میاں نواز شریف نے لندن پریس کانفرنس میں عمران خان کے ''Absolutely not‘‘ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو سینہ تان کر اصل انکار انہوں نے اس وقت کیا تھا جب مئی 1998ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں پانچ فون کرتے ہوئے لالچ دیا کہ نواز شریف صاحب! اگر آپ ایٹمی دھماکے نہ کریں تو ہم آپ کو پانچ ارب ڈالر دیں گے۔ جو بات میاں نواز شریف نے عمران خان پر الزامات عائد کرتے ہوئے لندن کی پریس کانفرنس میں کی‘ وہی بات میاں صاحب نے 28 مئی 2018ء کو لاہور میں یومِ تکبیر کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھی کی تھی، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ بے ایمان اور کرپٹ ہوتے تو امریکی صدر کلنٹن نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں پانچ ارب ڈالر کی جو پیشکش کی تھی‘ اسے قبول کر کے ایک ارب ڈالر آرام سے اپنے پاس رکھ لیتے۔
حقیقت کیا ہے‘ کس نے پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی اور میاں نواز شریف نے لندن میں جو کچھ کہا‘ اس کی حقیقت کیا ہے‘ یہ سب کچھ جاننے کیلئے چلتے ہیں 22 مئی 1998ء کی طرف جب میاں صاحب کی امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر بات چیت ہوئی تھی۔ وہ گفتگو کیا تھی‘ اس کا ایک ایک لفظ قوم کی امانت ہے اس لیے آج جب پاکستانی قوم نے جھوٹ اور سچ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے کل کا فیصلہ کرنا ہے‘ تو اس قوم کا حق بنتا ہے کہ وہ سچ سنے اور سچ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ بل کلنٹن نے انہیں خود فون کر کے پانچ بلین ڈالر کی آفر کی تھی۔ یہ بات وہ متعدد دیگر مواقع پر بھی کر چکے ہیں، اس لیے سب سے پہلے تو قوم کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ یہ فون بل کلنٹن نے نہیں بلکہ خود میاں نواز شریف نے کیے تھے۔ دن تھا جمعہ کا، تاریخ تھی 22 مئی 1998ء اور وقت تھا رات دس بجے کا۔ میاں صاحب اور امریکی صدر کلنٹن کے مابین ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کا ایک ایک لفظ اس قوم کے سامنے رکھ رہا ہوں اور اگر کوئی اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہے تو اسے سہیل وڑائچ کی کتاب ''غدار کون؟‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے جس میں یہ ساری گفتگو حرف بحرف درج کی گئی ہے۔
22 مئی 98ء کی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن کو فون پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے کہا ''جنابِ صدر! نیک خواہشات اور آداب‘‘۔ اس پر امریکی صدر بولے: جناب پرائم منسٹر شکریہ! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟ سوموار کو آپ سے ہونے والی گفتگو کے بعد بہت مصروف رہا! میاں نواز شریف: جنابِ صدر! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے دیے گئے ایجنڈے پر ہوبہو عمل کیا جائے تو اس کیلئے میرا پاکستان میں وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہاں پاکستان میں اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو میرے لیے بہت سی مشکلات پیدا کرنے کے علاوہ میرے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میں اس دبائو کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتا ہوں۔ (Absolutely not کا سہرا اپنے سر باندھنے والے میاں نواز شریف صاحب بتائیں کہ وہ امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر کیوں کہہ رہے تھے کہ امریکہ بہادر اگر اپنا ایجنڈا پورا کرنا چاہتا ہے تو اس کیلئے مجھے پاکستان کا و زیراعظم رہنے دیں اور بے نظیر بھٹو کو مجھے پریشان کر نے سے روکیں؟)۔
میاں صاحب نے جب فون پر امریکی صدر کلنٹن سے خود کو وزیراعظم کے عہدے پر قائم رکھنے کی درخواست کی تو اس پر بل کلنٹن نے جواب دیا: کچھ چیزیں جن کے بارے ہم نے آج بات کی ہے آپ کے لیے اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ اس پر میاں صاحب نے بل کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جنابِ صدر! میں آپ سے پھر رابطہ کروں گا۔
اب بات کرتے ہیں اس مشہور دعوے کی‘ جس کا اب تک نجانے کتنی مرتبہ تذکرہ ہو چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ''ہم نے امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض پانچ ارب ڈالر کی آفر ٹھکرا دی‘‘۔ نہیں جناب! ایسا نہیں ہے! اگر مسلم لیگ نواز کے حامی اس دعوے کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے صدر کلنٹن اور وزیراعظم نواز شریف کی گفتگو کے اگلے حصے کو سنیں‘ جس میں امریکی صدر بل کلنٹن نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں پانچ ارب ڈالر پاکستان کو دینے کی بات کی تھی اور جس میں سے بقول میاں صاحب‘ وہ آسانی سے ایک ارب ڈالر کھسکا سکتے تھے (کھسکانے کے الفاظ پر غور کیجیے)۔ ان پانچ ارب ڈالر کی حقیقت کیا ہے؟ امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں نواز شریف سے کہا: اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی سب سے بڑی سکیورٹی کا انحصار پاکستان کی مضبوط معیشت پر ہو گا۔ میں نے اپنے محکمہ خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے‘ خاص طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے اگلے تین سالوں کے دوران تین سے پانچ بلین ڈالرز سرمائے کی اقتصادی معاونت آپ تک پہنچ سکتی ہے۔ (یہ گفتگو آن دی ریکارڈ اور عام دستیاب ہے۔ ''غدار کون؟‘‘ میں اس ٹیلی فونک گفتگو کا ایک ایک حرف درج ہے‘ جسے شک ہے‘ وہاں سے تصدیق کر سکتا ہے)۔ امریکی صدر کلنٹن نے اس کے بعد میاں نواز شریف سے کہا: اگر آپ کو اس کے علاوہ کوئی باہمی اقتصادی تعاون کی ضرورت ہو تو ہم ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسیوں اور اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن سے بھی بات کر سکتے ہیں۔ بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کے مابین ہونے والی اس گفتگو کو کچھ دیر کے لیے یہیں پر روک کر سوچیے کہ یہ پانچ بلین ڈالر دراصل ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی صورت میں دیے جانے تھے اور یہ رقم بھی فوری طور پر نہیں بلکہ اگلے تین برسوں کے دوران ملنے کی امید دلائی جا رہی تھی۔
اس کے بعد بل کلنٹن سے جب پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی معافی کی بات کی گئی تو صدر کلنٹن کا جواب تھا: میں آپ کو کچھ قرضے معاف کرنے کے امکانات پر غور کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ (پاکستان کے ایٹمی تجربات نہ کرنے کے عوض) ہمیں یہ کرنا چاہئے لیکن اس کیلئے امریکی قانون کے مطابق مجھے کانگرس سے اس کی منظوری لینا پڑے گی۔ پچھلے 72 گھنٹوں میں مجھے اتنا وقت نہیں مل سکا کہ میں اس معاملے میں کانگرس کا ردعمل دیکھ سکوں۔ اس لیے میں وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا۔ ہاں! جو میں آپ سے وعدہ کر سکتا ہوں وہ یہ کہ میں اس کی سفارش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اس کو کانگرس سے منظور کرا سکوں لیکن میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں اس حوالے سے میں آپ کو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
اس کے بعد پریسلر ترمیم کی بات ہوئی‘ جس کے تحت امریکہ نے سوویت افغان جنگ کے بعد پاکستان کی امداد روک کر اس پر پابندیاں لگا دی تھی۔ اس حوالے سے صدر کلنٹن نے کہا: اگر پریسلر ترمیم کی منسوخی کی بات کریں تو ہماری یہ درخواست سینیٹ سے گزر کر منسوخ ہو جائے گی‘ تو اس کیلئے ہمیں کانگریس میں بھی کامیابی ملنی چاہئے مگر میں آپ کو اس کی بھی ابھی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کیونکہ کل ہی میں اور سینیٹر ٹرینٹ لاٹ کسی نکتے پر ہم خیال تھے مگر بدقسمتی سے ہمیں سینیٹ میں اس بار کامیابی نہیں مل سکی۔
بس کر دیں حضور بہت ہو چکا! یہ ہے وہ ساری گفتگو‘ جس کی بنیاد پر یہ ایسے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جیسے صدر کلنٹن ذاتی اکائونٹ میں پیسے ٹرانسفر کرنے کی بات کر رہے تھے۔ پاکستان کو قرض ملنا تھا‘ کچھ آسان ٹرمز پر مل جاتا مگر کس شرط پر؟ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی شرط پر۔ ''غدار کون؟‘‘ پڑھ کر فیصلہ کر لیں کہ پانچ ارب ڈالر کی حقیقت کیا تھی۔ جس بات کا آپ کو جواب دینا چاہیے وہ یہ کہ پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے پر امریکی ڈالر 60 روپے کا تھا مگر جب آپ کی حکومت ختم ہوئی تو یہ ڈالر بڑھ کر ایک سو پچیس روپے تک کیسے پہنچ گیا تھا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved