تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     13-10-2022

مسئلہ کشمیر اور بھارتی وزیر داخلہ

مقبوضہ کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی متفقہ رائے ہے کہ وادی میں بھارتی سرمایہ کاری اور ترقی کے دعووں کے باوجود حالات انتہائی تشویشناک ہیں اور دنیا کے سامنے مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کی جو تصویر پیش کر رہی ہے وہ اصلی نہیں۔ اصلی تصویر یہ ہے کہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی بھارت کی سکیورٹی فورسز جارحانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ عوام میں ان کارروائیوں کے خلاف سخت غم و غصہ اورنفرت پائی جاتی ہے۔ ترقی کے نام پر کی جانے والی مودی حکومت کی کوششوں کے باوجود عوام نے پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو تسلیم نہیں کیا‘ یہی وجہ ہے کہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی بھارت کو مقبوضہ ریاست میں انتخابات کروانے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس صورتحال سے باخبر کرتے ہوئے کشمیریوں کی مقامی قیادت نے بھارتی وزیر داخلہ اور نریندر مودی کے دستِ راست امیت شاہ کو مشورہ دیا ہے کہ مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنے کیلئے پاکستان سے بات چیت کی جائے‘ لیکن بھارتی وزیر داخلہ نے اس تجویز کے جواب میں جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حکومت بات چیت کیلئے تیار نہیں۔
مسٹر امیت شاہ مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ سے اپنی بے خبری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گزشتہ 74 سال سے بھارت نے پاکستان کو شامل کیے بغیر کشمیر کے مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بری طرح ناکام رہا۔ اس دوران بھارتی پارلیمنٹ نے قراردادوں کے ذریعے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی قرار دیا۔ وادی میں کٹھ پتلی حکومتیں بھی قائم کیں اور بندوق کے سائے تلے انتخابات بھی کروائے۔ دنیا کے سامنے یہ ڈھونگ رچایا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں لیکن بین الاقوامی برادری کے کسی ایک رکن نے بھی بھارت کے اس جھوٹ کو سچ نہیں جانا کیونکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کے آئے دن کے احتجاجی مظاہروں اور مظاہرین کی طرف سے آزادی کے نعروں نے بھارت کے دعووں کی قلعی کھول دی اور آخرکار مودی کے اپنے گرو آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کو تسلیم کرنا پڑا کہ کشمیر کا مسئلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر اس کا دیرپا اور مستقل حل ممکن نہیں۔ مسٹر اٹل بہاری واجپائی کی یہی حقیقت پسندی 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت متنازع امور‘ جن میں مسئلہ کشمیر بھی شامل تھا‘ پر بات چیت کا عمل شروع ہوا۔ 2008ء تک مذاکرات کے اس سلسلے کے چار راؤنڈ منعقد ہوئے اور مذاکرات میں حصہ لینے والے دونوں ملکوں کے حکومتی بیانات کے مطابق مذاکرات کا یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا تھا۔ بعض امور مثلاً دو طرفہ تجارت اور آنے جانے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں کافی پیشرفت بھی ہو چکی تھی۔ اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی سازگار ماحول کا راستہ ہموار ہو سکتا تھا مگر 2014ء میں بھارت کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور نریندر مودی کے وزیراعظم بننے سے یہ معاملہ نہ صرف ٹھپ ہو گیا بلکہ امن کی کوششوں کی گاڑی کو بیک گیئر لگا دیا گیا۔ اس کی وجہ وزیراعظم مودی کی حکومت کی نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے خلاف بھی سخت موقف پر مبنی پالیسی تھی۔ اس پالیسی کے تحت چین کے ساتھ مشترکہ سرحد پر جھڑپوں میں اضافہ ہوا اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے زیر انتظام علاقوں پر فائرنگ اور گولہ باری تیز کر دی گئی۔ 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے امن مذاکرات کا سلسلہ پہلے ہی معطل ہو چکا تھا‘ نریندر مودی کے دورمیں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں تیزی نے پاک بھارت تعلقات کو اور بھی کشیدہ بنا دیا۔ بی جے پی حکومت کا خیال تھا کہ ان اقدامات سے پاکستان کو خوفزدہ اور کشمیری عوام کو خاموش کیا جا سکتا ہے لیکن بھارت کو ان دونوں محاذوں پر شکست ہوئی۔ کشمیر کے اندر تحریک آزادی نے زور پکڑا اور پاکستان نے دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ پیش کرنے کیلئے اپنی سفارتی سرگرمیوں کو تیز کر دیا۔ پانچ اگست 2019ء کو مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت حاصل سپیشل سٹیٹس کے خاتمے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارت کی یونین ٹیریٹری بنانے کا اصل مقصد کشمیر کے مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنا تھا‘ لیکن جس طرح اس مقصد کیلئے بھارت کی پہلے بھی ہر کوشش ناکام ہوئی یہ اقدام بھی ناکام ہو گیا‘ اس کی ناکامی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران مسٹر امیت شاہ کے بیانات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ پانچ اگست 2019ء کے اقدام نے خود بھارت میں ایک Debate کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارت کی کئی سیاسی پارٹیاں جن میں بائیں بازو کی اور علاقائی پارٹیوں کے علاوہ کانگرس بھی شامل ہے‘ مودی حکومت کے اس اقدام سے بر ملا اختلاف کرتی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مزاحمت نے تقویت پکڑی ہے اور سب سے اہم یہ کہ بین الاقوامی برادری میں بھارت کے اس اقدام کو کہیں بھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ چین بھارت کے اس اقدام کو یکطرفہ اور غیر قانونی قرار دے چکا ہے۔ جن ملکوں کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں وہ اپنے تجارتی و سرمایہ کارانہ مفادات اور علاقائی سلامتی کے تحفظ کی خاطر جنوبی ایشیا میں امن کے پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ خواہاں ہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح پر اس یقین کو تقویت حاصل ہو رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں نہ صرف یہ کہ امن قائم نہیں ہو سکتا بلکہ اس مسئلے کی موجودگی سے خطے میں تخریبی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان اور بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک اور دو بڑی طاقتوں‘ جن کے اس خطے کے ساتھ اہم سٹرٹیجک مفادات وابستہ ہیں‘ کیلئے جنوبی ایشیا میں امن ایک اہم ضرورت بن چکا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا انحصار پاک بھارت نارملائزیشن یا دیگر الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مقصد پانچ اگست 2019ء جیسے یکطرفہ اقدام سے حاصل نہیں ہو سکتا اس لیے بین الاقوامی میڈیا میں اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں گزشتہ تین سال سے جاری جمود کو توڑنے کیلئے بیک چینل کوششوں کی اطلاعات ظاہر ہوئی ہیں تو ان پر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ علاقائی اور عالمی سطح پر دنیا کوسکیورٹی‘ آب و ہوا میں تبدیلی‘ اناج کی کمی‘ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی صورت میں جو نئے اور اہم چیلنج درپیش ہیں‘ قوموں کے درمیان کشیدگی سے ان پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
مسٹر امیت شاہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی بنا پر براہِ راست جموں و کشمیر کے مسئلے‘ جس کی موجودگی کا پوری دنیا اعتراف کرتی ہے‘ کے حل میں کئی دہائیوں کی تاخیر سے پاکستان اور بھارت کے عوام غربت‘ پسماندگی اور عدم تحفظ کی صورت میں بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی اس تجویز کو بنیاد بنا کر کہ بھارت پانچ اگست 2019ء کے اقدام کو واپس لے کر مسئلہ کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کی راہ ہموار کرے‘ بھارتی وزیر داخلہ اپنی حکومت کو سہ فریقی یعنی پاکستان‘ بھارت اور کشمیری عوام کے درمیان مذاکرات پر آمادہ کریں۔ یہی مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved