں۔ ایسے میں اُمید ہی ہاری جاسکتی ہے اور ہاری جارہی ہے۔ پُرامید رہنا ایک بنیادی وصف ہے۔ اس وصف کے ذریعے ہی ہم کچھ بن سکتے ہیں، کچھ کرسکتے ہیں۔ ویسے تو خیر ہر دور میں پُرامید رہنے کی غیر معمولی اہمیت رہی ہے مگر اب معاملہ یہ ہے کہ انسان کو بیشتر معاملات میں ذہن کو بھٹکنے سے بچانا ہے۔ اِس کے لیے صبر و شکر سے کام لینا اور پُرامید رہنا لازم ہے۔ جو لوگ اُمید نہیں ہارتے وہ سخت نامساعد حالات میں بھی کچھ نہ کچھ ایسا کر گزرتے ہیں جس کی بنیاد پر راہ آسان ہو جاتی ہے۔ یہ وصف انسان کو ہر مشکل صورتِ حال میں ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشکلات سبھی کے لیے ہیں۔ کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں جسے کسی نہ کسی حوالے سے پریشانیاں لاحق نہ ہوں۔ جن کی جیب خالی ہے اُن کے لیے افلاس سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جن کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں اُن کے لیے پریشانیوں کی نوعیت مختلف ہے۔ ہر انسان کو اُس کے حصے کی پیچیدگیاں مل کر ہی رہتی ہیں۔ جس نے یہ نکتہ سمجھ لیا وہی کامیاب رہا۔ عمومی سطح پر یہ ہوتا ہے کہ جب کسی کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو وہ محسوس کرتا ہے کہ مشکلات صرف اُس کے لیے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی بھی مشکلات سے دور اور آزاد نہیں۔ اس معاملے میں قدرت کسی کو استثنا نہیں دیتی۔ الجھنیں سب کے لیے ہیں اور اُن سے مؤثر طور پر نمٹنے ہی میں کامیابی مضمر ہے۔
بات بے بات بدحواس ہو اُٹھنا، ذرا سی بات پر مشتعل ہوکر آپے سے باہر ہو جانا اور مایوسی کے تالاب میں ڈُبکی لگانا مسائل کا حل نہیں۔ انسان میں بدحواسی ہوتی ہے تو غصہ بھی پنپتا ہے۔ شدید بدحواسی شدید غصے کو جنم دیتی ہے۔ غصے کی حالت میں انسان سوچنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ ایسے میں عملی سطح پر کچھ کرنے کے بارے میں کیا کہیے! اُمید ہار بیٹھنے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوئے۔ مسائل کے حل کی گنجائش اُسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان طے کرلے کہ ہمت ہارے بغیر، مایوس ہوئے بغیر اپنے حصے کا کام کرے گا اور نتائج کو اللہ تعالیٰ کی منشا پر چھوڑ دے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ کی جانے والی محنت رنگ لاتی ہے۔ نتائج اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بسر و چشم تسلیم کرلی جائے تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے۔ آج کے انسان نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ یہ مادّی معاملہ ہے۔ روحانی سطح پر بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ اخلاقی اقدار انسان کو بہت کچھ دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی وصول و قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ آج کے انسان کو صبر و شکر سے کام لینا بھی یقینی بنانا ہے اور پُرامید بھی رہنا ہے۔ اُمید ہارنے پر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ اُمید ہے تو زندگی ہے۔ اُمید ہی کی بدولت انسان سخت مساعد حالات میں بھی اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ زندگی کا سارا حسن پُرامید رہتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرتے رہنے میں ہے۔ اس حوالے سے ذہن سازی ناگزیر ہے۔ یہ کام مطالعے سے بھی ہوتا ہے اور مشاورت سے بھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved