تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-10-2022

کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں!

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جب سے لانگ مارچ کے لیے تیار رہنے اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں حکومت مخالف تحریک کیلئے کارکنوں کے ساتھ حلف اٹھایا ہے‘ بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ کسی نے حلف اٹھانے کو نازی سیلوٹ اور فاشزم سے تعبیر کیا ہے تو کوئی متنبہ کر رہا ہے کہ سندھ اور پنجاب سمیت کے پی سے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے کارکنان بھی اسلام آباد میں ''حفاظت‘‘ کیلئے آ سکتے ہیں۔ کسی نے اعلان کیا ہے کہ ہم نے کئی ماہ سے تیل میں ڈبوئے ہوئے ڈنڈوں کو باہر نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نے آنسو گیس کے گولوں کے پچاس کنٹینرز کے آرڈر دے دیے ہیں۔ گویا حکومتی اتحاد نے اپنی پوری تیاری کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے اسلام آباد کی جانب ''چڑھائی کرنے والوں‘‘ تک پہنچانے کی ذمہ داری ادا کر دی ہے۔ اس سب کا مطلب یہی ہے کہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں ہوئی۔ ملک بھر سے کنٹینر اکٹھے کرنے اور سڑکیں کھود کر مورچے بنانے کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنان کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی بھرپور طریقے سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ خبردار! کسی لانگ مارچ یا دھرنے کا حصہ بننے کا سوچنا بھی مت وگرنہ وہ کچھ ہو گا کہ جو مدتوں نہیں بھلایا جا سکے گا۔ پی ڈی ایم جماعتوں کی اس گولہ باری کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک عمران خان تک یہ بیانات نہیں پہنچ سکے یا شاید کسی نے انہیں اب تک اس سے آگاہ نہیں کیا کیونکہ وہ تو پشاور میں اپنے ہراول دستے کی تیاریوں میں مصروف دیکھے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ذہن میں کسی نے یہ ڈال دیا ہو کہ خان صاحب! گرمیوں کے بڑے دن اب ختم ہو رہے ہیں اور ہلکی ہلکی سردی والا خوشگوار موسم آیا ہی چاہتا ہے۔
اس وقت حکومت کے دل و دماغ سمیت تمام اعصاب پر عمران خان اور پی ٹی آئی کا لانگ مارچ ہی سوار ہے اور یہ جھنجھلاہٹ ہر روز کئی کئی گھنٹوں کی پریس کانفرنسوں اور میڈیا ٹاک سے نمایاں بھی ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم صاحب نے بنفس نفیس خود کئی گھنٹوں پہ محیط ایک طویل پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے قسمیں کھا کھا کر قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی پی ٹی آئی کا چیئرمین ایک فراڈیا ہے اور اس کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک تباہ ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے فرمایا کہ یہ مارچ فتنہ برپا کرنے کی ایک سازش ہے اور اسے ''ہر قیمت پر‘‘ روکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر جتھے اسلام آباد آ کر حملہ آور ہو جائیں تو پھر پارلیمنٹ اور عدالتوں سمیت اداروں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ لہٰذا یہ ان کی بھول ہے کہ وہ بلارکاوٹ اسلام آباد پہنچ جائیں گے‘ مارچ کے حربے کو ہر ممکن طریقے سے روکیں گے۔ اس پریس کانفرنس میں وزیر موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ بعض اینکرز کہتے ہیں کہ میں سخت بات کرتا ہوں حالانکہ ریڈ زون میں احتجاج سے روکنے کی ذمہ داری مجھے آئین و قانون نے سونپ رکھی ہے۔ یادش بخیر! اسی سال کے آغاز میں پی ڈی ایم کی تینوں مرکزی جماعتوں کی طرف سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 11مارچ کو کراچی، سکھر، دادو، حیدرآباد، نوشہرو فیروز، جہلم، اٹک، چکوال، سوات، کوئٹہ اور اوتھل سمیت ملک کے متعدد شہروں میں جے یو آئی کی جانب سے سڑکیں بند کر کے اور ٹائر جلا کر احتجاج کیا گیا تھا جبکہ قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمن کی کال پر درجنوں افراد پارلیمنٹ لاجز بھی پہنچ گئے تھے۔ آج احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنا فتنہ، فساد اور انتشار سے موسوم ہو چکا ہے مگر چند مہینے قبل تک یہ جمہوری حق سمجھا جاتا تھا۔
عمران خان اور ان کے ساتھی یہ جانتے ہی نہیں‘ بھگت بھی رہے ہیں کہ ان کے مخالفین اپنے اختیار سے لوگوں کے نہ صرف کان بند کر سکتے ہیں بلکہ ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی بھی باندھ سکتے ہیں جن سے وہ کچھ دیکھ ہی نہ سکیں۔ بہت سی زبانوں کو بند کرنے کا کام وہ پہلے ہی کر چکے ہیں، چینلز بند کیے جا رہے ہیں، اینکرز کو آف ایئر کرایا جا رہا ہے۔ ملک میں آئے روز انٹرنیٹ کی بندش کو اگر کوئی تکنیکی خرابی گردانتا ہے تو اس کی معصومیت کی داد دی جانی چاہیے۔ جب وہ یہ سب عمل کر رہے ہوتے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے کو خوش خبریاں بھی دی جا رہی ہوتی ہیں مگر شاید وہ وزیر اور مشیر یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ دلوں کو بند کرنے کا کوئی طریقہ اب تک دریافت نہیں ہو سکا۔ وہ جو پی ٹی آئی اور عمران خان کی کشش ہے‘ تمام حربوں کے باوجود نہ صرف اب تک باقی ہے‘ بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دل جاگتا رہتا ہے اور ہر وقت حرکت میں رہتا ہے۔ دل میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ یہ جب جاگتا ہے تو پھر کسی قسم کی جھوٹی تاویلوں اور ہوائی باتوں کو نہیں مانتا۔
اربابِ حکومت شاید اب تک جان نہیں پائے کہ جب لانگ مارچ یا دھرنے کا نام سن کر یہ کبھی تیل میں بھگوئے ہوئے ڈنڈوں تو کبھی اپنی حامیوں کی آمد کی کہانیاں سنانا شروع کر دیتے ہیں تو پھر تبدیلی کی ایک ہی لَے پر دھڑکنے والے دل بھی یہ ٹھان لیتے ہیں کہ 'اب نہیں تو کبھی نہیں۔ کل ان کے دن بڑے تھے تو آج یہ چھوٹے ہو چکے ہیں‘۔ حکومتی اتحاد نے شاید یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ ملک صرف ان کا ہے اور ان کی حکومت ہمیشہ ایسے ہی قائم رہے گی یا صرف ان کو ہی احتجاج کا حق ہے۔ اگر آپ ''تحریکِ نجات‘‘ چلائیں تو ٹھیک ہے‘ اسلام آباد پر ''مہنگائی مارچ‘‘ کے نام سے چڑھائی کریں تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی دوسرا آپ کی حکومت کی پیداکردہ کئی گنا مہنگائی کے خلاف بات کرے تو اس کو ریاستی طاقت، آنسو گیس کی بارش، تیل میں بھگوئے ڈنڈوں اور کارکنوں کی مدد سے روکنے کا مژدہ سنائیں۔ ذرا مسندِ اقتدار سے اتر کر دیکھئے تو سہی‘ ملک کے ایک کونے سے دوسرے تک‘ مہنگائی‘ بجلی کے بھاری بلوں اور روتی پیٹتی مخلوق کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ یہ مجبور اور بے کسوںکا انبوہِ کثیر کسی کی مسیحائی کا منتظر ہے۔ حکومت کروڑوں روپے سے فوارے اور تالاب مرمت کرا رہی ہے، پچھتر رکنی کابینہ اور وزیر؍ مشیرِ بے محکمہ عوام کے ٹیکسوں کو وراثتی مال سمجھ کر خرچ کر رہے ہیں۔ جہاں دس لوگوں کی ضرورت تھی‘ وہاں پچاس سے زائد لوگ قافلے کی صورت میں چل پڑتے ہیں اور وہ بھی ایسے ہوٹلوں میں‘ جن کے ایک کمرے کاکرایہ دس‘ بیس لاکھ روپے سے بھی زائد ہے۔ مہنگائی اور بدامنی نے معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ حکومت اور حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی اور آپ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کچل دیں گے‘ ایسی سزا دیں گے‘ وہ حشر کریں گے کہ دنیا دیکھے گی۔ بڑے دنوں کے زعم کا شکار نہ ہوں‘ تاریخ کی کوئی بھی کتاب پکڑ کر اس کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں۔ جس کسی نے جمہور کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی‘ بالآخر روند دیا گیا۔
کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ یہ پوری دنیا کا دستور رہا ہے جو ہمیشہ سے چلتا آ رہا ہے مگر اس کے با وجود تاریخ ہمارے چند وزرا جیسے خوش گمانوں سے بھری پڑی ہے جوسمجھتے ہیں کہ چند حواریوں، محسنوں اور حکومتی قوت سے وہ سر اٹھا کر چلنے والوں کو اس طرح مسل دیں گے کہ پھر کوئی ان کے سامنے زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔ انہیں کوئی سمجھائے کہ ہر دن پچیس مئی جیسا نہیں ہوتا۔ ذرا پچھلے چھ ماہ کا اسمبلی کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کہ کون سا ایسا قانون ہے جو عوام کے مفاد میں بنا؟ کوئی ایک؟ ہر قانون سازی چند چہروں‘ چند خاندانوں کی سیاست بچانے کے لیے ہوئی مگر افسوس کہ ایسے حربوں سے بھی کچھ نہیں بننے والا۔ اس سے صرف عوامی غضب میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی جماعت کے کئی اراکین برملا یہ اعتراف کر چکے ہیں حکومت سنبھالنے کا ان کا مقصد اپنے مقدمات کو ختم کرانا تھا۔ بظاہر تو یہ مقصد پورا ہوتا ہوا نظر بھی آ رہا ہے مگر تہہ میں پکنے والا لاوا‘ جو اب ابلنے کو ہے‘ وہ کسی کو نظر نہیں آ رہا۔ کچھ فیصلے انسانوں کے ہوتے ہیں اور کچھ تقدیر کے۔ انسان تدبیر سے تقدیر کو مات نہیں دے سکتا۔ جو تقدیر کی مخالفت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ بالآخر منہ کی کھاتے ہیں۔ حکومت جتنی جلدی یہ بات سمجھ جائے‘ اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved