گزشتہ روز 'روزنامہ دنیا‘ کی ایک خبر موضوعِ بحث رہی۔ خبر تھی ''ٹرانس جینڈر ایکٹ میں سقم کے باعث وفاقی پولیس میں نئی بھرتیوں کے لیے مخنث اپنی مرضی کی جنس‘ مرد یا عورت کے کوٹے میں درخواست دے سکیں گے، متنازع قانون کے تحت بھرتی کا اشتہار موضوعِ بحث بن گیا۔ اس طریقہ کار سے بھرتی کے دوران خواتین کی نشستوں پر زیادہ تر مخنثوں کی بھرتی کا خدشہ ہے۔ مخنثوں کے مقابلے میں خواتین جسمانی فٹنس اور دوڑ کا ٹیسٹ پاس کرنے سے قاصر رہیں گی، چونکہ بھرتی کے اشتہار میں واضح طور پر درج ہے کہ جو بھی مخنث اپنی مرضی سے مرد یاعورت کی شناخت ظاہرکرے گا‘ وہ اسی کوٹے میں بھرتی کے لیے اپلائی کر سکے گا یعنی کوئی مرد مخنث (مونث) کا روپ دھار کر پولیس میں خواتین کی سیٹ پر بھرتی کے عمل میں شامل ہو جائے گا، یوں خواتین بھرتی نہیں ہو سکیں گی۔ جب یہ مرد مخنث (مونث) کا روپ دھار کر خواتین کے کوٹے پر بھرتی ہوکر آئیں گے تو انہیں خواتین کی ڈیوٹی ہی تفویض کی جائے گی اورخواتین کی جامہ تلاشی اور گرفتاری وغیرہ جیسے امور ان کی ڈیوٹی میں شامل ہوں گے جس سے قباحتیں پیدا ہوں گی اور پولیس کو بطور ڈسپلن فورس بھی مشکلات درپیش ہوں گی‘‘۔ اس خبر کے حوالے سے صحافی احمد بھٹی سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ پولیس افسران بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں‘ خصوصاً بعض لیڈی پولیس اہلکار تو ایسی صورتحال میں ملازمت چھوڑنے کا سوچ رہی ہیں کیونکہ ویمن پولیس سٹیشن یا خواتین اہلکاروں کی بیرک میں عورت کی جنس ظاہر کر کے بھرتی ہونے والے مرد مخنث اہلکاروں کے ساتھ رہنا ان کے لیے طرح طرح کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ اس متنازع قانون کو پاس کرنے والوں کو بھی اس کے منفی پہلو بڑی دیر بعد سمجھ آئے؛ تاہم اب تقریباً ہمارے معاشرے کے تمام طبقات ٹرانس جینڈر ایکٹ میں جنس کی تبدیلی کے حوالے سے ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور نادرا کے ریکارڈ میں مرد سے عورت یا عورت سے مرد جنس تبدیل کرانے کے لیے میڈیکل بورڈ کی رائے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ تو قانون میں ترمیم کے بعد ہی ممکن ہو پائے گا۔ فوری طور پر تو اس متنازع قانون کے منفی استعمال کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کر کے حکمِ امتناع لینا پڑے گا ورنہ اگر پولیس سمیت مختلف فورسز میں خواتین کے کوٹے پر مرد مخنث افراد بھرتی ہو گئے تو متعدد سنگین مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور ان حالات میں خواتین کے لیے باعزت طریقے سے کام کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
جنس جسے انگریزی میں 'سیکس‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، کسی بھی فرد کی پیدائش کے وقت کی حیاتیاتی شناخت ہے جبکہ جینڈر کا مفہوم ذرا مختلف ہے۔ انگریزی میں یہ دو اصطلاحات علیحدہ علیحدہ مقاصد کے تحت ہی بیان کی جاتی ہیں۔ جینڈر دراصل وہ کیفیت ہے جو ایک فرد اپنے بارے میں محسوس کر لے یا معاشرہ اس سے اس کردار کی توقع رکھے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک مرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عورت ہے اور وہ عورتوں جیسی شناخت رکھنا چاہتا ہے تو یہ اس کی جینڈر ہے۔ اسی طرح کوئی عورت خود کو مرد محسوس کرتے ہوئے مردانہ اطوار اختیار کر سکتی ہے۔ گویا جینڈر اصل جنسی شناخت سے مختلف ہو سکتی ہے۔ اس سوچ کو مزید تقویت 1970ء کے عشرے میں اس وقت ملی جب 1972ء میں ٹرانس جینڈر کی اصطلاح سامنے آئی۔ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر فرد کے اس حق کو تسلیم کیا گیا کہ حیاتیاتی جنسی تعین سے قطع نظر کرتے ہوئے وہ اپنی جنس کا تعین اپنی خواہش سے کر سکتا ہے۔ پیدائشی نقائص جسم کے کسی بھی حصے میں ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں، کہیں بھی ہوں ایک بیماری اور آزمائش ہیں، ان نقائص کو انٹر سیکس (Inter Sex) یا جنسی نشو و نما کی خرابی (Disorder of Sex Development) کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد کو خنثی کہا جاتا ہے۔ جنسی ابہام ایک معذوری ہے جو آبادی کے 0.017 فیصد افراد میں نوٹ کی گئی ہے۔ دیگر معذوریوں یا بیماریوں کی طرح اس کا علاج یا بندوبست میڈیکل کے شعبے اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور ان کے حقوق متعین ہیں۔ ٹرانس جینڈر کے حقوق کی حفاظت کے نام پر جو قانون سازی ہوئی ہے یا کی جا رہی ہے، اس میں ایسے افراد کے حقوق کی حفاظت یا معاشرے میں انہیں باعزت مقام دینے کی سرے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔ ٹرانس جینڈر کے عنوان میں ضمناً ان کا ذکر آیا ہے۔
رب تعالیٰ کی کمالِ حکمت ہے کہ اس نے زمین پر اپنے خلیفہ یعنی انسان کو دو صنفوں (نر اور مادہ کی صورت) میں پیدا کیا۔ ہر دو اجناس کے لوگ انسانیت میں یکساں ہونے کے باوجود جسمانی ساخت، ذہنی و نفسانی اوصاف اور جذبات و داعیات ایک دوسرے سے مختلف لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ جنس، اصولِ زوجیت اور اس کے نتیجے میں باہمی ملاپ، اللہ کی تخلیق کردہ نشانی ہے۔ یہ سب خالق کائنات کی قدرت اور حکمت کا شاہکار ہے؛ البتہ بعض اوقات قدرت ہی کی حکمت کے تحت دورانِ حمل یا کچھ عوامل کے اثر انداز ہونے یا صنفی خلیوں میں کسی جینیاتی (ڈی این اے) تبدیلی یا تغیر کے باعث بچے کی جنسی شناخت میں ابہام واقع ہو جاتا ہے۔ یہ تو ایک قدرتی عمل ہے جس کے سبب اس فرد کو مخنث قرار دیا گیا ہے لیکن اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ حقیقی مخنث نہیں بلکہ وہ افراد ہیں جو مرد ہو کر اپنی جنس عورت ظاہر کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں، یا پھر وہ عورتیں‘ جو اپنی جنس مرد ظاہر کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ بالا خبر میں خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی مرد خود کو مخنث ظاہر کر کے جنس کے خانے میں عورت لکھوا کر خواتین پولیس اہلکاروں کے کوٹے پر بھرتی ہو گیا تو اس سے نہ صرف خواتین امیدواروں کا حق مارا جائے گا بلکہ ایسے افراد کے بھرتی کے بعد انتہائی سنگین اور سنجیدہ مسائل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو ہمارے مسلم و مشرقی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن سکتا ہے لہٰذا اس متنازع قانون کے منفی پہلوئوں کو فوری طور پر روکنے اور اس میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔
پہلے اپنی حیاتیاتی جنسی شناخت پر عدم اطمینان کو ایک نفسیاتی بیماری قرار دیا جاتا تھا، بعد ازاں اسے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے نکال کر فرد کا حق متصور کر لیا گیا اور دنیا بھر میں اس حق کو تسلیم کرانے کے لیے ایک منظم مہم کا آغاز کر دیا گیا۔ حقوق کے نام پر ایسی مہمات چلانے والوں کا اصل مقصد ٹرانس جینڈر کے نام پر ہم جنسیت کا تحفظ بلکہ فروغ رہا ہے۔ ٹرانس جینڈر کی پوری بحث اور تذکرے میں خنثی یا خواجہ سرا کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ملتا، ایسا غالباً صرف ہماری پارلیمنٹ میں ہی ہوا کہ انہیں ایک دوسرے سے خلط ملط کر دیا گیا، تاکہ خواجہ سرائوں یعنی مخنثوں کی آڑ میں نئی اصطلاح ٹرانس جینڈر بھی قابلِ قبول بنائی جا سکے۔ اس اصطلاح کو قابلِ قبول بنانے کے لیے خنثی کو ٹرانس جینڈر کہنا شروع کر دیا گیا جو ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ معاملہ اب چونکہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے لہٰذا ہمیں عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس کیس کا حصہ بن کر اپنا موقف پیش کریں تاکہ بعد ازاں کسی فریق کو کوئی اعتراض نہ رہے؛ تاہم فوری طور پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی تنظیم کو اس حساس معاملے پر فوری طور پر حکم امتناع حاصل کرنا چاہئے تاکہ خواتین کے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں۔ وفاقی پولیس میں بھرتی کی کوئی امیدوار خاتون بھی اس معاملے پر عدلیہ سے رجوع کرنے کا حق رکھتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved