مشفق و مہربان چچا مضطرب ہوگئے۔ انہی کے قبیلے کے سرداروں نے انہیں زوردار دھمکیاں دی تھیں۔ بھتیجے کی محبت اور حمایت میں ذرہ برابر فرق نہیں تھا لیکن پورے قبیلے کا مقابلہ کرنا‘ یہ بوجھ ان کی برداشت سے زیادہ ہورہا تھا۔اسی اضطراب اور پریشانی میں انہوں نے بھتیجے کو بلایا اور کہا : ' 'بھتیجے ! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور ایسی ایسی باتیں کہہ گئے ہیں۔ اب مجھ پر اور خود اپنے آپ پر رحم کرو اور اس معاملے میں مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میرے بس سے باہر ہے‘ ‘۔
اس چچا کی طرف سے جولشکروں کے سامنے قلعے کی طرح تھے‘ یہ بات سن کر بھتیجے کو اندازہ ہونے لگا کہ جس چچا کی پشت پناہی اب تک حاصل تھی ‘وہ ڈگمگا رہے ہیں۔ اور اگربنو ہاشم کے سردار ابو طالب‘ قریش کے سامنے ڈگمگا رہے ہیں‘جن پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کی جاسکتی‘ تو محمد بن عبداللہؐ ‘جن کی مخالفت ہی نہیں دشمنی میں پورا شہر ایک ہوچکا تھا‘وہ کسی حصار کے بغیر کیسے تن تنہا مقابلہ کریں گے؟یہ بہت بڑا سوال تھا اور اس کے کئی رُخ تھے۔بنو ہاشم کے اندر سے بھی مخالفت موجود تھی تو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بیک وقت نبرد آزما ہونا کوئی آسان کام تھا؟
ایک پل کے لیے ٹھہریں۔ خود کو ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی قبائلی بستی میں تصور کریں۔ خوں خوار بدوؤں ‘سفاک رہزنوں اور خوں آشام قاتلوں کے بیچ رہنے اور خود کو محفوظ رکھنے کی صرف ایک صورت ہے۔ اور وہ ہے اپنا قبیلہ۔ وہ قبیلہ جو اتنا طاقتور ہو کہ آپ اس کی مدد سے زندگی جی سکیں اور اپنے مال و آبرو کی حفاظت کرسکیں۔ اس اپنے قبیلے کا ایسے خلاف ہوجانا کہ اس کا کوئی بھی فردکسی بھی وقت آپ کی جان لے سکتا ہو‘قبیلے کا کوئی آدمی متحمل ہوسکتا ہے ؟کبھی نہیں۔
ایک پل مزید رکیے۔ قبیلے کا کسی اپنے فرد سے لاتعلق ہوجانا‘ قبیلہ بدر کردینا۔اس کی عرب میں بہت کم مثالیں ہیں۔ میں کم علم آدمی ہوں لیکن کم از کم میرے علم میں قریش میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ نہ قبیلے نے ایسا کیا۔ نہ کسی فرد نے۔ یہ عمل تو صحرا میں پانی کے بغیر تڑپ تڑپ کر مرجانے جیسا ہے۔کوئی اپنے قبیلے کو دشمن بنا لینے کا کام کرسکتا ہے ؟اگر آپ اس قبائلی ‘ نیم وحشی ماحول کا ادراک کرسکیں تو اندازہ ہوجائے گاکہ باقی مشکلات کو چھوڑیں ‘تنہا یہی کام سوچنا بھی محال تھا۔
کیا جواب چاہیے تھا ان حالات میں ؟ سائبان کی چھاؤںوالے چچا‘ جن کے بے شمار احسانات تھے۔ وہ احسان جن کا ادراک بھی تھا اور ان کا بدلہ دینے کی کوشش بھی۔ وہ ضعیف العمر چچا جو معاشی تنگی کا بھی شکار تھے اور جس کی وجہ سے آپ نے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔کون سا جواب چاہئے تھا اس وقت ؟مصلحت کا جواب ؟وہ جواب جس سے وقتی طور پر یہ صحرائی طوفان تھم جائے۔ ابوجہل ‘ امیہ بن خلف ‘ولید بن مغیرہ ‘ عتبہ ابن ربیعہ ‘ابوسفیان۔ان میں ہر شخص ایک قبیلہ تھا۔ سردارانِ قریش سے ٹکر لینا کوئی آسان تھا کیا ؟
یہاں عام انسان اور پیغمبر کا فرق واضح ہوتا ہے۔ عام انسان‘ جسے دنیاوی مصلحت دیکھنی پڑتی ہے اور جسے اپنی عقل کے مطابق فیصلے کرنے پڑتے ہیں او رپیغمبر جس کے ارفع مقصد کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے اور جو ہر فیصلے کے لیے اللہ کافیصلہ دیکھتا ہے۔ انسان کیسابھی اولوالعزم ہو‘ آسائشوں سے کتنی بھی بے رغبتی ہو‘ رشتے داروں‘بیوی ‘بچوں ‘اپنے گنے چنے پیرو کاروں کی فکر سے باہر نہیں جاسکتا۔تاریخ‘ ابو طالب کے بھتیجے‘ آخری پیغمبر محمد بن عبد اللہﷺ کا کوئی بھی جواب محفوظ کرسکتی تھی لیکن اس نے جو کلمات محفوظ کیے وہ آج بھی پڑھ لیں توآنکھیں چھلک اٹھتی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔' ' یا عم واللہ لو وضعوالشمس فی یمینی و القمرفی یساری علیٰ ان اترک ھذا الامرما ترکتہ حتی یظہرہ اللہ او اھلک دونہ۔چچا جان !اللہ کی قسم ‘اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں ‘ تو نہیں چھوڑوں گا۔یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے غالب کردے اور یا میں اسی راہ میں فنا ہوجاؤں‘ ‘(ابن ہشام )
پھر آپ کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ آپ رو پڑے اور اُٹھ گئے۔ واپس ہونے لگے تو ابو طالب نے پکارا۔ سامنے تشریف لائے تو کہا: بھتیجے !جاؤ جو چاہے کہو۔خدا کی قسم میں تمہیں کبھی بھی کسی بھی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتا۔پھر ابو طالب نے یہ اشعار کہے :
واللہ لن یصلوا الیک بجمعھہم
حتی اُو سّد فی التراب دفینا
فاصدع بامرک ما علیک غضاضتہ
وابشر و قرّ بذاک منک عیونا
' ' اللہ کی قسم ! وہ لوگ تمہارے پاس اپنی جمعیت سمیت بھی ہرگز ہرگز نہیں پہنچ سکتے۔ یہاں تک کہ میں مٹی میں دفن کردیا جاؤں۔ آپ اپنی بات کھلم کھلا کہو۔ آپ پر کوئی قدغن نہیں۔ آپ خوش ہوجاؤ اورآپ کی آنکھیں اس سے ٹھنڈی ہوجائیں‘ ‘۔
کوئی تصور کرسکتا ہے نبی اکرمﷺ کی اس کیفیت کاجو اس وقت آپ کے دل کی ہوگی۔ کوئی ان تمام جذبات کا ادراک کرسکتا ہے جن کے تحت آپ کے آنسو بہہ نکلے؟ چچا کے احسانات ‘ان کے حسبِ منشا جواب نہ دے پانا‘اپنے خاندان کی پشت پناہی سے محرومی کا امکان‘اہل ِایمان پر ممکنہ تکالیف کا اندازہ ‘اپنے بیوی بچوں کی کڑی مشکلات۔ کون جانے پیغمبر آخر الزماںﷺ کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی ہوگی۔ محض ان آنسوؤں سے تو یہی جانا جاسکتا ہے کہ ہر تکلیف او رمخالفت کو برداشت کرجانے والے اور جان کی پروا نہ کرنے والے پیغمبر کا دل زخمی تھا۔میں رشک کرتا ہوںاس دن پر جس نے یہ نظارہ دیکھاہوگا۔ زمین کے اس ٹکڑے پر جہاں آپ کے آنسو گرے ہوں گے۔ اس لباس پر جس میں یہ جذب ہوئے ہوں گے۔
نبی اکرمﷺ نے کس بھروسے پر یہ جواب دیا تھا؟یہ امکان تو صاف نظر آرہا تھا کہ چچا بھی حمایت چھوڑ دیں۔ ابوطالب کے بعد بنو ہاشم کی حمایت کیسے باقی رہ سکتی تھی ؟مسلمانوں کی گنی چنی تعداد پر انحصار کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ان میں بھی کچھ لوگ ہجرت کرکے حبشہ جاچکے تھے۔ جو موجود تھے وہ ہر روز اپنے خون کا ذائقہ چکھتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اتنا مارا جارہا تھا کہ ان کے چہرے کے خد و خال تبدیل ہو جاتے‘ کپڑے میں ڈال کر گھر لایا جاتااور لگتا کہ آج بچیں گے نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کھجور کی چٹائیوں میں لپیٹ کر دھویں کی دھونی دلائی جارہی تھی۔ یہ تو آزادوں کا حال تھا۔ غلاموں کی زندگی غلامی اور اذیت کی دہری تکلیف سے عبارت ہوچکی تھی۔ تپتی چٹانوں پر لٹایا جارہا تھا‘ گلے میں رسی ڈال کر دہکتی راہوں میں چلایا جارہا تھا۔ایک غلام گھرانے کے سربراہ حضرت یاسر ؓمظالم کی تاب نہ لاکر شہید ہوچکے تھے۔ ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ کو نیزہ مار کر جاں بحق کیا جاچکا تھا۔اور بیٹے حضرت عمار بن یاسرؓ کی زندگی ایک لامتناہی تکلیف تھی۔ یہ تو بعد میں ہوا کہ حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں کو وہ تقویت مل سکی کہ مسجد حرام میں نماز ادا کرسکیں۔تو کس آسرے‘ کس بھروسے پر آ نحضرتﷺ نے یہ جواب دیا جس کے الفاظ کو سونے سے لکھ کر بار بار چوما جائے تو اس عزیمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
عزیمت ‘ استقامت ‘استقلال ‘ اولوالعزمی ‘جرأت‘بہادری ‘صبر‘دل گرفتگی‘ تنہائی۔ یہ سب الفاظ چھوٹے ہیں۔ بہت چھوٹے۔ بالکل بے معنی۔ ان کی جگہ تو لغت میں یہ الفاظ ہونے چاہئیں ' ' چچا جان !اللہ کی قسم ‘اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں ‘ تو نہیں چھوڑوں گا۔یہاں تک کہ یا تو اللہ اسے غالب کردے اور یا میں اسی راہ میں فنا ہوجاؤں‘ ‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved