معاملہ معاشیات کا ہو یا سماجیات کا‘ ہر انسان کو مختلف سطحوں پر تعلقات استوار کرنا ہی پڑتے ہیں۔ تعلقات ہی کی بدولت زندگی میں حسن‘ جامعیت اور گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ تعلقات ہی طے کرتے ہیں کہ ہم کامیابی کی راہ پر کس رفتار سے بڑھ سکیں گے اور یہ بھی کہ بڑھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ تعلقات کا معاملہ ہمیشہ انسان کو الجھنوں سے دوچار کرنے والا ہی رہا ہے۔ بہت سے تعلقات آپس میں متصادم ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی کوئی تعلق ہمارے لیے موافقت پیدا کرتا ہے مگر دوسروں کے لیے الجھن کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تھوڑی بہت خرابی یا کشمکش بھی پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کا سفر یونہی جاری رہتا ہے۔ کبھی ہم کسی کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں اور کبھی‘ نہ چاہتے ہوئے بھی‘ مشکل کا باعث بنتے ہیں۔ انسان کو زندگی بھر مختلف معاملات میں اور مختلف سطحوں پر سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔ زندگی ہر قدم پر کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے۔ جس نے سیکھنے میں دلچسپی لی وہی کامیاب رہا۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے پر فوری کامیابی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اور اگر کبھی حسن اتفاق سے پہلے ہی قدم پر کامیابی مل بھی جائے تو اُسے برقرار رکھنے پر بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ اس محنت میں ایک بڑا نمایاں کردار تعلقات کا ہوتا ہے۔ تعلقات ہی کی بدولت کامیابی کو حقیقی معنوں میں مستحکم رکھنا ممکن ہو پاتا ہے۔
تعلقات سماجی ہوں یا معاشی‘ دونوں ہی کے معاملے میں انسان کو انہماک کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ تعلقات کو بہتر اور بار آور بنانے کے لیے ان میں منہمک ہونا پڑتا ہے۔ انسان چاہے کسی بھی سطح پر جی رہا ہو‘ تعلقات کے بغیر ڈھنگ سے جی نہیں سکتا۔ تعلقات ہی طے کرتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی معاشی اور معاشرتی زندگی کا ڈھانچا کیا ہونا چاہیے۔ تعلقات ہی کی بنیاد پر انسان اپنے لیے کسی راہ کا تعین کر پاتا ہے۔ کسی بھی انسان کی حقیقی کامیابی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے وجود میں کس حد تک وسعت پیدا کر سکتا ہے۔ وجود میں وسعت پیدا کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک بنیادی طریقہ ہے علم کا حصول۔ جب انسان علم کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تب اُس کی شخصیت میں وسعت آنے لگتی ہے۔ اسی طور تربیت بھی انسان کی شخصیت کی توسیع میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے بعد آتا ہے تعلقات کا مرحلہ۔ تعلقات کا مطلب ہے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ امکانات یقینی بنانے کی کوشش۔ انسان رشتوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ وہ بنے بنائے ملتے ہیں۔ اُنہیں صرف توانا رکھنے پر توجہ دینا پڑتی ہے جبکہ تعلقات بنانا پڑتے ہیں۔ یہ مرحلہ انسان سے غیرمعمولی دانش کا تقاضا کرتا ہے۔ تعلقات کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ کامیابی کب اور کتنی ملے گی یا مل بھی سکے گی یا نہیں۔ تعلقات کے دائرے میں گھومتے رہنا انسان کا بنیادی معاملہ ہے۔ بہتر اور بار آور تعلقات انسان کو بلندی عطا کرتے ہیں جبکہ کمزور اور لاحاصل نوعیت کے تعلقات سے انسان کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور توانائی بھی۔ ایسے میں بہت کچھ خواہ مخواہ داؤ پر لگ جاتا ہے۔
تعلقات ہمیں کیا دیتے ہیں؟ بہت کچھ۔ تعلقات ہی ہمیں ہم مزاج لوگوں سے ملواتے ہیں اور تعلقات ہی ہمیں اُن سے دور بھی کر دیتے ہیں۔ تعلقات میں پایا جانے والا حسن زندگی کا روپ نکھارتا ہے اور تعلقات میں پائی جانے والی کجی زندگی کے پورے ڈھانچے کو ٹیڑھا کردیتی ہے۔ تعلقات معاشرتی ہوں یا معاشی‘ اگر بے ذہنی کے ساتھ استوار کیے جائیں تو انسان کا ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ہر انسان کے لیے وقت ہی سب کچھ ہے۔ ہر معاملہ ہم سے ہمارا وقت مانگتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کو بھی وقت دینا پڑتا ہے۔ وقت کے معاملے میں برتی جانے والی بے ذہنی یا لاپروائی انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے۔ تعلقات کو ڈھنگ سے نہ برتا جائے‘ عمدگی سے بروئے کار نہ لایا جائے اور پروان چڑھانے پر توجہ نہ دی جائے تو انسان بیشتر معاملات میں الجھا ہوا رہتا ہے۔ یہ کیفیت اُس کی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور استعداد پر بھی۔ ایسے میں لگن بھی ماند پڑتی جاتی ہے اور ولولے کا بھی وہ عالم نہیں رہتا جو درکار ہوا کرتا ہے۔
عملی زندگی میں تعلقات ہی سب کچھ طے کرتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اپنے شعبے میں رونما ہونے والی پیش رفت سے غافل رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی کو آگے بڑھنا ہے تو شعبے میں رونما ہونے والی ہر بڑی تبدیلی کو دیکھنا اور سمجھنا ہوگا۔ پیشہ ورانہ معاملات اُسی وقت سمجھ میں آتے ہیں جب انسان متعلقہ پیش رفت پر نظر رکھتا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنے شعبے میں کچھ کرنے کے قابل اُسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے رابطوں کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لاتا اور تعلقات میں تبدیل کرتا ہے۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ ہر تعلق کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتا ہے۔ یا تو دل کے دروازے کھل جاتے ہیں یا پھر آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ ہم زندگی بھر تعلقات کے اُلٹ پھیر سے دوچار رہتے ہیں۔ بعض تعلقات بنانا پڑتے ہیں‘ بعض خود ہی بن جاتے ہیں۔ انسان جس ماحول میں کام کرتا ہے اُس میں موجود لوگوں سے تعلقات بنانے پر توجہ نہیں دینا پڑتی۔ روزانہ آٹھ دس گھنٹے ساتھ رہنے والوں میں تعلق خود بخود بن جاتا ہے۔ اس تعلق کو پروان چڑھانا دانش مندی کی علامت ہے۔ کام کے ساتھیوں سے بہتر تعلقات انسان کو بہتر معاشی امکانات کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے زندگی کا معاشی پہلو سب سے اہم ہے۔ معاشرتی معاملات بھی ناگزیر ہیں اور اُن کے دم سے ہماری زندگی میں بہت کچھ اچھا ہوتا ہے تاہم معاشی امکانات کے محدود ہو جانے سے خرابیاں زیادہ تیزی سے پنپتی ہیں۔ زندگی کا حسن نکھارنے اور بہتر امکانات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان تعلقات کا معیار بلند کرنے پر متوجہ رہے اور اُنہیں زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کی کوشش کرتا رہے۔ بارآور بنانے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تعلقات سے ہمیں مالی یا مادّی فائدہ پہنچتا رہے بلکہ اُن کے ذریعے ہماری زندگی میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ہر طرح کے تعلقات اصلاً اس لیے ہوتے ہیں کہ اُن سے زندگی کا معیار بلند کیا جائے۔ عمومی دوستی سے خالص پیشہ ورانہ تعلق تک ہر ربط اصلاً اسی لیے تو ہوتا ہے کہ زندگی کے چہرے پر زیادہ نکھار آئے‘ دل و دماغ کو زیادہ سکون میسر ہو۔تعلقات سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بھی تعلق ہمیں کچھ نہ سکھائے۔ ہم نہ سیکھنا چاہیں تو اور بات ہے۔ اور عمومی سطح پر یہی تو ہوتا ہے۔ ہم اپنے بہت سے تعلقات کو سرسری طور پر لیتے ہیں۔ بے ذہنی و لاپروائی کے ہاتھوں ہم اپنے تعلقات کو عمومی سطح پر زیادہ اہمیت نہیں دیتے یا درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلقات کا بننا اور بگڑنا ہمیں بہت کچھ سکھاتا ہے۔ جب ہم سیکھنے پر مائل ہوتے ہیں تب نئے تعلقات کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ تعلقات کی بدلتی ہوئی نوعیت کو سمجھنا لازم ہے کیونکہ اس معاملے میں لاپروائی ہمیں نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
ہم آفس میں ہوں یا گھر میں‘ کسی دکان میں کام کرتے ہوں یا حلقۂ یاراں میں ہوں‘ علاقے کے معاملات میں دلچسپی لے رہے ہوں یا اپنے شعبے سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لینے نکلے ہوں‘ ہر جگہ صرف اور صرف اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ ہمارے تعلقات کس قدر ہیں اور اُن کی نوعیت کیا ہے یا یہ کہ وہ کس منزل میں ہیں۔ عملی زندگی میں وہی آگے بڑھتا ہے جو زیادہ بارآور تعلقات کا حامل ہو اور اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ہنر بھی سیکھتا آیا ہو۔ خالص غیرمعاشی معاملات میں بھی تعلقات کی نوعیت ہی طے کرتی ہے کہ ہماری زندگی زیادہ باثمر ہوگی‘ ہو پائے گی یا نہیں۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے وقت کی حفاظت کرے۔ وقت ہی سب سے بڑی دولت ہے‘ اہم ترین اثاثہ ہے۔ دولت چلی جائے تو واپس آسکتی ہے‘ گیا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ وقت ضائع کرنے والے تعلقات سے بچنا ہے اور وقت کو ڈھنگ سے کام میں لانے میں مدد دینے والے تعلقات کو پروان چڑھانا ہے۔ تعلقات دروازے بھی کھولتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے سے پردے ہٹاتے بھی ہیں۔ ذرا سوچئے آپ اپنے تعلقات سے کیا چاہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved