تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-10-2022

پاکستان کا کیا بنے گا…

ہر روز کچھ نیا ہوتا ہے۔چند دن اچھا شغل لگا رہتا ہے‘ جہاں جائیں ایک ہی سوال کا سامناکرنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا کیا ہوگا؟یہ سوال سن کر واصف علی واصف صاحب سے منسوب واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ایک دوست ملنے آیا تو پریشان تھا۔ پوچھا: خیریت ہے؟دوست بولا: پاکستان کے مسائل کی وجہ سے پریشان ہوں۔آپ نے پوچھا: یہ مسائل تمہاری وجہ سے پیدا ہوئے ہیں؟دوست بولا :بالکل نہیں۔ پھر پوچھا: تم ان حالات کو ٹھیک کرسکتے ہو؟دوست نے جواب دیا نہیں۔ واصف صاحب بولے: پھر میرے دوست بیٹھو اور چائے پیو۔
یہ سوال کسی نے پچھلے ہفتے مجھ سے کیا کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟پاکستان کا کیا بنے گا؟میں یہ سوال روز سنتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک سنجیدگی سے جواب دینے کی کوشش کرتا تھا۔پھر اندازہ ہوا اپنا اور اُن صاحب کا وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔میں ان کو قائل کرسکتا ہوں نہ وہ مجھے قائل کر پائیں گے تو پھر ٹائم پاس کرنے کا فائدہ ؟پرانا لطیفہ یاد آیا‘ ایک گاڑی دلی سے امرتسر جارہی تھی۔ برتھ پر ایک نوجوان لیٹا تھا جبکہ نیچے سیٹ پر دوسرے مسافروں کے ساتھ ایک بزرگ بیٹھا تھا۔بزرگ اور نوجوان باتیں کرنے لگے‘کہاں رہتے ہو‘کدھر گئے تھے‘کہاں جا رہے ہو‘ امرتسر میں گھر کہاں ہے‘والدین کیا کرتے ہیں۔ کتنے بھائی بہن ہیں‘ کیا نام ہیں‘ کام کیا کرتے ہیں۔کچھ دیر بعد مسافروں کو احساس ہوا یہ تو ایک دوسرے کو پرانے جانتے ہیں بلکہ دونوں شاید ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن گفتگو ایسے کررہے تھے جیسے پہلی بار مل رہے ہوں۔کسی نے پوچھا تو بزرگ بولے :میں باپ ہوں اور یہ بیٹا ہے۔ ہم اکٹھے دلی گئے تھے اب گھر جارہے ہیں۔مسافر حیران ہوئے تو بولے :لمبا سفر ہے سوچا ذرا گپ شپ لگا لیں۔پاکستان کا کیا بنے گا‘ بھی اسی طرح کا سوال ہے جس کا جواب دونوں جانتے ہیں لیکن وقت پاس کرنے کے لیے موضوع چاہیے حالانکہ یہ طے ہے کہ سوال پوچھنے والا آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہوتا۔میرا تجربہ ہے کہ آپ ایسا سوال پوچھنے والے کو قیامت کا منظر پیش کریں تو سوال پوچھنے والا بڑا مطمئن ہوتا ہے اور آپ کو تعریفی انداز سے دیکھتا جائے گا ورنہ آپ کو کچھ پتا نہیں۔اب بہتر طریقہ اختیار کیا ہے‘دو تین منٹ اگلے کی باتیں سن لیں۔آپ نے جواب دیا تو بات بڑھتی جائے گی اور ایک گھنٹے بعد شاید تلخ بھی ہوچکی ہو۔ہوسکتا ہے ان کی باتوں میں وزن ہو جو میں سمجھنے سے قاصر ہوں‘ لہٰذا لمبی بحث میں کیا پڑنا؟ اپنی اپنی جگہ پر سب لوگ ٹھیک ہوتے ہیں ‘ کسی کو جھوٹا سچا ثابت کرنے میں توانائی خرچ کرنے کا کیا فائدہ۔
ایسی ہی ایک تقریب میں ایک معزز خاتون نے یہی بات پوچھی کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ ان کی باتوں اور آنکھوں میں تشویش تھی جو شاید ہر دوسرے پاکستانی کی آنکھوں میں آج کل نظر آتی ہے۔آج کل چھوڑیں جب سے یہ ملک بنا ہے یہی سوال اور یہی تشویش ہے۔ ان برسوں میں نہ سوالات بدلے نہ جوابات کہ پاکستان کا کیا بنے گا۔میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے کہا :میرا خیال ہے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بدلی ہے حالات بدلے ہیں۔ آئیڈیل حالات تو کبھی نہ تھے۔ آپ کیا سمجھتی ہیں کہ روس اور یوکرین کے حالات ہم سے بہتر ہیں جہاں انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں‘ ان کی قبریں مل رہی ہیں جنہیں ان کے پیارے دفنا نہ سکے‘جن کی آخری رسومات تک ادا نہ ہوسکیں۔ایک ہی قبر میں سینکڑوں لوگ دفن کر دیے گئے۔میں نے انہیں ایک کتاب کا حوالہ دیا جس کے مصنف نے ہزاروں سال کی انسانی تاریخ پر ریسرچ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کا انسان بہت بہتر زندگی بسر کررہا ہے۔ جو حالات سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے تھے اس کے مقابلے میں آج کی نسل بہتر کوالٹی کی اور محفوظ زندگی گزار رہی ہے۔میں یورپ کی کچھ چیزیں پڑھ رہا تھا‘ صرف سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے تک اوسط عمر چالیس پچاس سال کے درمیان تھی۔ آج اسی یورپ میں لوگ مرنے کا نام تک نہیں لیتے۔اسی نوے برس عمر ایک عام سی بات ہے۔پہلے انسان کتنی تکلیف دہ زندگی گزارے تھے۔ بھوک‘ غربت اور قحط عام تھے۔کالے یرقان نے پورے یورپ کو تباہ کیا۔کئی وبائیں آتی تھیں جن کا علاج تک نہ تھا۔ہر طرف لٹیرے‘ ڈاکو فوجیں بنا کر ہر زرخیز علاقے میں گھس جاتے‘ملکوں پر قبضہ کر لیتے‘ سب کچھ لوٹ کر لے جاتے۔کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ اب دنیا میں دو سو سے زائد ممالک ہیں‘ دو تین ملکوں کے علاوہ ‘جہاں سول وار نظر آتی ہے یا جنگیں لڑی جارہی ہیں‘ باقی دنیا پرامن زندگی گزار رہی ہے۔اس لیے اوسطاً انسانی زندگی اب زیادہ محفوظ اور بہتر ہے لیکن کیونکہ ہم اُن زمانوں میں نہیں رہے جب یہ سب بربادیاں تباہیاں ہوئیں یا لوگ قحط سے مرتے تھے ‘لہٰذا ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ ہم کہاں سے کہاں تک آ پہنچے ہیں۔
ہزاروں سال سے لے کر اب تک دیکھ لیں حکمران کیسے ظالم تھے۔دنیا میں صرف تین چار ہی سلطنتیں تھیں جن کے خاندان ہزاروں سال انسانوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اس وقت ہی یہ قانون بنا کہ بادشاہ خدا کی بھیجی ہوئی ایک ایسی ہستی ہے جس کے بارے میں گستاخی پر سر قلم ہوگا۔ صرف گستاخ کوہی سزا نہیں ملے گی بلکہ پورا خاندان ہی آگ میں جلے گا یا سر کاٹے جائیں گے۔ یہ کام صرف یورپ میں نہیں ہورہا تھا ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ مورخ ابراہم ارلی اپنی کتاب The Age of Wrathمیں واقعہ لکھتا ہے کہ کیسے سلطنتِ دلی کے بادشاہ یہی کام کرتے تھے۔ ایک دفعہ دلی کے مسلمان بادشاہ نے قاضی کی عدالت میں مقدمہ کیا کہ فلاں مولانا صاحب ان کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں کہ میں ظالم ہوں۔ بادشاہ نے اس نیک اور بہادر مولانا کو بلایا تو انہوں نے عدالت میں جواب دیا: بالکل بادشاہ ظالم ہے‘ اس کے ظلم کی ایک مثال ہی کافی ہے کہ یہ صرف اپنے مخالف کا سر قلم نہیں کراتا بلکہ اس کے پورے خاندان کو وہی سزا ملتی ہے۔اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔اگلے دن اس مولانا کی بھوسے سے بھری کھال عدالت کے باہر لٹکی پائی گئی۔
بادشاہ کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ یہ قدیم تصورتھا کہ بادشاہ کبھی غلط کام نہیں کرسکتا۔ تصور تھا کہ سب غلط کام عام لوگ یا رعایا کرتے ہیں اور وہی سزا کے مستحق ہیں۔ عوام خود کو ہی ملزم اور مجرم گرادنتے تھے۔بادشاہ خود بھی تلوار کے ذریعے بدلے جاتے تھے۔ جنگیں فیصلہ کرتی تھیں کہ نیا بادشاہ کون ہوگا۔ ہزاروں لوگ مارے جاتے پھر جا کر ایک بادشاہ چنا جاتا جو اسی رعایا پر پھر وہی مظالم شروع کر دیتا جو مقتول بادشاہ کرتا رہا تھا۔ عوام نے خود کو اس رول کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔ پھر انگریز یہ تصور لے کر پوری دنیا میں نکلے کہ بادشاہ کو قتل کیے بغیر بھی عوام اپنا نیا بادشاہ چن سکتے ہیں۔اس کام کے لیے جنگیں لڑنے یا انسانوں کو قتل کرنے یا قتل ہونے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ انہوں نے یہ بھی تصور بھی اجاگر کیا کہ بادشاہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے جو غلط کام نہیں کرسکتابلکہ وہ غلط کام پر وہی سزا بھگتے گا جو رعایا کو ملتی ہے۔بادشاہ کسی کو قتل کرائے گا تو اس کی سزا بھی موت ہوگی۔آج ہمیں آزادی ہے اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرنے کی‘بولنے لکھنے کی آزادی ہے۔ کوئی دلی کے بادشاہ کی طرح مخالفوں کو عدالت کے باہر نہیں لٹکا دیتا۔کوئی قحط نہیں۔ زندگی کا معیار اور عیاشیاں بڑھ گئی ہیں۔
وہ کافی دیر مجھے دیکھتی رہیں اور پھر مایوس ہو کر بولیں: لیکن پاکستان کا کیا بنے گا؟میں نے ایک گہری سانس لی اور خود سے کہا: بیٹا اگر دو منٹ چپ کر کے ان کی بات سن لیتا تو تیرا کیا جاتا۔وہی باپ بیٹا یاد آئے جو دلی سے امرتسرریل پر سفر کررہے تھے۔ایک برتھ پر لیٹا تھا تو دوسرا نیچے سیٹ پر ... اور دونوں کو اپنے اپنے سوالات کے جوابات معلوم تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved