تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     07-10-2022

کاشت کاروں کی کون سنتا ہے؟

صنعت کاری بڑھے تو آبادیوں کا رخ شہروں کی طرف ہو جاتا ہے۔ تاریخی طور پر دنیا میں شہر اسی طرح آباد ہوتے رہے ہیں۔ اب صنعتی ممالک میں 70 سے 80فیصد آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ زراعت کی اہمیت تو ختم نہیں ہوئی مگر مجموعی قومی پیداوار میں اس کا حصہ کم رہ گیا۔ ہمارے ہاں بھی شہری آبادیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ صنعتیں دھڑا دھڑ لگ رہی ہیں۔ اس میں مزید تیزی آئے گی اور زراعت کا قومی پیداوار میں حصہ کم ہوتا چلا جائے گا۔ صنعتی ممالک میں زراعت نے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کی ہے۔ بہتر بیج دستیاب ہیں۔ پانی کی فراہمی اور بہتر استعمال کے طریقے ایجاد ہوئے۔ کیڑے مار ادویات اور کھادوں کا معیار قائم ہے۔ ہمارے اور اُن کے ہاں زراعت میں ایک نمایاں فرق زرعی زمین کی ملکیت کے حوالے سے ہے۔
صنعتی ممالک میں آہستہ آہستہ خاندانی زرعی فارمز معدوم ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ نئی نسلوں کا دیہات سے شہروں کی طرف رخ اور نئے پیشوں کی کشش ہے۔ چھوٹے فارموں سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا وہاں مشکل سے مشکل ہوتا چلا گیا جس کی وجہ سے زمین کی ملکیت بڑی زرعی کمپنیوں نے سنبھال لی۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو سوائے برطانیہ کے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا مگر امریکہ کے بارے میں جہاں زندگی کے دس سال گزارے‘ کچھ جانکاری رکھتا ہوں۔ وہاں بڑے بڑے خاندانی فارمز اب بھی موجود ہیں۔ چھوٹا کاشتکار بھی ہزاروں ایکڑ زمین رکھتا ہے۔ بڑی اجناس میں گندم‘ کپاس‘ مکئی اور سویا بین شامل ہیں۔ بارش کے پانی سے کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں نہری نظام ہے مگر بہت محدود پیمانے پر اور اس کا پانی کاشت کاروں کو مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ ہر ریاست میں موسم کے اپنے انداز ہیں۔ اسی کے مطابق فصلیں‘ پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ لیکن تمام تر وسائل کے باوجود وہاں بھی کاشت کاری اتنی منافع بخش نہیں جتنے معیشت کے دیگر شعبے۔ یورپ اور امریکہ میں زراعت کو بہت سبسڈی دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا مناسب قیمت پر دستیاب ہوں۔ جاپان میں تو کاشت کاری حکومتی سبسڈی کے بغیر چوتھے دن دیوالیہ ہو جائے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک نے کاشت کار کو عام یا مشکل حالات میں بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ وہ تو محسن ہے کہ آپ کو کھانا فراہم کررہا ہے۔
ہماری روایت اس کے برعکس ہے۔ ہماری حکومتیں‘ اشرافیہ اور منڈی کے بیوپاریوں نے کاشتکار کا برا حال کر رکھا ہے۔ اس درویش کا جتنا تعلق جامعات میں تدریس سے ہے اتنا کاشت کاری سے بھی رہا ہے۔ ہمارا زمین‘ گاؤں‘ فصلوں اور وہاں رہنے والوں سے رشتہ حکمرانوں کی اقتدار کی کرسیوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ آنکھوں سے دیکھتا ہوں‘ کانوں سے سن بھی لیتا ہوں اور بار بار مشاہدے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ آج کل تو کاشتکار اتنا تنگ آچکے ہیں کہ اگر وہ مل کر ہر چھوٹے بڑے شہر کا گھیراؤ کر لیں تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔ کچھ کاشتکار نمائندوں نے‘ معلوم نہیں وہ کون ہیں اور ان کے آگے پیچھے کون سی طاقت ہے‘ ہمت کرکے اسلام آباد دھرنا دینے کی کوشش کی۔ میرے بس میں ہو تو وہ سیاست‘ نظریات اور جماعتی وابستگیوں سے ماورا ہوکر احتجاج ریکارڈ کروائیں‘ جب تک کہ کاشت کاروں کے بنیادی مطالبات تسلیم نہیں ہو جاتے۔ آپ کے ذہن میں شاید یہ خیال آئے کہ درویش بھی ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا ہر گز نہیں! میں پُرامن احتجاج کو سیاسی اور سماجی تحریکوںکی روحِ رواں سمجھتا ہوں۔
کاشتکار ناانصافیوں اور ہر سال خساروں کو بھلا کب تک برداشت کر سکتے ہیں۔ کیسے ہم خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہمارے میڈیا میں روزانہ سیاست پر گفتگو بلکہ بھرپور مباحث ہوتے رہتے ہیں اور ہر بات کا نقطۂ آغاز اور اختتام موروثی سیاسی خاندانوں کے الٹے سیدھے بیانات‘ بے تکی تقریروں اور سیاسی لڑائیوں پر ہوتا ہے۔ ملک کا کاشتکار حکومتی پالیسیوں‘ بری حکمرانی اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے اور ا س کے بارے میں کوئی پروگرام نہ سننے میں نہ دیکھنے میں آتا ہے۔ کتنے صحافی ہیں جن کی تحقیق زراعت یا دیہاتی زندگی پر ہے ؟ مجھے نہیں معلوم کوئی ایسا ہے بھی ؟ کوئی کاشتکار ان کے سامنے آبھی جائے تو پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں ؟ اگر خود کو جانکاری ہو اور زرعی مسائل سے بنیادی واقفیت ہو تو آپ یہ سوال نہ کریں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ زراعت کا شعبہ بحران کا شکار کیوں ہے ؟ شاید ان سطور میں سب کچھ بیان نہ کرسکوں۔ مسائل ساختی نوعیت کے ہیں۔ زمین ہمارے قانونِ وراثت کے تحت تقسیم درتقسیم ہوتی چلی گئی ہے۔ چھوٹاکاشتکار اب بھی موجود ہے مگر دوچار ایکڑ سے اپنا گزارہ مشکل سے چلا سکتا ہے۔ رواں برس کپاس کی فصل پرمیرے علاقے میں اوسطاً ساٹھ ہزار روپے فی ایکڑ لاگت آئی ہے۔ کسی کاشتکار کے پاس تین ایکڑ کاشت کرنے کے لیے کم از کم دو لاکھ کا سرمایہ ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے کاشت کار مقامی سود خوروں سے ادھار لینے پر مجبور ہیں۔ ان کی شرح سود پانچ سے دس فیصد ماہانہ تک ہے۔ اگر فصل خراب ہو جائے‘ جیسا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب میں ہوا ہے تو اکثر اپنی زمین کا کچھ حصہ سود خوروں کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں‘ یا کہیں سے مزید قرض پکڑ کرکے پرانا قرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی برسوں سے کپاس کی فصل کئی بیماریوں کی زد میں رہی ہے۔ ناقص بیج اور جعلی ادویات اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے کچھ زرعی ماہرین موسمی تبدیلیوں کا سہارا لے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ زرعی علاقوں میں یہ کاشتکار آپ کو بتائے گا کہ جعلی ادویات کون بیچ رہا ہے‘ مگر ضلعی انتظامیہ کو پتا نہیں چل پاتا۔ گزشتہ دوسال سے کھادیں بوقت ضرورت مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہیں۔ ذخیرہ اندوز مصنوعی قلت پیدا کرکے عین گندم‘ کپاس اور دیگر فصلوں کی بوائی کے وقت کھاد بھاری قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ یہ تماشا بھی ہر ضلع کی انتظامیہ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ آپ خود ہی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں۔
اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن میں جنوبی پنجاب میں نہری پانی کی کمی اور بڑے زمینداروں کا اس پانی پر اجارہ اورقبضہ ہے۔ ہم چھوٹے اور درمیانے زمین دار کچھ نہیں کرسکتے۔ہماری عرضیاں ردی کی ٹوکری کی زینت بنتی چلی آئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ گندم پک کر تیار ہوجاتی ہے‘ بوریوں میں بند کھلی مارکیٹ میں بک رہی ہوتی ہے مگر سرکاری خریداری کے مراکز کئی ہفتے تاخیر سے کام شروع کرتے ہیں۔ وجہ اس کے علاوہ اور نہیں کہ مقامی بیوپاریوں کو موقع مل جائے اور سمگلروں کو بھی جو سرکاری نرخوں سے کم پر خرید کرچھوٹے کاشتکاروں کو لوٹ سکتے ہیں‘ لوٹ لیں۔ اب کیا کہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ مگر چھوٹاکاشت کارفوراً اپنی فصل فروخت کرنے پر مجبور ہوتاہے۔ میں اس وقت سینکڑوں کاشت کاروں کی فہرست بنا کر پیش کرسکتا ہوں جو سیلاب اور بارشوں کی آفت سے کمر توڑ خسارے کا سامنا کررہے ہیں۔ اب دیکھوں گا کہ ملک کے اندر اور باہر سے جو وعدے ہورہے ہیں‘ کاشت کاروں کے نصیب میں کچھ ہے بھی یاوہ غربت کی چکی میں ہی پستے رہیں گے۔ کچھ تو سوچیں‘ کچھ تو غور فرمائیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved