وسطی انگلینڈ میں مشہور شہر برمنگھم سے شمال مشرق کی جانب چند کلومیٹر کے فاصلے پر لیسسٹر (Leicester) کا درمیانے درجے کا شہر واقع ہے۔ برطانیہ کے دیگر شہروں کی طرح لیسسٹر میں بھی مختلف خطوں سے ہجرت کرکے آنے والے ہزاروں باشندے کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ ان میں جنوبی ایشیا سے آنے والے مسلمان‘ ہندو اور سکھ بھی شامل ہیں۔ ماضی میں ایک دوسرے سے جدا مذاہب کے پیروکار ہونے کے باوجود ان کے درمیان کبھی پُرتشدد فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے‘ اس لیے مذہبی ہم آہنگی‘ باہمی احترام اور مل جل کر رہنے کے حوالے سے لیسسٹر کو ''ماڈل شہر‘‘ کہا جاتا تھا‘ لیکن حال ہی میں اس شہر میں جو کچھ دیکھنے میں آیا‘ اس نے بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی یاد تازہ کر دی۔ شہر میں دہائیوں سے اکٹھے اور دوستانہ ماحول میں رہنے والے پرانی نسل کے لوگ حیران ہیں کہ دوستیاں دشمنی میں کیسے بدل گئیں؟ مذہبی رواداری پر چلنے والے لوگ ایک دوسرے کے مذہبی مقامات پر کیسے حملہ آور ہو گئے؟ ان واقعات کی فوری وجہ 28 اگست کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں ایشیا کپ کے پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے گئے میچ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میچ میں بھارت کی کرکٹ ٹیم جیت گئی تھی۔ اس جیت کی خوشی منانے کیلئے لیسسٹر میں رہنے والے ہندوؤں نے جشن منایا اور ایک جلوس نکالا جو بہت جلد اینٹی مسلم مظاہرے کی شکل اختیار کر گیا۔
رپورٹس کے مطابق جلوس کے شرکا میں سے کچھ زیادہ نشے کی حالت میں تھے اور انہوں نے ہاتھوں میں برچھی نما ڈنڈے پکڑے ہوئے تھے اور وہ ''ہندو توا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی آبادی اور ایک مسجد پر دھاوا بولنے کی نیت سے آگے بڑھے۔ جواب میں مسلمانوں کے ایک گروپ نے مقامی آبادی کے ایک مندر پر لہرانے والے جھنڈے کو اتار کر اسے آگ لگانے کی کوشش کی۔ اطلاعات کے مطابق جلوس میں شامل ہندوؤں اور ان کے نعروں سے مشتعل ہونے والے مسلمان نوجوانوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ ایک دوسرے پر بوتلوں یا جو کچھ ہاتھ میں آیا‘ اس سے حملہ بھی کیا‘ لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ شہر کی پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے چند افراد سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔ اس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ جشنِ فتح کو ایک خونریز فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لیسسٹر کی انتظامیہ اور پولیس ان فسادات کی تفتیش میں مصروف ہے‘ ابھی تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آئی تاہم اب تک کی جانے والی انکوائری کے مطابق کچھ ہوشربا حقائق سامنے آئے ہیں‘ جن کی بنیاد پر اعلیٰ حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میچ تو محض ایک بہانہ تھا‘ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے اور اس کے پیچھے نہ صرف تاریخی‘ سماجی اور مذہبی عوامل کار فرما ہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں میں جو سیاسی و سماجی تبدیلیاں بھارت میں رونما ہوئی ہیں اور خود لیسسٹر میں نئی نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو جو مسائل مثلاً محرومی اور بیروزگاری درپیش ہیں‘ ان کا بھی ان واقعات کے پیچھے ہاتھ ہے۔
لیسسٹر کے چیف کانسٹیبل مسٹر روب نکسن (Rob Nixon) کے مطابق ان فسادات میں صرف ہندو اور مسلمان ہی ملوث نہیں‘ کیونکہ ہجوم میں پولیس کی کچھ ایسے لوگوں پر بھی نظر پڑی جن کا تعلق عیسائیت سے تھا۔ مسٹر نکسن کے مطابق یہ فسادات جنریشنل چینج کا نتیجہ ہیں۔ کرکٹ میچ تو بارود کو جلتی ہوئی ماچس کی تیلی دکھانے کے مترادف ثابت ہوا ہے‘ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی ایک عرصہ سے جاری تھی۔ ان کے بزرگوں‘ جو شہر میں بہت پہلے امیگرنٹ بن کر آئے تھے‘ کے درمیان رواداری‘ برداشت‘ میل جول اور دوستی تھی حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کی روایات پر عمل کرتے تھے‘ اس لیے شہر میں فرقہ وارانہ ماحول پُرامن تھا لیکن نئی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ شہر میں دہائیوں سے قائم روایتی کمیونٹی نیٹ ورکس سے دور ہوتے گئے اور دوسرے شہروں کے ایسے نوجوانوں کے ساتھ ملتے گئے جو خود بھی اپنے روایتی کمیونٹی نیٹ ورکس سے کٹ چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوے میں ملوث پائے جانے والے جن افراد کو پولیس نے اپنی تحویل میں لیا‘ ان میں سے بعض کا تعلق لیسسٹر کے علاوہ برمنگھم‘ لندن اور دوسرے شہروں سے ہے۔
ماضی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان امن کی وجہ سے لیسسٹر شہر برطانیہ میں ہجرت کرنے والوں کی پسندیدہ منزل تھا۔ 1951ء کی مردم شماری کے مطابق آج سے سات دہائیاں پہلے لیسسٹر میں صرف 624 تارکین وطن تھے‘ جن کا تعلق جنوبی ایشیا سے تھا مگر آج ہندوؤں اور مسلمانوں کا شہر کی کل آبادی میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔ برطانیہ کے دیگر حصوں کی طرح لیسسٹر میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دو وجوہات کی بناء پر ہوا۔ 1948ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس نے کامن ویلتھ کے شہریوں کو بڑی تعداد میں برطانیہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ ایک عرصے تک ہندو‘ مسلمان اور سکھ لیسسٹر میں پُرامن زندگی گزارتے رہے بلکہ 1970ء کی دہائی میں جب برطانیہ میں نسل پرستوں کے گروہوں نے ایشیائی تارکین وطن کو جارحیت اور نفرت کا نشانہ بنایا تو ان لوگوں نے مل کر نسل پرستوں کا مقابلہ کیا۔ اس دوران بعض واقعات مثلاً 1965ء اور 1970ء کی جنگوں اور 1984ء میں اندرا گاندھی کے قتل اور اس قتل کے رد عمل کے طور پر دہلی میں ہندوؤں کے ہاتھوں ہزاروں سکھوں کے قتل نے ان تینوں گروہوں میں کشیدگی کی فضا پیدا کی۔ سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے‘ مگر تصادم تک نوبت نہیں آئی‘ مگر 2014ء میں بھارت کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت کے قیام نے جنوبی ایشیاء کا سیاسی کلچر ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ہندو نیشنلزم کا پرچم بلند کرکے نریندر مودی نے انتہا پسند ہندوؤں کو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ہراساں کرنے بلکہ معمولی بات پر جان سے مارنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ گجرات‘ جنوبی افریقہ اور ملاوی سے جو ہندو تارکین وطن لیسسٹر میں آباد ہوئے ہیں وہ بی جے پی کے کٹر حامی ہیں اور انتہا پسند ہندو نیشنلزم کے پرچار میں پیش پیش ہیں۔ اس وقت لیسسٹر میں ہندو مسلم کشیدگی کی صورت میں جو فضا ہے وہ اسی ماحول کا عکس ہے جو نریندر مودی نے بھارت میں قائم کر رکھا ہے۔ اس کے نمایاں خدوخال نفرت‘ تشدد‘ عدم برداشت اور اشتعال انگیزی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس انتہا پسندی کو پھیلانے میں بہت مدد دی ہے۔ سوشل میڈیا کی مدد سے نہ صرف لیسسٹر بلکہ برطانیہ اور امریکہ کے دیگر شہروں میں رہنے والے ہندو بھارت میں ہندوتوا کے زیر اثر اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بغیر کسی تاخیر کے فوراً دیکھتے ہیں‘ اور پھر اس سے متاثر ہو کر اپنے اردگرد رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اس میں دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت خاموش ہے۔ اس خاموشی سے انتہا پسندی کو مزید ہوا ملتی ہے۔ حالانکہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن‘ خواہ وہ مسلمان ہوں‘ ہندو یا سکھ اس کشیدگی سے کسی طرح بھی مستفید نہیں ہو سکتے۔ مغربی ممالک میں البتہ اس صورتحال پر سخت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کو ہندو نیشنلزم پر تنقید اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مخالفت کرنے پر ٹیلیفون پر دھمکیاں دی گئی ہیں۔ مغرب میں انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کی سرگرمیوں کو انتہائی خطرناک قرار دے کر انہیں فوراً دبانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved