اگر وہ جانتے ہیں کہ سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا تو یہ جنگ وہ جیت لیں گے وگرنہ دوسرے آئیں گے ۔ ایک نہیں تو دوسرا، خدا کی زمین پر ناگزیر کوئی نہیں ۔ کوئی بھی نہیں ! سندھ رینجرز کے سربراہ جنرل رضوان نے عدالت کو وہ بات بارِ دگر بتا دی ہے کہ اگر سمجھ لی جائے تو کراچی کا امن لوٹ سکتا اور برقرار رہ سکتاہے۔ یہ کچھ سیاسی جماعتیں ہیں ، جو دہشت گرد پالتی ہیں اور جب ان کے خلاف کارروائی کی جائے تو واویلا کرتی ہیں ۔ اگر حکمران نون لیگ ، تحریکِ انصاف اور زخم خوردہ جماعتِ اسلامی کا کوئی مسلّح ونگ نہیں تو اے این پی ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کیوں ہیں ؟ پیپلزپارٹی کو صوبے کا اقتدار حاصل ہے ۔ پولیس اس کی ہے اور قانون اس کے ہاتھ میں ہے ۔ جب ان کے بل پر وہ مجرموں سے نمٹ سکتی ہے تو پیپلز امن کمیٹی پالنے کا جواز کیا ہے ؟ اس کا جواز کیا ہے کہ کہنہ بلدیاتی نظام مسلّط کر کے کراچی کے شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے ۔ ایم کیو ایم کا خوف؟ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کا ؟ ایک متحدہ محاذ کا؟ نیتوں کا حال اللہ جانتاہے ۔ خدا لگتی یہ ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے مسئلے کا جو حل پیش کیا ہے ، موجودہ حالات میں وہی بہترین ہے۔ اقدام ہو اور نتائج سامنے آئیں تو حتمی رائے دینا ممکن ہوگا۔ بدھ کو ان کی پریس کانفرنس سے امید کی کرن بہرحال پھوٹی ہے ۔ دوسرے سنگین مسائل اپنی جگہ لیکن ملک کی اقتصادی شہ رگ میںفساد بہرحال گوارا نہیں کیا جا سکتا ۔ جیسا کہ تاجروں کے نمائندے ہارون اگر نے کہا : ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کیا جا سکتا، اگر کراچی میں خون بہتا رہے۔ واضح طور پر قائم علی شاہ کی حکومت دبائو میں ہے اور اسی لیے گذشتہ روز اس نے کارروائی کا آغاز کیا۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کے بعض عہدیدار پکڑے گئے ۔ اندازوں کے عین مطابق انہوںنے شور مچایا۔ یہ سوال اپنی جگہ کہ آغاز انہوںنے پیپلز پارٹی سے کیوں نہ کیا تاہم گرفتار کیے جانے والے اگر واقعی مجرم ہیں تو احتجاج کی پروا نہ کرنی چاہیے۔ مہابھارت کے ہنگام‘ سپہ سالار ارجن نے مہاراج کرشن سے کہا : وہ میرے عزیز و اقارب ہیں ۔میں ان کا خون کیسے بہا سکتاہوں ؟ کرشن کا جواب یہ تھا: کیا تم حق پہ ہو ؟ اگر ہو تو جان لو کہ سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا۔ وزیرِ داخلہ ٹھیک کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے کی بے سود کارروائی کی بجائے ، طے شدہ محدود آپریشن کیے جائیں کہ مجرموں کے نام، پتے اور کوائف معلوم ہیں ۔ پیشکش ان کی یہ ہے کہ اگر وزیراعلیٰ کمان سنبھالیں تو رینجرز ہی نہیں، دوسرے وفاقی ادارے بھی ان کی مدد کریں گے ۔ ان میں سب سے اہم انٹیلی جنس بیورو ہے ، جس کی قیادت ایک معقول افسر کے ہاتھ میں ہے ۔ 1995ء کے اقدام میں حصہ لینے والے بعض انصاف پسند اور قابلِ اعتماد افسر ابھی تک اس ادارے میں موجود ہیں ۔ ایک صاحبِ فکرشاہ دماغ اور ایک صاحبِ عمل شہباز۔ ان دونوں افسروں کو کراچی بھجوایا جا سکتاہے ۔ ضائع کرنے کے لیے ہرگز کوئی وقت موجود نہیں ؛با ایں ہمہ منصوبہ بندی کے بغیر میدان میں اترنا بھی حماقت ہوگی ۔ پہل ریاست کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ منصوبہ بندی موزوں ہوئی تو نتیجہ توقعات سے بھی بہتر ہو گا۔ اصول واضح ہے ۔ کوئی ایک گروہ یا جماعت ہرگز ہدف نہ ہونی چاہیے بلکہ سب جرائم پیشہ لوگ۔ خد ا کی پناہ، ملک کے سب سے بڑے شہر میں کم از کم 200ایسے دہشت گرد دندناتے پھرتے ہیں ، جنہوںنے بھارت میں تربیت پائی ہے ۔ خدا کی پناہ، پاکستان نیوی کی انٹیلی جنس ایجنسی کے افسر اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے۔ اگر وہ مجرم ہیں تو ان سے وہ سلوک کرنا چاہیے، جو غداروں سے کیا جاتاہے ۔ آئی ایس پی آر کو وضاحت کرنی چاہیے اور پاکستان نیوی کی قیادت کو بھی۔ ادھر جنرل رضوان نے کہا : رینجرز پر حملے ہوتے ہیں اورپولیس افسر قتل کر دیے جاتے ہیں ۔ کب تک ملک اس کا متحمل ہو سکتاہے، کب تک ؟ ہارون اگر نے سچ کہا کہ ایسے دیار سے سرمایہ فرار ہوتاہے اور ذہانت بھی ۔ پنجابی محاورے کے مطابق جناب آصف زرداری نے شلغم سے مٹی جھاڑنے کی کوشش کی ہے ۔ وزیراعلیٰ کو انہوںنے ہدایت کی ہے کہ مجرموں سے نرمی نہ برتی جائے ۔ سبحان اللہ ، سبحان اللہ! قائم علی شاہ اس زنجیرکی سب سے کمزور کڑی ہیں ۔ وزیراعظم اور چوہدری نثار کو زرداری صاحب سے بات کرنی چاہیے۔ صوبے کو ایک وزیرِ داخلہ کی ضرورت ہے ۔ کھیلنے والے نہیں ، قائم علی شاہ میچ فکس کرنے والے کپتان ہیں ۔ اس وزیرِ داخلہ کا انتخاب اگر مشاورت سے ممکن ہو سکے ۔ اگرشہر کے لوگ ،خاص طور پر کاروباری طبقہ اس پر اعتماد رکھتا ہو تو معاملے کی بنیاد مضبوط ہو جائے گی ۔ قائد اعظمؒ نے کہاتھا : آدھی جنگ اچھے لیڈر کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے ۔ رینجرز کے سربراہ نے عدالت میں کہا کہ رمضان المبارک میں سیاسی پارٹیاں فطرانہ اور زکوٰۃ جمع کرنے میں مصروف رہیں ۔ عید کا دن بیت گیا تو وہ قیامِ امن کے لیے بے تاب ہونے لگیں ۔ شعبدہ بازی ہے ، یہ شعبدہ بازی ۔ یہ انسانی احساسات کی تجارت ہے۔ فریب دہی کا وہی قرینہ ، جو ہمارے سیاستدانوں کی فطرتِ ثانیہ ہو چکا۔ یہ اطلاع درست نہیں کہ کراچی کے شہری سالانہ چار ارب روپے بھتہ ادا کرتے ہیں ۔ فی الحقیقت یہ رقم ساٹھ ارب روپے سے تجاوز کر چکی ۔شہر پر غنڈوں کی حکمرانی ہے ، حکومت کی نہیں ۔ ایک برس ہو تاہے ، کراچی کا ایک ممتاز شخص اس ناچیز سے ملنے آیاکہ وہ سیاست میں حصہ لینے کا آرزومند ہے ۔ جیسا کہ 11مئی کو آشکار ہوا، لاکھوں دوسرے شہریوں کی طرح تحریکِ انصاف سے انہیں حسنِ ظن تھا ۔ سوال کیا کہ وہ کتنی پارٹیوں کو بھتہ دیتے ہیں ۔ ’’چار عدد‘‘ انہوںنے بتایا۔ میں نے بھتے کی رقم تو نہ پوچھی لیکن یہ عرض کیا کہ اگر انہوںنے اپنے کاروباری دفاتر پر تحریکِ انصاف کا علم لہرایا تو اس رقم میں انہیں اضافہ کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ فی الحال وہ کوئی اعلان نہ کریں اور خاموشی سے اپنی پسندیدہ پارٹی کی مددکریں۔ کراچی اب رہائی چاہتاہے ۔ کوئی راہ دکھائے، کوئی بھی! نو منتخب صدر جناب ممنون حسین نے کراچی کے تاجروں سے جب یہ کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے وہ صوبائی حکومت پر دبائوڈالتے رہیں توخوشگوار حیرت ہوئی ۔رفیق تارڑ سے وہ مختلف لگتے ہیں۔ نون لیگ سوئی رہی اور اب جاگی ہے۔ شہر میں دہشت گردی کا سامنا جماعتِ اسلامی نے کیا یا کسی قدر تحریکِ انصاف نے۔ جماعتِ اسلامی کو سوچنا چاہیے کہ اس کی بے پناہ قربانیوں اور نعمت اللہ خاں کے بیش بہا کردار کے باوجود، جس نے کراچی کو ایک جدید شہر بنانے کی راہ ہموار کی ، وہ قبولیتِ عامہ کیوں حاصل نہ کر سکی ۔ تحریکِ انصاف سے کراچی کی نئی اور پرانی نسلوں نے اسی لیے امید وابستہ کی کہ اس نے اسلحے کی سیاست کا حصہ بننے سے انکار کیا۔ 11مئی کو نوجوان ، عورتیں اور بوڑھے چار چار ، چھ چھ گھنٹے تک قطاروں میں کھڑے رہے کہ حقِ رائے دہی استعمال کریں۔ تنظیم کا حال مگر یہ تھا کہ صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ساٹھ ہزار روپے کے عوض ایم کیو ایم کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادہ تھا۔ا س کے باوجود ڈاکٹر عارف علوی جیت گئے اور لامحدود امکانات کا در کھلا۔ اللہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتاہے مگرافسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔ اگر وہ جانتے ہیں کہ سچائی کا کوئی رشتے دار نہیں ہوتا تو یہ جنگ وہ جیت لیں گے وگرنہ دوسرے آئیں گے ۔ ایک نہیں تو دوسرا، خدا کی زمین پر ناگزیر کوئی نہیں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved