آڈیو لیکس کا سلسلہ بدستور جاری ہے جس سے وزیر داخلہ صاحب کے اس دعوے میں کہ وہ مطلوبہ شخص تک پہنچ چکے ہیں‘ حالات کے پیش نظر زیادہ سچائی دکھائی نہیں دے رہی۔ وزیراعظم آفس سے ریکارڈ کی گئی آڈیوز کا معاملہ ایک یا دو دن پر محیط نہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ کئی مہینوں تک یہ ریکارڈنگز کی جا تی رہی ہیں لیکن کسی کو کان و کان خبر تک نہ ہوئی۔ جو ہیکر اتنی دیر سے ریڈار پر نہیں آ سکا اس کا اتنا جلدی سراغ لگانے کا دعویٰ شاید قبل از وقت ہے۔
ملک میں اس وقت سیاسی صورتحال بہت عجیب ہو چکی ہے۔ عمران خان (ن) لیگ سے متعلق جاری ہونے والی آڈیوز کو بنیاد بنا کر مریم نواز پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن سائفرسے متعلق جاری ہونے والی اپنی آڈیوز کو جعلی قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی جعلی ویڈیوز بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ اس کے برعکس وزیراعظم اور مریم نواز نے آڈیوز کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ میں یہاں یہ ہر گز نہیں کہنا چاہتا کہ عمران خان کی آڈیوز اصلی ہیں یا جعلی ہیں۔ اگر خان صاحب ان آڈیوز کو جعلی قرار دے رہے ہیںتو ان کی آزادانہ تحقیقات کروائی جانی چاہئیں لیکن خدشہ ہے کہ اگر تحقیقات کے بعد فیصلہ خان صاحب کے خلاف آتا ہے تو وہ ممکنہ طور پر اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ تحریک انصاف ممکنہ طور پر اِن آڈیو لیکس کو بھی بیرونی سازش سے جوڑ سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن معاشی میدان میں شاید درست سمت کا تعین کر لیا گیا ہے۔
اس وقت شدید معاشی ابتری کے حوالے سے افواہوں پر قابو پانا اور معیشت کے حوالے سے اچھی خبریں دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے اور نئے وزیر خزانہ اس حقیقت سے آگاہ دکھائی دیتے ہیں۔کریڈٹ ریٹنگ فرم موڈیز کی جانب سے پاکستان کی ریٹنگ مزید منفی کیے جانے کے بعد وزیر خزانہ نے موڈیز سے کہا ہے کہ جن اندازوں کی بنیاد پر پاکستان کی ریٹنگ مزید منفی کی گئی ہے وہ غیر حقیقی ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ وزیر خزانہ کا دعویٰ غلط ہو لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچانے والے اعداد و شمار کو اگر جھٹلایا نہ جاتا تو انٹرنیشنل مارکیٹ میں یہ تاثر عام ہو جاتا کہ حکومتِ پاکستان بھی موڈیز کی منفی ریٹنگ سے اتفاق کرتی ہے۔ وزیر خزانہ نے جلد ہی موڈیز کے ذمہ داران سے ملاقات کا عندیہ دیا ہے جس میں ممکنہ طور پر حقیقی اعداد و شمار اور دلائل کی بنیاد پر بات کی جائے گی اور منفی ریٹنگ رپورٹ کو ریورس کروانے کی درخواست بھی کی جا سکتی ہے۔ جس طرح موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ کم کی ہے‘ یہ صورتحال ڈالر مارکیٹ کے لیے بہت پریشان کن ثابت ہو سکتی تھی۔ اب ڈالر کہاں جا کر رکتا ہے‘ اس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا لیکن ڈالر کو قابو میں رکھنے کا انحصار کسی حد تک اس بات پر ہے کہ جو بینکس ڈالر کا ریٹ بڑھانے میں ملوث تھے‘ کیا انہیں کوئی سزا ملے گی یا نہیں۔ اس حوالے سے ماضی پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ ستمبر 2013ء میں بینکوں نے ڈالر ریٹ ایک دن میں دس روپے بڑھایا تھا۔ سٹیٹ بینک نے اس وقت تقریباً 75 ملین ڈالرز مارکیٹ میں پھینک کر ڈالر ریٹ کنٹرول کیا۔ اُس وقت لگ بھگ 12 بینکوں نے مل کر ڈالر ریٹ بڑھایا تھا لیکن بین الاقوامی دباؤ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تھا۔ صرف انہیں وارننگ دی گئی تھی کہ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو بینکوں کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بینکس غیرقانونی طریقے سے منافع کمانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن وہاں ان کے خلاف کارروائی بھی ہوتی ہے۔ جنوری 2013ء میں برطانیہ کے کچھ بینکوں نے شرحِ سود کو جان بوجھ کر بڑھا دیا جس کے نتیجے میں بار کلیس بینک کے چیف ایگزیکٹو رابرٹ ای ڈائمنڈ کو مستعفی ہونا پڑا اور 450 ملین ڈالرز کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔ لیکن پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ڈالر ریٹ کو بڑھانے پر کسی بینک کو جرمانہ ہوا ہو۔ ایکسچینج کمپنیز کو جرمانہ ہوتا رہا ہے لیکن بینکس کے خلاف اس طرح کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اگر ڈالر سکینڈل میں اب بینکوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اس مرتبہ بینکوں کو سخت جرمانہ ضرور کریں گے اور ممکن ہے کہ جتنا ناجائز منافع بینکوں نے کمایا ہے‘ انہیں وہ بھی مکمل واپس کرنا پڑے۔
اگر بینکوں کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں تو چند تجاویز پر عمل کرنے سے ڈالر کے ساتھ کھیلنے والوں کا راستہ بند کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بینکوں نے جو ڈالرز کی ٹریڈنگ سے پیسہ بنایا ہے اس کا تمام ریکارڈ موجود ہے کہ کس ریٹ پر ایکسپورٹر سے ڈالر خریدا گیا اور کس ریٹ پر امپورٹر کو بیچا گیا۔ بینکوں نے مبینہ طور ایکسپورٹر سے کم ریٹ پر ڈالر خریدا اور امپورٹر کو مہنگا کر کے بیچا جس سے دونوں کو نقصان ہوا۔ بینکوں کو منافع کی رقم کے برابر جرمانہ کرکے وہ رقم ایکسپورٹر اور امپورٹر میں درست تناسب کے ساتھ تقسیم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کے منافع کی رقم کے برابر انہیں مزید جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ڈالر ریٹ میں ہیرا پھیری کرنے والوں کو سزا دے کر ایک مثال قائم کی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں ڈالر کا ریٹ بڑھانے والے بینکوں کے اعلیٰ حکام کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں بھی اس طرح کے ایکشن شاید ناگزیر ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق ڈالر کی اصل قیمت دو سو روپے سے کم ہے جبکہ انٹربینک میں ڈالر 239 روپے پر لے جایا گیا اور فیوچر ٹریڈنگ 270 روپے پر بھی کی جا رہی تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں نے چند ارب روپے کمانے کے لیے پاکستان کے قرضوں میں کھربوں روپوں کا اضافہ کر دیا۔
ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ اسحاق ڈار صاحب کتنا بیرونی دباؤ برداشت کر سکیں گے۔پاکستان کی ریٹنگ مزید منفی ہونے کے بعد بیرونی سرمایہ کار پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔ بھاری جرمانوں کے بعد سرمایہ کاری کی صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے لیکن سخت ایکشن لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں شوکت ترین نے دو مرتبہ بینکوں کو متنبہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کا ریٹ بڑھانے سے باز رہیں لیکن سخت ایکشن نہ لینے کی وجہ سے بینکوں کی حوصلہ شکنی نہ ہوئی۔ اب بھی اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو آنے والے دن مزید مشکلات لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ چند ماہ میں مہنگائی 25فیصد سے کم ہو کر پانچ سے سات فیصد تک آجائے گی۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مانیٹری پالیسی میںشرحِ سود کو یا تو برقراررکھا جائے گا یا کم کر دیا جائے گا لیکن اسے بڑھایا نہیں جائے گا۔ اس کے علاوہ برآمدکنندگان کے لیے بجلی کا ریٹ فکس کر دیا گیا ہے اور ان کے باقی مسائل حل کرنے کے لیے بھی ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک بھی سیلاب متاثرین کے لیے تقریباً ڈھائی ارب ڈالرز دینے پر راضی ہو گیا ہے۔ امید ہے کہ یہ مثبت خبریں بھی پاکستان کا امیج اور معاشی حالت بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی لیکن اس کے لیے مستقل مزاجی اور سیاسی استحکام ضروری ہے۔ امید ہے کہ تحریک انصاف بھی اس نزاکت کو سمجھے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved