تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     08-10-2022

سائفر پر سیاست

بددعا ہے کہ آپ کی زندگی دلچسپ زمانے میں گزرے۔ یہاں دلچسپ زمانے سے مراد عدم استحکام‘ افراتفری‘ جنگ و جدل‘ بحث و تکرار کا دور ہے اور یقینا ہم ایسے ہی دور میں زندہ ہیں۔ ''خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ کے مصداق وطنِ عزیز میں روز چائے کی پیالی میں طوفان اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ کو میمو گیٹ شاید یاد ہو‘ ایک لایعنی بحث کو اتنی اہمیت دی گئی کہ میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر اعلیٰ عدلیہ میں چلے گئے تھے تاکہ پیپلز پارٹی حکومت کو زچ کیا جائے۔
ایسی ہی لے دے آج کل ایک سائفر کے بارے میں ہو رہی ہے جو مارچ میں ہمارے امریکہ میں متعین سفیر نے اسلام آباد بھیجا تھا۔ اُن دنوں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی بات شروع ہو چکی تھی۔ سائفر میں کہا گیا تھا کہ مجھے امریکہ کی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں آپ کی پارلیمنٹ میں عدم استحکام کی تحریک آنے والی ہے اور یہ کہ ہم اس پیش رفت سے راضی ہیں۔ عام طور پر سفارت کار ایسی باتیں نہیں کرتے‘ وہ اپنا مافی الضمیر بہت محتاط انداز میں بیان کرتے ہیں۔ سفیر صاحب نے پوری ایمانداری سے وہ بات من و عن سائفر کے ذریعے اسلام آباد ارسال کر دی اور ساتھ ہی لکھا کہ امریکن ایمبیسی کے کسی سفارت کار کو بلا کر احتجاج کر دینا چاہیے۔
بات یہاں پر ہی ختم ہو جاتی لیکن وزیراعظم نے 27مارچ کو عوامی جلسے میں ایک کاغذ لہرایا اور کہا کہ میری حکومت کے خلاف بیرونِ ملک سازش ہو رہی ہے اور یہ خط اس کا ثبوت ہے۔ ان کی بات میں کوئی خاص وزن نہیں تھا کیونکہ سازش ہمیشہ خفیہ انداز سے کی جاتی ہے‘ اعلانیہ نہیں ہوتی‘ میں یہی بات اس کالم میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں‘ بہرحال عمران خان کا نظریۂ سازش بڑا مقبول ہوا۔ بقول ان کے واشنگٹن سے آنے والا سائفر اس کھلی سازش کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ڈوبنے والی حکومت نے سائفر کو تنکے کے طور پر استعمال کرنا چاہا۔ میری رائے میں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس کے بعد سائفر پر سیاست شروع ہو گئی جو ہنوز جاری ہے۔ میں نے سائفر کا اس قسم کا سیاسی استعمال اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھا ہے۔
آئیے پہلے یہ سمجھ لیں کہ سائفر کس چڑیا کا نام ہے۔ سائفر خفیہ پیغام رسانی کا ایک مروجہ ذریعہ ہے جسے مسلح افواج اور سفارت خانے باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ حساس معلومات صرف متعلقہ اشخاص تک محدود رہیں۔ ایک عام پیغام کو سائفر میں ڈھالنے کے لیے کوڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جس طرح اپنے بینک اے ٹی ایم کارڈ کا کوڈ صرف آپ ہی جانتے ہیں اسی طرح سائفر کے کوڈ صرف حکومت کے متعلقہ لوگ ہی جانتے ہیں اور وہی اسے استعمال کرنے کے مُجاز ہوتے ہیں۔ فارن آفس میں ایک سائفر سکیورٹی سیکشن ہے جہاں غیرمتعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ سائفر کوڈ ملکی سلامتی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔
ہر ایمبیسی میں بھی سائفر روم ہوتا ہے جسے آہنی سلاخوں سے محفوظ بنایا جاتا ہے۔ سفارت خانے میں سائفر اسسٹنٹ کی پوسٹ تقریباً ہر جگہ ہوتی ہے۔ سفیر صاحب اپنے ایک افسر کو Custodian officer مقرر کرتے ہیں۔ اس افسر کا کام ہوتا ہے کہ مقررہ وقت پر سائفر کے تمام ڈاکیومنٹ چیک کرتا رہے اور اگر سائفر اسسٹنٹ کسی وجہ سے ڈیوٹی پر نہ آ سکے تو کسٹوڈین آفیسر کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کا کام بھی کرتا ہے۔ میں نے بارہا یہ کام کیا ہے۔
سائفر دو طرح کا ہوتا ہے مشینی سائفر اور بک سائفر۔ مشینی سائفر آسان اور تیز طریقہ ہے۔ ایک مشین میں آپ کوڈ ٹائپ کر دیتے ہیں پھر پیغام مشین کے ٹائپ رائٹر کے ذریعے لکھ دیا جاتا ہے۔ مشین پیغام کے متن کو ایک مبہم سی عبارت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ مبہم عبارت منزل مقصود کی طرف روانہ کر دی جاتی ہے وہاں اس عبارت کو پھر سے مشین کے ذریعہ ڈی کوڈ کیا جاتا ہے اور وہ عبارت اپنی اصلی حالت میں پیغام کی شکل میں واپس آ جاتی ہے۔ بک سائفر میں اُن کتابوں کا استعمال ہوتا ہے جن میں کوڈ لکھے ہوتے ہیں لیکن سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایک وقت میں دو کتابوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کی تفصیل یہاں بیان کرنا ضروری نہیں۔سفارت خانے میں صرف تین اشخاص سائفر روم میں جا سکتے ہیں؛ سفیر صاحب‘ کسٹوڈین آفیسر اور سائفر اسسٹنٹ۔ اسی لیے میں بارہا اس کالم میں لکھ چکا ہوں کہ دہری شہریت کے حامل اشخاص کو سفیر نہیںبنانا چاہیے کیونکہ ان کی وفاداریاں بھی دوغلی ہو سکتی ہیں۔ کئی سال پہلے کا ذکر ہے کہ ہماری ہی ایک ایمبیسی میں ایک غیر مجاز شخص کو سائفر روم میں بجلی کی مرمت کی غرض سے اندر جانے کی اجازت دی گئی جہاں اسے اکیلے کام کرنے دیا گیا۔ یہ سکیورٹی کی خلاف ورزی تھی۔ سائفر اسسٹنٹ کو واپس بلا لیا گیا اور سارے ڈاکیومنٹس بدل دیے گئے۔
فارن آفس اسلام آباد میں درجنوں سائفر روزانہ موصول ہوتے ہیں۔ ایک عام سائفر تقریباً پندرہ سے اٹھارہ دفاتر میں بھیجا جاتا ہے لیکن زیادہ حساس نوعیت کے سائفر کی تقسیم بھی محدود ہوتی ہے۔ واشنگٹن سے آنے والا سائفر بھی غالباً محدود سرکولیشن والا تھا کیونکہ یہ صرف صدرِ مملکت‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو ارسال کیا گیا۔ سائفر وصول کرنے والے دفتر کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین ماہ کے اندر اندر اسے فارن آفس کو واپس کر دے یا اُسے تلف کرکے ایک سرٹیفکیٹ بھیج دے۔
اب ہمارے لیڈروں کو دیکھیں۔ مریم نواز نے شروع میں کہا کہ سائفر ایک ڈھونگ ہے۔ پھر سائفر پر نیشنل ڈیفنس کمیٹی میں بحث ہوئی تو مریم بی بی نے کہا کہ یہ اصل نہیں ہے‘ اسے سازشی رنگ دینے کے لیے تبدیل کیا گیا ہے۔ انہیں شاید اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ فارن سیکرٹری سکیورٹی کوڈ کی حفاظت کے لیے سائفر کی عبارت میں معمولی ردو بدل کر سکتا ہے مگر مفہوم وہی رہتا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو آئے کئی ماہ ہو گئے ہیں اور اب مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ سائفر غائب ہے اور سب سے بڑا لطیفہ تو یہ ہے کہ بقول مریم نواز اب دوسرے ممالک پاکستان کو سائفر لکھنے سے احتراز کریں گے۔
اور اب کپتان کی طرف آتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جو سائفر میرے پاس تھا وہ اگر گم ہو گیا تو کوئی بات نہیں‘ ماسٹر کاپی تو فارن آفس میں موجود ہے۔ مگر سابق وزیراعظم غالباً یہ بھول گئے کہ سائفر کوئی اخبار کا ٹکرا نہیں کہ جہاں چاہیں رکھ دیں۔ سائفر کی ایک ایک کاپی کا حساب ہوتا ہے یا اسے فارن آفس واپس کیا جاتا ہے یا ضائع کرنے کا سرٹیفکیٹ فارن آفس بھیجا جاتا ہے۔ اس واقعے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہمارے لیڈر ایسے حساس معاملات کے بارے یا تو لاعلم ہیں یا تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں لیکن انہیں سیاست کرنے کا کوئی بہانہ چاہیے۔میں زیادہ پریشان اس لیے بھی نہیں ہوں کہ سکیورٹی کوڈ چند روز بعد تبدیل ہو جاتے ہیں۔ سائفر کی کتابیں یعنی ڈاکیومنٹ بھی ہر سال نئے تقسیم ہوتے ہیں لیکن جو ہوا وہ بہرحال ایک سبق آموز داستان ہے۔ اگر نیشنل سکیورٹی کے حساس معاملات پر ہمارا یہی روّیہ رہا تو ہم دشمن کا کام بہت آسان کر دیں گے۔
ہمارے لیڈروں کو چاہیے کہ سائفر‘ سائفر کھیلنے کے بجائے اکانومی پر فوکس کریں۔ ملک سے کرپشن ختم نہیں کر سکتے تو اسے کم کرنے کی حکمت عملی بنائیں۔ میں نے سائفر پر سیاست کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔ پاکستان 75سال کا ہو گیا ہے اب ہمارے فکر و عمل سے پختگی عیاں ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے کو ہر قیمت پر نیچا دکھانا بلوغت کی دلیل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved