تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     13-10-2022

عدالت کا وقار و اعتبار …(حصہ دوم)

اصولی طور پرکوئی چھوٹا ہو یا بڑا‘ ہر صاحبِ منصب کی عزت ہونی چاہیے۔ نوکری وسیلۂ رزق ہوتی ہے، لیکن اس کمزوری کے سبب کسی کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے، جبکہ کہیں شنوائی بھی نہ ہو، کوئی اپنی فریاد پیش کرے تو جواب میں ڈانٹ ملے، کوئی اپنی صفائی پیش کرنا چاہے تو جواب میں زبان بندی کاحکم ملے، ایسے میں وہی مناظر رونما ہوتے ہیں جو 25 مئی کی سہ پہر سے رات تک ٹیلی وژن سکرینوں پر نظر آتے رہے۔ یہ تو نظر آ رہا تھا کہ آج کا روم یعنی اسلام آباد جل رہا ہے، لیکن کسی کویہ بتانے کی جرأت نہیں کہ آج کا ''نیرو کون ہے‘‘۔ کسی کی مجال نہیں کہ لب کشائی کرے۔
اس وقت کسی کو نہیں معلوم: ''مقتدرہ کیا چاہتی ہے، عدلیہ کے اہداف کیا ہیں، موجودہ حکومت کے اختیارات کس لاک اپ میں بند ہیں، انتظامی معاملات میں ماضی کی روایات کے برعکس ضرورت سے زیادہ دخل اندازی کیوں ہو رہی ہیں، دو صوبے وفاق کے مقابل کھڑے ہیں‘‘۔ گلے میں طوق اور پائوں میں بیڑیاں ڈال کر یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ ملک میں امن قائم ہو گا، معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو گا، روپے کی قدر مستحکم ہو گی۔ چنانچہ وزیراعظم نے کہا: ''آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے لیے ناک رگڑنی پڑی اور اُن کی منظوری کے بغیر اپنے عوام کو کوئی ریلیف بھی نہیں دے سکتے‘‘۔ کسی کو نہیں معلوم: ''اس حکومت نے کتنے دن رہنا ہے، آگے کس نے آنا ہے، ماضی کی حکومت عہد شکن ثابت ہوئی، اِس کے کیے ہوئے عہد و پیمان کا ضامن کون ہو گا، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے‘‘۔ معاشی بدحالی کی شکار قوم سرِ دست تو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آئی ہے، یہ امید کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد کچھ دوسرے ذرائع سے بھی وسائل آئیں گے۔ پس قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس ملک کا ''حقیقی اقتدار‘‘ کس کے پاس ہے، اس چیز کو اب صیغۂ راز میں نہیں رہنا چاہیے، اس کھلے راز کوکتابِ قانون کے صفحۂ قرطاس پر رقم ہونا چاہیے، یعنی آئین وقانون پر لفظاً ومعنیً پوری طرح عمل ہونا چاہیے تاکہ جس کے پاس اقتدار ہے، کامیابی کا کریڈٹ بھی اُسی کو ملے اور ناکامی کاملبہ بھی اسی پر گرے، بظاہر جو اقتدار پرفائز کیے جاتے ہیں، کیا یہ انصاف ہے کہ طعن و تشنیع کے سارے تیر ان کی طرف چلائے جائیں اور پس پردہ رہنے والے ان مناظر سے لطف اندوز ہوں۔
سوال یہ ہے:جب مسئلہ ملک کے امن و امان کا ہو، جان و مال اور اَملاک کی حفاظت کا ہو تو اس کی ذمہ داری سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ڈالی جائے، لیکن انہیں معاملات کو طے کرنے کا آزادانہ اختیار نہ دیا جائے تو کیا ان سے باز پرس ہو سکتی ہے؟ اگر انہیں ہدایات دی جا رہی ہوں کہ بجائے اس کے کہ وہ بیٹھ کر حالات کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کریں، گھنٹوں کا وقفہ دے کر اس بات کا پابند بنایا جا رہا ہو کہ وہ پورے ملک کے اعداد و شمار جمع کر کے پیش کریں، پاکستان میں ایسی تیز ترین انتظامی مشینری کب تھی اور کہاں ہے۔ اگر اس ملک کو چلانا ہے تو کوئی معلوم اور کھلی آنکھ سے نظر آنے والانظام بنانا ہوگا، پردے گرانے ہوں گے۔ یہ ملک مزید بے بس، بے اختیار اور کمزور حکومت کا متحمل نہیں ہو سکتا، ورنہ خاکم بدہن خدانخواستہ آج کا روم جل نہ جائے۔ تاریخِ عالَم میں یہ کوئی اَنہونی بات نہیں ہے، نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے اکیاون برس ہو چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ اس کے تعلیمی نصاب میں ملک کی تاریخ نہیں پڑھائی جاتی، سونئی نسل کو معلوم ہی نہیں کہ ہم نے ملکی و ملی سطح پر کیا غلطیاں کیں اور ان کی کیا قیمت ادا کی۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو کسی نئے المیے سے محفوظ رکھے، وطنِ عزیز کی سلامتی کے لیے اپنی بارگاہِ بے کس پناہ سے اسباب مقدر فرمائے۔
ہر ادارہ اپنے عزل و نصب اور ترقی و تنزلی کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو جوابدہ ہے، لیکن سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ماہرینِ قانون ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے بھی کوئی طے شدہ طریقۂ کار اور معیار ہونا چاہیے اور اُس کی بھی کوئی آزادانہ چھان بین ہونی چاہیے۔
امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے، صدرِ امریکہ سپریم کورٹ کے لیے جج نامزد کرتا ہے، مگر اس کی توثیق اورردّ و قبول کا اختیار سینیٹ کی کمیٹی کے پاس ہوتا ہے، اُسے سینیٹ کی کمیٹی میں باقاعدہ پیش ہونا پڑتا ہے، اس کی پوری زندگی کو کھنگالا جاتا ہے، اس کے پیشہ ورانہ ریکارڈ، ٹیکس ریکارڈ اور اخلاقی رویوں کی باقاعدہ چھان بین کی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ یہ کیسے فرض کرلیا جاتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے ارکان خطا سے مبرّا ہوتے ہیں، احترامِ عدالت ہر مہذب معاشرے کا فرض ہے، لیکن حقیقی احترام وہ ہے جو اپنے شخصی اور ادارہ جاتی کردار سے حاصل کیا جائے۔ ہمارے ملک میں ''ازالۂ حیثیتِ عرفی‘‘ کے مقدمات برسہا برس لٹکے رہتے ہیں اور کبھی انجام کو نہیں پہنچتے۔ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی بابت الیکشن ٹریبونل نے نااہلی کا فیصلہ صادر کیا، اس پر الیکشن کمیشن نے اُسے نشست سے محروم کر دیا، لیکن حکمِ امتناع جاری ہو گیا اور وہ ایک اہم آئینی منصب پر براجمان رہے، اسی طرح جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا فیصلہ برسوں سے معرضِ التوا میں ہے، وہ پنشن سے بھی محروم ہیں، فیصل واوڈابھی حکمِ امتناعی حاصل کیے ہوئے ہیں، بعض مقدمات کو سرِفہرست رکھاجاتا ہے اور بعض کونہیں۔
قرآنِ کریم نے مناصب تفویض کرنے کے لیے بعض معیارات بتائے ہیں، جب حضرت یوسف علیہ السلام قید اور ابتلا کے دور سے گزر کر بادشاہ کے دربار میں پہنچے توان کی باہمی گفتگو کی بابت قرآن کریم نے بتایا: ''بادشاہ نے کہا: اُنہیں میرے پاس لے آئو، میں اُنہیں اپنا معتمدِ خاص بنائوں گا، پس جب بادشاہ نے اُن سے گفتگو کی تو ( متاثر ہوکر) کہا: ''بیشک آج سے آپ ہمارے نزدیک مقتدِر اور امین ہیں‘‘، یوسف (علیہ السلام) نے کہا: ''مجھے اس ملک کے خزانوں کا نگران مقرر کردیں، بے شک میں حفیظ و علیم ہوں‘‘ (یوسف: 54 تا 55)۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی دو صفات بیان کیں: (1) میں حفیظ ہوں اور خزانوں کی حفاظت کا اہل ہوں، (2) علیم ہوں، یعنی اقتصادی منصوبہ بندی کا علم رکھتا ہوں؛ چنانچہ آپ نے بادشاہ کو خوابوں کی تعبیر بتائی اور حالات کے تناظرمیں چودہ برس پر محیط کامیاب منصوبہ بندی بھی فرمائی، اس میں یہ اہلیت بھی شامل ہے کہ کس سے لیا جائے اور کسے دیا جائے۔ حدیث پاک میں فرمایا: ''اُن کے مالداروں سے لیا جائے اور اُن کے فقرا کو لوٹایا جائے‘‘ (بخاری: 1395)۔
اسی طرح جب ایک اجنبی مسافر کی حیثیت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے طاقتور اور اوباش لوگوں کے مقابلے میں اُن کی کمزور بیٹیوں کی مدد کی اور عام دنوں کے برعکس وہ وقت سے پہلے اپنے مویشیوں کو گھاٹ سے پانی پلا کر گھر پہنچ گئیں تو قرآن نے بتایا: ''اُن میں سے ایک نے کہا: ابا جان! آپ اُس (اجنبی) شخص کو ملازم رکھ لیجیے، کیونکہ آپ جس بہترین شخص کو ملازم رکھیں، وہ قوی (اور) امین ہونا چاہیے‘‘ (القصص: 26)۔ یہاں اللہ کے نبی کی ایک دیدہ ور بیٹی نے کسی منصب کا اہل ہونے کے لیے دو خصوصیات بیان کی ہیں: (1) قوی ہو یعنی جسمانی، فکری اور عملی لحاظ سے وہ اُس امانتِ اختیار و اقتدار کی حفاظت کا اہل ہو، (2) امین ہو یعنی وہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے دیانت و امانت کو ملحوظ رکھے۔
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے نجاشی کے دربار میں کہا: ''ہم ایک جاہل قوم تھے، بت پرستی کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، بے حیائی کے کام کرتے تھے، قرابت کے رشتوں کو توڑتے تھے، ہمسایوں کے حقوق کی پاس داری نہیں کرتے تھے، طاقت ور کمزورکے مال کو کھا جاتا، ہم انہی جہالتوں میں مبتلا تھے کہ اللہ نے ہماری طرف ہم ہی میں سے ایک رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا، ہم اُن کے نسب، اُن کی صداقت، اُن کی امانت اور اُن کی پاک دامنی کو جانتے تھے، تو انہوں نے ہمیں اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور کہا: تم اور تمہارے آبائو اجداد پتھروں اور بتوں کی جو عبادت کرتے تھے، اُسے چھوڑ دو، انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت کو ادا کرنے، صلۂ رحمی، ہمسایوں کے حقوق کی پاس داری کا حکم دیا اور محرّمات اور خونِ ناحق سے بچنے کی تعلیم دی‘‘ (سیرتِ ابن ہشام، ج: 1، ص: 290)۔
اِسی طرح جب ابوسفیان شام کے تجارتی سفر پر تھے، تو ھِرَقْل (قیصرِ روم) نے رسول اللہﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے سرداروںاور ترجمان کو بلایا اور قریشِ مکہ کے تجارتی قافلے کو دربار میں طلب کرکے سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں پوچھا: اُس کی تعلیمات کیا ہیں؟ ابوسفیان نے جواب دیا ''وہ کہتے ہیں: خدائے واحد کی عبادت کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو، اپنے آبائو اجداد کی ناحق باتوں کو چھوڑو، وہ ہمیں نماز پڑھنے، صدقہ دینے، پاک دامنی اختیار کرنے، ایفائے عہد اور امانت کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں‘‘ (بخاری: 7)۔ یہ حضرت ابوسفیانؓ کے زمانۂ قبل از اسلام کی شہادت ہے، جب وہ رسول اللہﷺ کی عداوت میں حد سے بڑھے ہوئے تھے۔
عرب شاعر نے سچ کہا ہے: ''اصل فضیلت یہ ہے، جس کی دشمن بھی گواہی دے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved