تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-10-2022

صرف یادیں رہ گئی ہیں

بہت کچھ ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وقت نے ایسی کروٹ بدلی ہے کہ بہت کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی لاپتا سا لگتا ہے۔ ظاہر و باطن سبھی کچھ بدل چکا ہے۔ تیزی سے کروٹ بدلتا ہوا وقت ہمیں آزمانے پر تُلا ہوا ہے۔ آزمائش کئی حوالوں سے ہے۔ ایک طرف آنکھوں کی آزمائش ہے کہ بہت کچھ دیکھ رہی ہیں مگر دیکھ نہیں پارہی ہیں۔ دوسری طرف دل و دماغ کی آزمائش ہے کہ دونوں ہی پر بہت کچھ بیت رہا ہے اور سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا۔ کچھ سمجھ میں آئے بھی کیسے؟ معاملہ یہ ہے کہ دنیا پل پل بدل رہی ہے ؎
کچھ سکھ ہے، کبھی دکھ ہے، ابھی کیا تھا، ابھی کیا ہے
یونہی دنیا بدلتی ہے اِسی کا نام دنیا ہے
سوال صرف ہمارے معاشرے کا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ کہیں کہیں تو سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض شہروں کی ہیئت ایسی بدلی ہے ع
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
ڈھائی‘ تین ہزار برس میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے انسان نے جو محنتِ شاقہ کی تھی اُس کے نتائج کم و بیش ڈیڑھ صدی میں اِس طور ہویدا ہوئے کہ کچھ بھی پہلے سا نہیں رہا۔ مادّی دنیا بدلی تو روحانی اور اخلاقی سطح پر بھی بہت کچھ تبدیل ہوا۔ اب حالت یہ ہے کہ انسان محض الجھنوں کا مجموعہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر قدم پر ایک نئی الجھن خیر مقدم کے لیے کھڑی ہے۔ انسان کا ذہن عجیب خلفشار سے دوچار ہے۔ کبھی بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے مگر پھر اچانک کیفیت بدلتی ہے اور کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ زندہ رہنے کا ہنر وہی جانتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کے حوالے سے اپنے اندر مہارت اور لگن پیدا کرتے ہیں۔ وقت کا بنیادی تقاضا تبدیلی ہے۔ وقت کا کام ہے گزرتے جانا اور ہمارا کام ہے بدلتے جانا۔ ایک دنیا ہے کہ بدلتی جارہی ہے اور ایسے میں اگر کسی نے نہ بدلنے کا آپشن اپنایا تو اُسے احمق ہی گردانا جائے گا۔ زندگی کا سارا حسن وقت کے تقاضوں کو نبھانے میں مضمر ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ خود کو بدلے بغیر چارہ نہیں۔ یہ حقیقت جس قدر جلد سمجھ میں آجائے اُتنا ہی اچھا۔ ہم میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ تبدیلی کی ضرورت کو جبر سمجھتے ہیں۔ گزرتے ہوئے وقت کے ہاتھوں جو کچھ بدلتا جاتا ہے وہ ہم سے تبدیل ہونے کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اِسے جبر سمجھنے میں نقصان ہمارا ہے۔ وقت غیر جانبدار رہتا ہے۔ یہ کسی کے حق میں ہوتا ہے نہ خلاف۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اُسی کی بنیاد پر طے ہوتا ہے کہ وقت کے کس موڑ پر کیا ہمارے حق میں ہے اور کیا ہمارے خلاف۔ ماحول میں جو کچھ بدل رہا ہوتا ہے وہ ہمیں تبدیلی کی راہ دکھا رہا ہوتا ہے۔ جو لوگ ہوش سے کام لیں، معاملات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور بدلتے ہوئے وقت کے مطابق اپنا آپ بدلنے پر متوجہ ہوں وہ کامیاب رہتے ہیں۔ ہر شعبے کا یہی معاملہ ہے۔ معاشی اور غیر معاشی‘ ہر دو طرح کے معاملات میں تبدیلی سب سے بنیادی بات ہے۔ ہر معاملے میں بھرپور کامیابی کی طرف لے جانے والا راستہ یہی ہے۔ ہمیں مشکل دکھائی دینے والے ہر بند دروازے کے لیے یہی شاہ کلید ہے۔ وقت کے ساتھ اپنا آپ بدلنے کے لیے انسان میں صرف صلاحیت و سکت کا ہونا کافی نہیں۔ اِس سے کئی قدم آگے جاکر لگن اور ولولہ بھی پیدا کرنا پڑتا ہے۔ محض میلانِ طبع سے کچھ نہیں ہوتا، متعلقہ شعبے کے بارے میں بنیادی چیزوں کے ساتھ تازہ تحقیق کا بھی علم ہونا چاہیے۔ محض علمی سطح کے معاملات سے واقف ہونا بھی کافی نہیں، شعبے میں عملی سطح پر جتنی بھی پیشرفت ہو رہی ہے اُس کا جاننا بھی ناگزیر ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ ساکت اور جامد ہے۔ اعلیٰ سطح پر کچھ جاننے کی خواہش تو بہت دور کا معاملہ رہا، اب تو لوگ عمومی سطح پر بھی کچھ جاننے کے متمنی دکھائی نہیں دیتے۔ دو وقت کی روٹی کا حصول یقینی بنانے ہی کو زندگی سمجھ لیا گیا ہے۔ اِس سطح سے بلند ہونے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ اُسے معمولی سا بھی اندازہ نہیں کہ مطالعہ بھی کوئی وصف ہوتا ہے اور یہ کہ اِس وصف ہی کی بنیاد پر انسان بدلتا ہے۔ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے لازم ہے کہ انسان سوچے۔ سوچنے کے قابل انسان اُسی وقت ہو پاتا ہے جب وہ مطالعہ کرتا، مشاہدے سے کام لیتا ہے، بڑوں کی سنتا ہے، اہلِ دانش کی صحبت اختیار کرتا ہے، زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہوتا ہے۔ ایک دور تھا کہ ایک عام آدمی بھی پڑھنے میں دلچسپی لیتا تھا۔ ڈائجسٹوں نے عام آدمی میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لوگ ہر طرح کے ناول بھی شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ یہ درست ہے کہ تب میڈیا کی دنیا میں انقلاب برپا نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کے پاس وقت تھا اور وہ اپنے فراغت کے لمحات کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے کے لیے مطالعے کی طرف جاتے تھے۔ کامیاب افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کی جاتی تھی۔ تب بیشتر گھروں میں چھوٹی موٹی لائبریری ہوا کرتی تھی۔ لوگ تھوڑا بہت وقت نکال کر کچھ پڑھتے تھے جس کے نتیجے میں بچوں کو بھی تحریک ملتی تھی۔ جب مطالعے کا رجحان کمزور پڑا تو معاملات بگڑتے چلے گئے۔ جب مطالعے کا رواج ہی نہ رہا تو سوچنے کے حوالے سے بھی کمزوریاں بڑھیں۔ ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ لوگوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ آج ہمارا معاشرہ شدید بے ذہنی کی زد میں ہے۔ لوگ بیشتر معاملات میں ذہن کو بروئے کار لانے سے گریزاں رہتے ہیں۔
علم و فن کے اعتبار سے بلند درجے پر فائز ہونا سب کے بس کی بات نہیں۔ عام آدمی زندگی کی کشاکش میں ایسا گم رہتا ہے کہ اُس کے لیے مذاقِ لطیف پیدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی اس حوالے سے کوئی کوشش ہی نہ کرے۔ اگر علم و فن سے رشتہ بالکل ختم کرلیا جائے تو زندگی میں خلا پیدا ہوتا ہے۔ آج ہمارے ہاں اکثریت اِسی بحران کا شکار ہے۔ ایک دور تھا کہ کراچی اور پنجاب کے بعض شہروں میں جو لوگ پڑھ نہیں سکتے تھے وہ کسی نوجوان کو بلاکر اُس سے معروف کتابیں سُنا کرتے تھے۔ خاکسار نے کراچی میں خود دیکھا ہے کہ ناخواندہ بزرگ نسیم حجازی اور عبدالحلیم شررؔ کے ناول سُنا کرتے تھے۔ اس عمل سے اُن بزرگوں کی تسکین تو ہوتی ہی تھی، گھر کے بچوں میں بھی پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ آج ہمارے ہاں ہر شعبہ شدید جمود کا شکار ہے۔ اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہنا درست ہوگا کہ پورے معاشرے پر بانجھ پن کی سی کیفیت طاری ہے۔ کسی بھی شعبے میں کچھ بھی نیا نہیں ہو رہا۔ چند ایک شعبوں میں ہمیں جدت و ندرت کا بازار گرم دکھائی دیتا ہے تو یہ بھی محض لیپا پوتی کا معاملہ ہے۔ علم و فن سے محبت کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ مطالعے کا رواج انتہائی کمزور پڑ جانے سے سوچنے کا معاملہ بھی رُل گیا ہے۔ اب لوگ شدید 'بے فکری‘ کے سائے میں جینے کے عادی ہوچکے ہیں۔
اب صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ معیاری نغمے تیار نہیں ہو رہے۔ ایک دور تھا کہ شدید بے سر و سامانی کی حالت میں بھی موسیقی کے شعبے میں بہت معیاری کام ہوا تھا۔ لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ، خود کو منوانے کی تڑپ تھی۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بہت کچھ ملا۔ اچھی فلمیں بنائی گئیں۔ لکھنے والوں نے بھی کمال کیا۔ شاندار افسانے اور ناول لکھے گئے۔ ٹی وی ڈراموں کا معیار بھی بہت بلند تھا۔ مقابلہ ہی اِتنا تھا کہ سب کو اعلیٰ درجے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ اہلِ دانش کے قدر دان موجود تھے۔ ہر شعبہ غیر معمولی پیش رفت کا حامل رہا۔ کھیلوں کے میدان بھی اعلیٰ درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اب اُس زمانے کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ سوچنے پر متوجہ ہوا جائے تاکہ جمود ٹوٹے۔ زندگی صرف جیے جانے کا نام نہیں۔ کچھ بننا اور کرنا بھی ہے۔ محض حسین یادیں کافی نہیں ہوتیں۔ کچھ ایسا کرنا ہے کہ ہمارا دور بھی آنے والوں کو یاد رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved