یہ جہلم کے اِندر کمار کی کہانی ہے جسے دنیا آئی کے گجرال کے نام سے جانتی ہے۔ جو جہلم شہر کے شمالی محلے میں پیدا ہوا‘ یہاں کی فضاؤں میں پلا بڑھا اور ایک دن بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کی بلند مسندپر جا بیٹھا۔ پوٹھوہار کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر بکھری کہانیوں کی تلاش مجھے پچھلے ہفتے جہلم شہرکے شمالی محلے لے گئی جہاں اس کہانی نے میرا دامن پکڑ لیا۔ جہاں اب بھی دریائے جہلم کے کنارے اندر کمار کا گھر موجود ہے جہاں وہ اپنے والد اوتار نارائن اور والدہ پشپا کے ہمراہ رہا کرتا تھا۔ اس کے بھائیوں میں ستیش اور راج شامل تھے‘ اس کی بہنیں اوما اور نیتی اس کے پیار کا مرکز تھیں۔ یہ 1919ء کا سال تھا اور دسمبر کا مہینہ جب اوتار نارائن اور پشپا کے گھر اندر کمار پیدا ہوا۔ 1919ء کا سال فرنگیوں کے خلاف مزاحمت کی تحریک میں ایک اہم سنگِ میل ہے جب امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے حکم پر سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس واقعے نے آزادی کی تحریک کو تیز تر کر دیا تھا۔ اندر کمار کے والد اور والدہ بھی فرنگیوں کے خلاف تحریکِ آزادی میں شریک ہو گئے تھے۔ اب تو اس گھر کے اردگرد اور عمارتیں بن گئی ہیں لیکن تب گھر اور دریائے جہلم کے نظارے میں کوئی چیز حائل نہ تھی۔
یہ اس زمانے کا ایک خوشحال گھرانہ تھا۔ مالی وسائل کی کوئی کمی نہ تھی۔ کہتے ہیں اوتار نارائن کو اپنے والد دونی چند کی خاص دعا تھی جس نے اس کے لیے کامیابی کے دروازے کھول دیے تھے۔ اندر کمار نے اپنے خاندان میں یہ کہانی اتنی بار سنی تھی کہ اب یہ اسے ازبر ہو گئی تھی۔ کہانی تھی بھی دلچسپ۔آپ بھی سنیں۔ یہ 1905ء کی بات ہے جب پنجاب میں پلیگ کی بیماری آئی تھی‘یہ ایک خوفناک بیماری تھی جسے مقامی زبان میں طاعون کہتے تھے جس میں مبتلا انسان دنوں میں جان کی بازی ہار جاتا تھا۔ اوتار نارائن ان دنوں جموں میں زیرِ تعلیم تھا جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے والد دونی چند طاعون کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ سولہ سالہ اوتار نارائن پریشان ہو گیا‘ اسے اپنے والد سے بہت پیار تھا‘اوتار نارائن ٹرین پر سوار ہوا اور سیدھا سوہاوہ کے ریلوے سٹیشن پر اترا۔ اس وقت تک جہلم کا گھر تعمیر نہیں ہوا تھا اور دونی چند کا خاندان جہلم سے تقریباً 25 میل کے فاصلے پر واقع پڑی درویزہ گاؤں میں رہتاتھا۔ سوہاوہ سٹیشن پر اتر کر اوتار نارائن نے دیکھا کہ کوئی تانگے والاپڑی درویزہ جانے کو تیار نہیں کیونکہ سارا گاؤں طاعون کی زد میں تھا۔ اوتار نارائن پیدل ہی گھر روانہ ہو گیا۔ جب وہ اپنے گھر پہنچا تو لالٹین کی مدھم روشنی میں اس نے دیکھا اس کا باپ دونی چند ایک چارپائی پر لیٹا آخری سانسیں لے رہا ہے۔ باپ نے بیٹے کو دیکھا تو نحیف آواز میں کہا‘تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا‘ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑھے۔ اوتار نارائن چارپائی پر بیٹھ گیا اور والد کا سر اپنی گود میں رکھ لیا‘ اسے وہ دن یاد آگئے جب اس کا باپ اسے کندھوں پر بیٹھا کر گاؤں کی ہٹی پر لے جاتا تھا اور اس کی فرمائشیں پوری کرتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی تعلیم اور تربیت پر خوب محنت کی تھی۔ اوتار نارائن کا روشن مستقبل دونی چند کا خواب تھا جس کی تعبیراس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی۔ آج وہی دونی چند چارپائی پر آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اوتار نارائن نے والد کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اس کی پیشانی پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگا‘بالکل اسی طرح جب وہ چھوٹا سا تھا اور اس کا باپ اسے تھپک تھپک کر سلاتا تھا۔ رات کسی نہ کسی طرح گزر گئی صبح کا آغاز ہو رہا تھا کہ دونی چند کی زندگی کا چراغ بجھ گیا۔ کہتے ہیں اس رات کی دعائیں اوتار نارائن کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ بن گئیں۔ اس نے قانون کی تعلیم حاصل کر کے اپنے والد کے خواب کو سچ کر دکھایا۔ اب زندگی میں خوشحالی آگئی تھی اور وہ پڑی درویزہ سے جہلم شہر میں آگئے تھے اور دریا کے کنارے یہ دو منزلہ گھر بنایا تھا جس کے جھروکوں سے دریائے جہلم کے پانیوں کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ یہیں اندر کمار کی پیدائش ہوئی تھی۔ وہ ذرا بڑا ہوا تو اسے جی ٹی روڈ پر واقع گورنمنٹ سکول میں داخل کرا دیا گیا۔ سکول گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ جہاں تک جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اوتار نارائن نے اپنے بیٹے کو سائیکل خرید کر دی۔ اس زمانے میں سائیکل بھی خوشحالی کی علامت تھی۔ دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے‘ دریائے جہلم ان کی زندگیوں کا حصہ تھا‘ وہ اور اس کے دوست اکثر دریا پر چلے جاتے اور آتی جاتی لہروں کے ساتھ کھیلتے رہتے۔ کھیل کھیل میں کچھ بچے آگے گہرے پانیوں تک چلے جاتے۔ ایک بار اندر کمار کا چھوٹا بھائی راج بھی دریائے جہلم کی لہروں سے کھیلتا آگے چلا گیا اور پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ اندر کمار اس حادثے کو زندگی بھر نہ بھلا سکا۔ اندر کمار کے دوسرے بھائی ستیش کو پینٹنگ سے دلچسپی تھی‘ وہ آگے چل کر عالمی شہرت یافتہ آرٹسٹ بنا۔
گھر‘ محلے‘ کالج اور پنجاب کے عمومی ماحول نے اندر کمار میں بغاوت کے شعلے کی لو اور تیز کر دی تھی۔ اندر کمار ابھی کم سن ہی تھا کہ جہلم میں اپنے گھر کے قریب چھوٹے بچوں کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسے پولیس نے پکڑ لیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اندر کمار کی ماں گھر کی کھڑکی سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اندر کمار کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہی تھا لیکن اسے ڈر تھا کہ گھر میں آکر ماں کو پتا چل گیا تو وہ اس کی مزید پٹائی کرے گی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ماں یہ سارا منظر دیکھ رہی ہے اور اس کے گھر آنے کی منتظر ہے۔ وہ ڈرے ڈرے قدموں سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔مرکزی دروازہ کھولا اور چپکے سے اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے ہی لگا تھا کہ اچانک اسے ماں کی آواز سنائی دی ''اِندر‘ ادھر آو‘‘ا ور اندر کمار کی سانس جیسے رک گئی‘ اس نے نگاہیں اٹھا کر ماں کو دیکھو تو حیران رہ گیا کہ اس کی ماں کے چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں مسرت کے چراغ جل رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر آزادی کے اس ننھے مسافر کو اپنی بانہوں میں بھر کر اس کا ماتھا چوم لیا۔
جہلم میں سکول کی تعلیم کے بعد اندر کمار کو لاہور بھیج دیا گیا جہاںوہ پہلے ہیلی کالج آف کامرس میں د اخل ہوا اور پھر فارمن کرسچین کالج سے ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کالج میں کمیونسٹ پارٹی کی سٹوڈنٹ یونین میں اسے ایک مہربان خاتون سلطانہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ سلطانہ کو وہ تب سے جانتا تھا جب وہ نوجوان تھی اور اپنے والد کے ہمراہ جہلم میں رہتی تھی جہاں اس کے والد محکمہ آبپاشی میں ملازم تھے۔بعد میں سلطانہ کی شادی معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری سے ہوئی۔ اندر کمار کی خوش قسمتی تھی کہ علی سردار جعفری نے اسے اپنے حلقۂ احباب میں شامل کر لیا جس کی بدولت اس کا تعارف اس وقت کے معروف لکھنے والوں سے ہوا جن میں معروف انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی‘ ممتاز ناول نگار اور کہانی نویس کرشن چندر‘ ترقی پسند لکھاری بھیشم ساہنی اور اردو کے سربلند افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی شامل تھے۔کالج میں اس کے انگریزی کے استاد نے اس میں اردو شاعری سے محبت کی شمع جلائی جس کی گداز روشنی تمام عمر اس کے ہمراہ رہی۔ اس استاد کا ذکر اندر کمار نے اپنی سوانح عمری میں بہت محبت اور عقیدت سے کیا ہے۔ اس استاد کی شخصیت تھی ہی ایسی من موہنی اور دل فریب۔ اِندر کمار کے اس پسندید استاد کا نام فیض احمد فیضؔ تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved