تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     09-10-2022

لندن :سیاسی سرگرمیوں کا مرکز

لندن ہمیشہ پاکستانی سیاست کا محور رہا ہے اور یہاں ہونے والی سیاسی ملاقاتوں کا ہماری سیاست پر گہرا اثر ہوتا ہے۔لندن میں ہونے والے اہم سیاسی معاہدے اس کا بیّن ثبوت ہیں۔ 2007 ء میں دوبڑی سیاسی جماعتوں نے لندن میں میثاقِ جمہوریت کیا تھا‘ اب ایک بار پھر لندن میں سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نومبر 2019ء سے لندن میں مقیم ہیں۔ چند روز پہلے مریم نواز بھی لندن پہنچ چکی ہیں۔ ہیتھرو ایئر پورٹ پر مسلم لیگ (ن) کے حامی مریم نواز کے استقبال کیلئے موجود تھے کہ اس دوران تحریک انصاف کے حامی بھی پہنچ گئے‘ دونوں پارٹیوں کے کارکنان کے درمیان شدید نعرے بازی ہوئی‘ معاملہ شایدبڑھ جاتا مگر سکیورٹی اہلکاروں نے اس پر قابو پا لیا۔ گزشتہ دنوں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کے بعد برطانیہ کے سکیورٹی ادارے متحرک ہوئے ہیں ورنہ تحریک انصاف کے حامیوں نے پروگرام بنایا ہوا تھا کہ جب مریم نواز ایون فیلڈ رہائش گاہ پہنچیں گی تو ان کی آمد پر احتجاج کیا جائے گا مگر سکیورٹی بندوبست ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکنان ایون فیلڈ کے سامنے موجود نہیں تھے‘ البتہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے مریم نواز کا والہانہ استقبال کیا۔ مریم نواز جب ایون فیلڈ رہائش گاہ پہنچیں تو فیملی سے ملاقات کے وقت جذباتی مناظر تھے کیونکہ خاندان نے 11 ستمبر 2018ء محترمہ کلثوم نواز کی وفات اور 22 نومبر 2020ء کو میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم اختر کی وفات کا دکھ ایسے وقت میں کاٹا تھا جب شریف خاندان سیاسی انتقام کا سامنا کر رہا تھا۔ خاندان کے کچھ افراد پاکستان میں تھے جبکہ کچھ لندن میں۔ایسی صورتحال میں کسی بھی خاندان کے جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کی لندن آمد کے بعد کے ابتدائی تین دنوں میں کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی ۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی بھی لندن پہنچے ہیں تو لوگوں نے قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں کہ اندرونِ خانہ کوئی سیاسی بندوبست ہونے والا ہے‘ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حالات نے شریف فیملی اور چوہدری خاندان کو قریب لا کھڑا کیا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اگرچہ ایسی افواہوں کی تردید کی ہے‘ تاہم جلد یا بدیر لندن میں خفیہ ملاقوں کی کہانی سامنے آجائے گی کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی مؤقف اختیار کیا ہے کہ لندن میں ان کے خلاف سازش تیار کی گئی ہے۔ لندن میں سیاسی سرگرمیوں کے ممکنہ طور پر دو پہلو ہو سکتے ہیں‘ ایک یہ کہ چوہدری پرویز الٰہی نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنی جگہ پکی کرنے کے لیے سرگرم ہوں جبکہ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کی ایما پر چوہدری پرویز الٰہی برطانیہ کے دورہ پر گئے ہوں جس کا بنیادی مقصد کوئی سیاسی سمجھوتہ ہو سکتا ہے‘ تاہم لیگی رہنما عطا اللہ تارڑ نے اس مؤقف کی یہ کہہ کر تردید کر دی ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی اننگ کھیل لی ہے اس لیے نواز شریف کو ان کے ساتھ ملاقات میں کوئی دلچسپی نہیں ۔
ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں مریم نواز کا دورۂ لندن کئی حوالوں سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ ایک ماہ لندن میں قیام کریں گی‘ جس میں اہم سیاسی پیش رفت کی توقع ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف مریم نواز کے ساتھ پاکستان واپس جائیں گے؟ جس طرح مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا گیا کیا میاں نواز شریف بھی اس کیس میں بری ہو جائیں گے؟ اس حوالے سے مریم نواز نے کہا ہے کہ پارٹی قائد میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی کا راستہ اب صاف ہے‘ وہ بہت جلد وطن واپس آئیں گے لیکن واپسی کا وقت وہ خود طے کریں گے‘ ہم نے عدالت میں اب صرف ایک درخواست دینی ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی آڈیو لیکس اوورسیز پاکستانیوں میں موضوعِ بحث بن چکی ہیں۔ ان کی تیسری مبینہ آڈیو ہارس ٹریڈنگ سے متعلق ہے‘ جس میں مبینہ طور پروہ کہہ رہے ہیں کہ پانچ کو تو میں خرید رہا ہوں اگر وہ ہمیں پانچ سکیور کر دے تو دس ہو جائیں گے‘ پھر گیم ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ کہتے ہوئے بھی سنا جا سکتا ہے کہ فکر نہ کریں یہ ٹھیک ہے یا غلط۔ میر جعفر اور میر صادق کا بیانیہ فیڈ کرنے کی ہدایت بھی آڈیو کا حصہ ہے۔ قارئین یاد کر سکیں تو خان صاحب نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا تھا‘ انہیں ضمیر فروش کہا‘ بھرے جلسے میں کہا کہ لوگ ان کے بچوں کے ساتھ رشتے نہ کریں مگر مبینہ آڈیو میں کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کئی چالیں چل رہے ہیں جسے وہ پبلک نہیں کر سکتے ۔ خان صاحب کے ان جملوں میں سیاسی مفاد کے کھیل کی ساری کہانی موجود ہے کیونکہ جب خان صاحب ہارس ٹریڈنگ سے متعلق بات کرتے تھے تو سیاسی حریفوں کو موردِالزام ٹھہراتے‘ بہت سے غیر جانبدار حلقے عمران خان کے اس مؤقف کی حمایت کرتے تھے مگر اب جا کر عقدہ کھل رہا ہے کہ وہ خود ہارس ٹریڈنگ میں ملوث رہے ہیں۔ اس تیسری آڈیو نے خان صاحب کے بیانیے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں میں سے بہت سے افراد یہ کہہ رہے ہیں کہ اب خان صاحب کا دفاع مشکل ہو گیا ہے ۔ اوورسیز کی حد تک یہ بات درست ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی یا دوسری جماعتوں کی نسبت لوگ اب بھی تحریک انصاف کی زیادہ سپورٹ کرتے ہیں لیکن اوورسیز پاکستانیوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف اوپر بھی نہیں جا رہا ہے کیونکہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی پالیسی واضح نہیں ہے پھر یہ لوگ یہاں کی سیاسی اقدار سے بھی بخوبی آگاہ ہیں‘ اگر حدود کو کراس کرتے ہیں تو برطانیہ کے سخت قانون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سب سے اہم یہ بات ہے کہ مریم نواز کی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہو گئی ہیں‘ عام تاثر یہی ہے کہ مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کے ساتھ لندن سے واپس آئیں گی ‘جس طرح جولائی 2018ء کو باب بیٹی محترمہ کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر لاہور پہنچے تھے اور ایئرپورٹ پر ہی دونوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا اب بھی ایسی ہی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ مسلم لیگ( ن) اسے سیاسی طور پر استعمال کر سکے۔ جب نواز شریف اور مریم نواز واپس لوٹیں گے تو وہ توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔ اگر سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہوتا ہے تو پھر ممکنہ طور پر خان صاحب سیاسی طور پر پس منظر میں چلے جائیں گے۔ اس سیاسی منظر نامے میں اتحادی حکومت مضبوط ہو ئی ہے۔ چند روز پہلے تک جو تاثر تھا کہ اتحادی حکومت قائم ہونے سے مسلم لیگ (ن) کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے اب تازہ صورتحال سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) کے موافق دکھائی دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved