صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان دباؤ کا شکار تھے اور انہوں نے مایوسی میں اسمبلی میں نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ دوسری طرف اگر خان صاحب کے حالیہ بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہ مایوسی اب بھی دور نہیں ہو سکی بلکہ جوں جوں نومبر قریب آرہا ہے ان کی مایوسی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ نومبر میں کی جانے والی اہم تقرری کے حوالے سے انہوں نے جو فارمولا پیش کیا تھا‘ یعنی موجودہ حکومت یہ تقرری موخر کردے اور اگلی حکومت آ کر یہ اہم تقرری کرے‘ اسے نہ تو حکومتی حلقوں سے پذیرائی ملی اور نہ ہی کہیں اور سے بلکہ یہ واضح پیغام دیا گیا کہ توسیع نہیں لی جائے گی۔ عمران خان کے جارحانہ رویے کی اس وقت بظاہر دو وجوہات ہیں‘ اول تو یہ کہ وہ خود یہ اہم تقرری نہیں پائیں گے اور دوم یہ کہ یہ تقرری ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے حصے میں آئی ہے۔
گزشتہ دنوں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا مریم نواز کے ہمراہ لندن میں انٹرویو دینا‘ ان کے ایک پُر اعتماد سٹیک ہولڈر ہونے کا مظہر ہے۔ انہیں اس وقت نہ صرف اپنے خلاف بے بنیاد کیسز ختم ہونے بلکہ شاید چوتھی بار وزیراعظم بننے کی اُمید بھی نظر آ رہی ہے۔ شاید یہی عوامل خان صاحب کی مایوسی کا سبب بھی ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اس وقت پیچھے ہٹ کر اورمنظم ہوکر سیاسی مہم جوئی کریں لیکن تحریک انصاف کی قیادت یہ سوچے بغیر کہ اب اُن کے بیانیے کمزور پڑتے نظر آ رہے ہیں‘وہ اس وقت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ حال ہی میں انہوں نے آڈیو لیکس کے معاملے پر کچھ ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اُن کے خلاف عدالت میں جاکر جے آئی ٹی بنوانے کا عندیا دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ خان صاحب ان آڈیو لیکس کے حوالے سے پریشان ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ جیسے ان لیکس نے کپتان کے سائفر اور بیرونی سازش کے بیانیوں کو کمزور کیا‘ بات کہیں اس سے بھی آگے نہ بڑھ جائے۔
اب تو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی سازش کے بیانیے کے قائل نہیں تھے‘ ہاں انہیں شکوک و شبہات ضرور تھے‘ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ آڈیو لیکس سے عمران خان کے بیانیے پر ڈینٹ پڑ رہا ہے۔ اگر خان صاحب کے آڈیو لیکس معاملے پر عدالت میں جانے کے اعلان کا جائزہ لیں تو یہ اعلان دو وجوہات کی بنا پر دلچسپ ہے۔ پہلی تو یہ کہ ماضی میں خان صاحب خود وزیراعظم کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی حمایت کر چکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں کسی شے کا ڈر نہیں کیونکہ وہ کرپٹ نہیں اور یہ ریکارڈنگ وزیراعظم کی حفاظت کیلئے کی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ابتدا میں جب شہباز حکومت کے حوالے سے آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تو عمران خان نے اس کا خیر مقدم کیا‘ اسے جلسوں کا موضوع بنایا اور یہاں تک فرما دیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے جو اگلی آڈیو لیک آئے گی وہ (ن) لیگ اور الیکشن کمیشن کا گٹھ جوڑ ثابت کردے گی۔ ان بیانات کے بعد اب عمران خان کیونکر عدالت کا رُخ کریں گے؟ کیسے یہ مطالبہ کریں گے کہ اداروں کے خلاف جے آئی ٹی بنا کر تحقیقات کی جائیں؟جبکہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے حکومت کی طرف سے پہلے ہی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے جس میں اہم ریاستی اداروں کے سربراہان بھی شامل ہیں۔
اگر خان صاحب واقعی چاہتے ہیں کہ آڈیو لیکس کے حوالے سے بے لاگ تحقیقات ہوں تو پھر انہیں عدالت میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں واپس جانا چاہیے اور وہاں کی قائمہ کمیٹیوں میں اداروں کے سربراہان کو طلب کرنا چاہیے۔ اس سے پارلیمانی نظام مضبوط ہوگا‘ جس کو مضبوط کرنے کے لیے خان صاحب یورپی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں لیکن جب سے خان صاحب ایک پارلیمانی و جمہوری طریقے سے حکومت سے الگ کیے گئے ہیں تب سے وہ پارلیمنٹ کو ہی جعلی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان اداروں کی اکثریت ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے وجود میں آئی اور ان پر قانون اور ضابطوں کا اس طرح سے اطلاق نہیں ہوتا‘ اگر خان صاحب کو ان کی کارکردگی پرکوئی اعتراض تھا تو اپنے دورِ حکومت میں اس حوالے سے قانون سازی کرتے‘ خاص طور پر جب وہ اقتدار میں تھے اور تاریخ کے طاقتور ترین وزیراعظم تھے کیونکہ جتنی سپورٹ بطور وزیراعظم انہیں حاصل تھی وہ کسی بھی وزیراعظم کیلئے ایک خواب ہے۔ وہ اپنے دورِ حکومت میں دیگر مشکل بلوں کی طرح پارلیمنٹ میں ان اداروں کے حوالے سے بھی کوئی بل منظور کروا لیتے جنہیں وہ مبینہ طور پر آڈیو لیکس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں لیکن اب چونکہ بازی پلٹ چکی ہے اور تیر ہدف پر نہیں لگ رہے تو انہیں یہ مسئلہ سنگین لگ رہا ہے۔
خان صاحب کی مایوسی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے جلسوں میں جنہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘بعد میںانہی کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں اور جب ان ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو وہ مزید جارحانہ رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اگر خان صاحب تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقتور حلقوں کے بجائے پارلیمنٹ پر تکیہ کریں تو اس سے نہ صرف ہمارا سیاسی نظام مضبوط ہوگا بلکہ غیر جمہوری قوتیں بھی جمہوریت کو کوئی زک نہیں پہنچا سکیں گی۔ایک جانب تو خان صاحب مبینہ طور پر نیوٹرلز پر تنقید کرتے ہیں اور دوسری جانب یہ چاہتے ہیں کہ وہ غیر جانبداری چھوڑ کر خان صاحب کی حمایت میں مداخلت کریں‘ یہ کیسی پالیسی ہے؟ کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ خان صاحب پی ڈی ایم سے ڈائیلاگ کرتے‘ سیاسی کھیل کے نئے قانون اور ضابطے طے کرتے اور وہ سسٹم جس پر اکثر و بیشتر تنقید کرتے رہتے ہیں‘ اس کی بہتر ی کیلئے عملی اقدامات کرتے؟
جب 1965ء کی جنگ ہوئی تو صدر ایوب خان نے اپوزیشن کی تمام سیاسی قیادت کو ایوانِ صدر میں اکٹھا کر لیا‘ جن کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہوئے صدارتی انتخابات کے باعث مخالفت عروج پر تھی‘ لیکن چونکہ ملکی سالمیت کا معاملہ تھا تو سب اکٹھے ہوئے اور دشمن کو زور دار پیغام دیا۔ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے تحریک کا آغاز ہوا تو بھٹو صاحب نے مخالفین کے ساتھ مذاکرات کیے اور بار بار کیے‘ حتیٰ کہ وہ اچھرہ لاہور میں واقع مولانا مودودی کے گھر بھی تشریف لے گئے۔ اسی طرح (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے 90ء کی دہائی میں جو کچھ ایک دوسرے کے خلاف کیا‘ اس کا نتیجہ میثاقِ جمہوریت کی صورت میں ہی نکلا۔ خان صاحب کو بھی تاریخ سے سیکھنا چاہیے‘ سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے دوسرے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق قائم رکھنا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی طرف سے خان صاحب کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قومی سیاست اُن کے گرد گھومتی ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے‘ نظام جمہوریت میں تمام سیاسی جماعتیں برابر اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اگر خان صاحب روز ایک نیا بیانیہ لائیں گے‘ ایک حیران کن تضاد‘ کسی اہم راز کو فاش کرنے کی دھمکی اور لانگ مارچ کی تاریخ میں عوام کو الجھائے رکھیں گے تو ظاہر ہے عوام کبھی جوش‘ کبھی تاسف‘ کبھی حیرانی تو کبھی مزاح کی خاطر یہ تماشا دیکھیں گے۔ اگر تحرک انصاف کی قیادت کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ خود کو تاریخ کی بہترین اور مؤثر ترین قیادت ثابت کرسکتی ہے تو فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ تاریخ بہت ظالم ہے۔ وہ سیاستدانوں کو اُن کے نعروں‘ وعدوں اور دعووں سے نہیں‘ عمل سے پرکھتی ہے۔ اس لیے کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ سب کو سرپرائز دیتے دیتے‘ تاریخ تحریک انصاف کی قیادت کو ہی کوئی سرپرائز مل جائے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved