پانچ سال قبل صدر زرداری ایوان صدر پہنچے تو انہوں نے صحافیوں کو کھانے پر بلایا اور ایک طویل تقریر کی۔ ہم سب سنتے رہے اور وہ بلاتکان بولتے رہے۔ لگتا تھا وہ سب جانتے ہیں۔ ہم حیران ہوئے کہ اگر وہ سب جانتے ہیں تو ہمیں سنانے کے لیے کیوں چنا۔ 2008ء میں ملک میں جاری خانہ جنگی عروج پر تھی اور لگتا تھا کہ وہ چند ماہ میں سب کچھ درست کر لیں گے۔ اب وہ پانچ برس بعد ملک کو پہلے سے زیادہ بری حالت میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ خیر پانچ برس تک ایوان صدر کے مکینوں نے کچھ صحافیوں کو بین رکھا کیونکہ ان کا لکھا بولا پسند نہیں تھا۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا ۔ ہمارے گرو عامر متین، ارشد شریف اور دیگر بھی اس فہرست میں ٹاپ پر تھے۔ اب پانچ برس بعد دعوت نامہ ملا تو حیرانی ہوئی کہ کہیں غلطی تو نہیں ہوگی کہ ہمیں یاد کر لیا گیا ۔ ہر صدر اور وزیراعظم کے اپنے اپنے صحافیوں کے ساتھ پروفیشنل تعلقات ہوتے ہیں جن سے وہ بات کرتے رہتے ہیں اس لیے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوسکتی اور نہ ہونی چاہے۔ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک صدر یا وزیراعظم بھلا شہر کے ایک ہزار رپورٹروں سے کیسے رابطہ رکھ سکتا ہے۔ خیر رپورٹر کو سب سے ملنا ہوتا ہے۔ا گر وہ کسی سے نہیں ملتا تو پھر وہ وہ بیکار رپورٹرہے۔ اسے چھولے بیچنے چاہئیں۔ ایوان صدر میں صحافیوں کا رش تھا۔ لگتا تھا کہ اسلام آباد کے سب رپورٹرز کو بلا لیا گیا ہے جو کہ اچھی بات تھی کہ سب کو ایکسپوژر ملنا چاہیے۔ سب رپورٹرز حیران رہ گئے کہ کھانے کی میز پر جو مینو کارڈ رکھا گیا تھا اس میں کل چودہ آئٹمز تھے۔ ایک بندہ کتنا کھا سکتا ہے ؟ کتنا بھی کھا لے، وہ چودہ کھانے تو نہیں کھا سکتا۔ جو ملک ستر ارب ڈالر کا مقروض ہو اور پرانے قرضے اتارنے کے لیے بارہ ارب ڈالر کے مزید قرضے لینے جا رہا ہو کیا وہاں سرکاری ضیافت میں چودہ ڈشز ہونی چاہئیں؟ ابھی میٹھے میں فالودہ کھانا باقی تھا کہ صدر صاحب نے اپنی تقریر شروع کردی اور فالودہ سرو نہ کیا گیا۔ یقینا وہ فالودہ ضائع گیا ہوگا۔ رحمن ملک بھی اپنی مشہور زمانہ ٹائی کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ سلام دعا ہوئی۔ ان کی اچھی بات ہے 2007ء سے لندن کے دنوں سے جاری اس دعا سلام کو یاد کرتے ہیں اور سخت کڑوی بات بھی چپ کر کے سن لیتے ہیں جس کا اکثر میں جائز ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہوں۔ ایک دوست رپورٹر نے ہمارے ٹی وی پروگرام ’’ خبر یہ ہے‘‘ کا حوالہ دیا جس میں‘ میں نے یہ بریک کیا تھا کہ پچھلے پانچ سالوں میں رحمن ملک نے ایک لاکھ بیس ہزار اسلحہ لائسنس ایم این ایز کے خطوط پر جاری کیے اور گیلانی نے ستر ہزار کے قریب۔ جن میں خوفناک اسلحہ بھی شامل تھا۔ رحمن ملک کہنے لگے کہ جی بالکل لائسنس جاری کیے ہیں۔ میں نے کہا ملک صاحب اس معاشرے میں سنتے تھے کہ پہلے گھریلو جھگڑے اور محلے کی لڑائیوں میں تھپڑ، ہاتھ، مکے اور ڈنڈوں سے کام چلایا جاتا تھا۔ کوئی بہت زیادہ جذباتی ہوگیا تو وہ گھر کے کچن سے سبزی کاٹنے والی چھری اٹھا لاتا تو پورے محلے میں شور مچ جاتا۔ کوئی بہت بڑا بدمعاش ہوا تو وہ خنجر نکال لیتا تھا جسے دیکھ کر سب بھاگ جاتے تھے۔ اب کیا ہوا ؟ آپ نے اب ہر گھر میں بندوق، پستول اور کلاشنکوف دے دی ہے۔ روزانہ اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ گھریلو جھگڑے پر بھائی نے بھائی کو گولی مار دی، خاوند نے بندوق سے بیوی ماردی۔ بچوں کے جھگڑے پر بڑوں کی لڑائی میں فائرنگ پانچ لوگ مارے گئے۔ میں نے کہا ملک صاحب آپ مانیں یا نہ مانیں جتنے بے گناہ لوگ محلے کی لڑائی میں اس اسلحہ سے مارے جارہے ہیں ان سب کا لہو آپ کے ہاتھ پر ہے۔ رحمن ملک نے سن کر کہا آپ کو نہیں لگتا کہ اسلحہ لائسنس سے کم از کم قاتل پکڑا جا سکتا ہے کہ کون سا اسلحہ استعمال ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ نے وہی بات کی ہے جو ہمیں ٹی وی چینل سناتے ہیں کہ پولیس نے خودکش حملہ آور کا سر ڈھونڈ لیا تھا۔ بات بڑھتے دیکھ کر ملک صاحب بولے کہ یہ ان کا صواب دیدی اختیار تھا کہ وہ جسے چاہیں لائسنس دیں۔ میں نے کہا یہ کیسا صواب دیدی اختیار ہے جو اس ملک اور معاشرے میں تشدد کو بڑھانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ آپ کا کام اس ملک سے تشدد کا خاتمہ تھا نہ کہ سرکاری سرپرستی میں مزید تشدد کو فروغ دینا تھا۔ دوسرے آپ نے ہر ایم این اے کے خط پر لائسنس جاری کیے۔ بولے یہ قانونی حق تھا۔ آپ ایم این ایز سے پوچھیں۔ میں نے کہا کہاں قانون میں لکھا ہے کہ ایم این ایز کے خط پر اسلحہ لائسنس دیا جائے گا ؟ بولے نہیں میرا اپنا حق ہے جس کو دوں ۔ میں نے کہا اب آپ نے سمجھداری کی بات کی ہے۔ واقعی آپ کا حق ہے اور دو لاکھ اسلحہ لائسنس آپ نے جاری کر دیے ہیں اور جس کا جی چاہے گن توپ، بم ، بندوق لے جائے اور جہاں جی چاہے استعمال کرے۔ کتنے لوگوں کو چیک کیا گیا کہ انہیں جو اسلحہ لائسنس دیا گیا تھا انہیں استعمال کی تربیت بھی تھی یا وہ اسلحہ لے کر بعد میں تربیت لے گا۔ ملک صاحب کی مہربانی کہ میری باتیں سن کر بھی انہوں نے برا نہیں منایا اور بولے آپ کی رائے ہے لیکن میں اتقاق نہیں کرتا۔ رحمن ملک کو جاتے دیکھ کر یاد آیا کہ ابھی انکشاف ہوا ہے ان سے پہلے جو دو وزیرداخلہ تھے ان کی سالانہ سکیورٹی پر ایک کروڑ بائیس لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ اب تک پچھلے پانچ برس میں آفتاب شیر پائو اور فیصل صالح حیات کی سکیورٹی پر چھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوچکے ہیں۔ تیرہ کانسٹیبل، دو ہیڈ کانسٹیبل اور ایک اے ایس آئی ان کی سکیورٹی پر مامور ہیں اور دیگر سب خرچہ اسلام آباد پولیس اٹھا رہی ہے۔ اب رحمن ملک کی باری ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان پر بھی61 لاکھ روپے سالانہ خرچ ہوں گے۔ اگر انہوں نے اپنے دور میں سکیورٹی کو کچھ سنجیدگی سے لیا ہوتا تو شاید کچھ حالات بہتر ہوتے۔ ان سب نے اپنے گرد سکیورٹی کے حصار کھڑے کر لیے اور عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو مارے جارہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں بتایا گیا کہ پچھلے پانچ برس میں 13 ہزار بے گناہ لوگ دہشت گردی میں مارے گئے ہیں جب کہ 28 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ ان سب کو ڈیرھ ارب روپے ادا کیے گئے ہیں۔ یہ ہے وہ سکیورٹی پالیسی جو اس ملک میں چل رہی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے بھی بیانات اب تک سن رہے ہیں اور گرائونڈ پر کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسلام آباد میں لاہور اور کراچی کی طرح اب سٹریٹ کرائم بڑھ رہا ہے۔ اسلام آباد میں بھی بھتے کی پرچیاں ملنا شروع ہوگئی ہیں، لوگوں کی گاڑیاں گن پوائنٹ پر چھیننے کا کاروبار چل پڑا ہے۔ اسلام آباد اور پنڈی میں تو اغواکاروں نے اب چند بنکوں میں کام کرنے والے عملے کی خدمات بھی لے لی ہیں جو انہیں امیر لوگوں کی بنک اسٹیٹمنٹ ، پتہ، فون نمبر فراہم کرتے ہیں اور جب ان سے کوئی سودے بازی کی کوشش کرتا ہے کہ پیسے کم کرائے جائیں تو انہیں بنک اسٹیٹمنٹ بھیج دی جاتی ہے۔ سو اب کچھ بنکوں کا کچھ عملہ بھی اس اغوا برائے تعاون میں شریک ہوگیا ہے۔ جس تیزی سے بھتہ خوری اور اغوا برائے تعاون پاکستان میں مقبول ہورہے ہیں اور اسے باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ ملتا جارہا ہے بہت جلد حکومت کو اس کاروبار پر بھی ٹیکس لگانا پڑے گا اور شاید پانچ لاکھ تاوان پر ٹیکس کی چھوٹ دے کر باقی تاوان پر پانچ فیصد ٹیکس لگایا جائے گا ۔ جس ملک کی اٹھارہ کروڑ آبادی میں صرف آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہوں، وہاں لوگوں سے اغواکاروں کے ذریعے ٹیکس لینے میں بھلا کیا حرج ہے۔ لوگ اب ایسے ریاست کو ٹیکس نہیں دیں گے تو پھر اس طرح ہی سہی !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved