پاکستان میں سب سے خطرناک وہ 'انقلابی‘ ہیں جو کبھی سرخے تھے اور پھر وہاں سے بد دل ہوکر سبزے ہوگئے۔ یہاں سے بھی مایوس ہوکر اب انہوں نے عمران خان صاحب کے اندر ایک انقلابی ڈھونڈ نکالا ہے۔
وہ تمام تر استدلال جو اس سے پہلے مارکس ازم کے نام پر پیش کیا جاتا رہا‘ وہ اسے انقلابِ اسلام اور خلافت کے داعی بن کر پیش کرتے رہے۔ جب یہاں بھی بات نہ بن سکی تو اب اسی اثاثے کے ساتھ خان صاحب کو انقلابی بنانے پر تل پڑے۔ وہی تجزیہ‘ وہی مآخذ اور وہی نتائج۔ میں ان کے نام گنوا سکتا ہوں لیکن اس سے گریز بہتر ہے کہ میری غرض افراد سے نہیں‘ اس سوچ سے ہے جو یہ حضرات پیش کر رہے ہیں۔ میں نے اس طبقے کو 'حضرات‘ تک محدود رکھا ہے۔ کوئی خاتون‘ میں نے 'تبدیلیٔ مذہب‘ کے اس عمل سے گزرتے نہیں دیکھی۔ اگر گزری بھی ہے تو یہ تبدیلی بین المسالک تھی۔ مارکس ازم سے توبہ کی اور لبرل ہو گئی۔
ان لوگوں کو صرف فساد سے دلچسپی ہے جسے قابلِ قبول بنانے کے لیے 'انقلاب‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسا انقلاب جس کا ایندھن عام لوگ بنیں‘ یہ خود نہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ یہ اسلام کے نام پر آئے یا غیراسلام کی بنیاد پر۔ ان کے اپنے بچے ملک سے باہر مغربی تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اپنا کاروبار مستحکم ہے۔ وسائل کی کمی نہیں۔ عام لوگ مر بھی جائیں تو انہیں اس سے کیا؟
آج کل انہوں نے عمران خان صاحب کی ذات میں چے گویرا کو تلاش کر لیا ہے۔ خان صاحب نوجوانوں کو ویتنام کی طرز پر ایک انقلاب کی طرف بلا رہے ہیں۔ ان حضرات کو وہ فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے جس کا حاصل فساد کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ خان صاحب لوگوں سے جہاد کی بیعت لے رہے ہیں۔ 'بیعت‘ کو آج کی لغت میں حلف کہتے ہیں۔ وہ اس ہیجان کو اب ایک منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں جس کو انہوں نے اپنے اقتدار کے دنوں میں بھی ٹھنڈا نہیں ہو نے دیا۔ یہ حضرات‘ ہر انقلابی کی طرح معاملات کو سیاہ اور سفید کے دائرے میں بیان کر رہے ہیں۔ وہ بتا رہے ہیں کہ عوام کے پاس صرف دو راستے ہیں: انقلاب کیلئے خان صاحب کیساتھ کھڑے ہو جاؤ اور اپنا مستقبل سنوار لو۔ یا پھر مکمل بربادی کیلئے تیار ہو جاؤ۔انقلاب کا یہ تصور اشتراکیوں کا دیا ہوا ہے۔ معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کرنا اور اس کے سامنے صرف دو حل رکھنا۔ انقلاب کی تمام تر تاریخ یہی ہے۔ مطلوب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو ایک بات کیلئے یکسو کیا جائے اور ہیجان کو کم نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے ساتھ‘ انقلاب کیلئے برسرِ اقتدار طبقے کے خلاف انتہائی نفرت کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ کیا فی الواقع پاکستان انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے؟ کیا عمران خان ایک انقلابی رہنما ہیں؟ کیا ہمارے پاس اس وقت یہی دو حل ہیں: عمران خان یا مکمل بربادی؟ خلافت جیسے تصورات کے داعی اور طالبان کے حامی خان صاحب کی پشت پر کیوں کھڑے ہوگئے؟ لازم ہے کہ یہ سوالات قومی مباحثے کا موضوع بنیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ابھی اس جگہ نہیں پہنچا کہ لوگوں کے پاس مارکس کے الفاظ میں‘ کھونے کے لیے زنجیروں کے سوا کچھ باقی نہ ہو۔ مسائل بے پناہ ہیں لیکن عوام ان سے لڑ رہے ہیں۔ انہیں موجودہ نظام سے شکوہ ہے مگر وہ اس سے پوری طرح ناامید نہیں۔ ڈالر اور روپے کی دوڑ میں‘ روپیہ مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی نظام میں ابھی مقابلے کی سکت موجود ہے۔ بین الاقوامی دنیا کے ساتھ معاشی اور سیاسی تعلقات میں توازن ہے۔ سماجی ادارے موجود ہیں اور ریاست کی رِٹ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس لیے پاکستان کے حالات‘ اس وقت کسی انقلاب کے لیے سازگار نہیں۔
دوسری بات: عمران خان کسی طرح بھی انقلابی لیڈر نہیں۔ ان کا کوئی سیاسی نظریہ نہیں جو انقلاب کیلئے لازم ہے۔ وہ متفرق اور متضاد سیاسی خیالات رکھتے ہیں جن میں عقلِ عام کوئی ربط پیدا نہیں کر سکتی۔ کبھی ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں‘ کبھی چینی ماڈل کی مثال دیتے ہیں۔ کبھی سکینڈے نیوین ممالک کے گیت گاتے ہیں۔ طالبان کے بھی حامی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک ایسا انقلابی لیڈر نہیں گزرا جو نظریاتی طور پر یکسو نہ ہو۔پھر یہ کہ عمران خان خود 'سٹیٹس کو‘ کی پیداوار اور اس نظام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں۔ اس وقت بھی ملک کے دوصوبوں میں ان کی حکومت ہے اور وہ اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ ان حکومتوں کے ہیلی کاپٹر‘ انقلابی پیغام کو عام کرنے کیلئے بے تکلفی کیساتھ استعمال کیے جارہے ہیں۔ انقلابی رہنما نظام کا باغی ہوتا ہے۔ وہ نظام کے خلاف نفرت پیدا کرتا ہے۔ خان صاحب نے نظام سے نہیں‘ افراد سے نفرت پیدا کی۔ اس نظام کے وہ تمام محافظ انہیں پسند ہیں جو اقتدار کی جنگ میں ان کے حلیف بنیں۔ انقلابی رہنما کی زندگی میں ایسے تضادات نہیں ہوتے۔
تیسری بات: خان صاحب کے ساتھ وہ لوگ ابھی شامل نہیں ہوئے جو اس نظام کے قتیل ہیں۔ جو محروم طبقات ہیں۔ ان کے قافلے میں تو آسودہ حال لوگ شامل ہیں جو احتجاجی جلسوں میں اپنی گاڑیوں پر اور خصوصی میک اَپ کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کو انقلاب سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ ایک کلٹ کا حصہ ہیں جو عقل کوکسی کے پاس گروی رکھ دیتا ہے۔خان صاحب نے انقلابیوں والا صرف ایک کام کیا ہے اور وہ ہے 'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ یہ سیاست دان ہوں یا ریاستی اداروں کے ذمہ داران؛ تاہم انقلابی لیڈر سے یہ مشابہت بھی ظاہری ہے۔ اس باب میں ان کا کردار‘ انقلابی سے زیادہ ایک پریشر گروپ کا ہے۔ ریاستی ادارے اور روایتی سیاست دان‘ ان کے ساتھ مل جائیں تو اپنی پناہ گاہوں اور بیرکوں میں محفوظ ہیں۔ اگر خلاف ہیں تو پھر میرجعفر ہیں‘ جانور ہیں یا پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو۔
عمران خان کا 'انقلاب‘ سرِ دست ذہنی ہیجان پیدا کرنے تک محدود ہے۔ انہوں نے عملاً کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس کے بعد ریاست ان کے ساتھ وہ سلوک کرے جو انقلابیوں سے کیا جاتا ہے۔ ایسے اقدامات انہوں نے 2014ء کے دھرنے میں کیے تھے۔ جیسے بجلی کے بلوں کو آگ لگانا۔ ٹیکس نہ دینے کا اعلان۔ آج وہ محتاط ہیں اور جواباً ریاست بھی۔ یہ اچھی بات ہے۔ دعا یہی ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے ہی میں جدوجہد کریں؛ تاہم عملاً یہی دیکھا گیا کہ جب ذہنی طور پر ہیجان پیدا کر دیا جائے اور نفرت کو انتہا تک پہنچا دیا جائے تو پھر سوچ اور عمل میں فرق باقی نہیں رہتا۔ 2014ء کا دھرنا ہمارے سامنے ہے جب پی ٹی وی اور دوسرے ادارے بلوائیوں کی زد میں تھے۔ یہ بہر حال ریاست کا امتحان ہے اور خان صاحب کا بھی۔جو پیشہ ور انقلابی‘ ان حالات کو فساد میں بدلنا چاہتے ہیں‘ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔ پہلی بات تو یہ کہ کوئی انقلاب نہیں آرہا۔ وہ صورتِ حال ابھی پیدا نہیں ہوئی جو انقلاب کو ناگزیر بنا دیتی ہے۔ دوسری یہ کہ اس وقت ہمارے پاس دو سے زیادہ راستے موجود ہیں۔ تیسرا یہ کہ خان صاحب بھی کوئی انقلابی رہنما نہیں۔ چوتھا یہ کہ ریاست ابھی اتنی کمزور نہیں اور یہ بات خان صاحب کو معلوم ہے۔ اسی لیے انہوں نے اقتدار کے اصل وارثوں کے ساتھ پسِ پردہ رابطہ ختم نہیں کیا۔
پیشہ ور انقلابیوں کو میرا مشورہ ہے کہ کمیونزم‘ اسلام ازم اور خان ازم کے بعد‘ اب وہ کوئی اور دروازہ تلاش کریں جہاں سے انقلاب کا علم نکل سکتا ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved