جون 1949ء میں بروکلین نیو یارک میں پروفیسر ڈی شوئی مان نے ایشیا کی تازہ سیاسی صورتِ حال پر لیکچر دیتے ہوئے کہا تھا ''حال ہی میں پاکستان کے نام سے سائوتھ ایشیا میں ایک نئی ریاست عالم وجود میں آئی ہے۔ یہ ریاست ایک ایسے کنویں کی مانند ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی‘‘۔ پروفیسر شوئی مان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس ریاست کا وجود غیر محفوظ ہے اور یہ نصف صدی سے بھی کم عرصے میں اپنے ہی لوگوں کے سبب مشکلات میں گھر جائے گی کیونکہ ان لوگوں نے غلامی کی زنجیروں میں جنم لیا ہے اور اس طرح کے لوگ ایک آزاد ملک کی محبت اور قدر کو محسوس نہیں کر سکتے۔
ملک کے قیام کے پچیس سالوں میں ہی ہم نے دو‘ تین جنگیں اور سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کو بھگتا۔ اسی دوران ملک میں حکومت بار بار ڈی ریل ہوتی گئی جبکہ دو مارشل لا بھی اسی عرصے میں دیکھنے کو ملے۔ بات وہی تھی کہ انگریز کی پروردہ حکمران کلاس اس ملک سے وہی سلوک کرتی رہی جو کسی مفتوح علاقے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ وہی تھی کہ وہ اپنا مستقبل اس ملک کے ساتھ نتھی نہیں کر رہی تھی بلکہ یورپ کے پُرفضا مقامات کو وہ اپنے خیالوں میں بسائے ہوئے تھی۔ یہ جو عمران خان آج پاکستان کی ہر گلی‘ کوچے اور چوراہے میں ''ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کے نعرے لگا رہے ہیں‘ ان کا کیا مفہوم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ غلامی کا طوق پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی ہماری گردنوں میں ایسے ڈال دیا گیا کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ناکارہ بنا دیے گئے۔ ہمیں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اورخود کچھ کرنے کے قابل ہی نہ رہنے دیا گیا اور جب بھی بغیر سہارے کے اٹھنے کی کوشش کی تو ایسا دھکا دیا گیا کہ کمر ہی دہری ہو گئی۔ آج اگر عمران نے غلامی سے چھٹکارے کا نعرہ سیاسی طور پر لگایا ہے تو یاد رکھئے گا کہ آزادی کا کسی بھی شکل میں پھینکا جانے والا یہ بیج دھرتی کے سپوتوں کی رگ رگ میں سما چکا ہے اور عوام اپنے خون سے آزادی کے اس بیج کی آبیاری کر کے دکھا دیں گے کہ ''وہ غلام پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی نسلیں غلامی میں پیدا ہوں گی‘‘۔
پاکستان ہو یا ہم عصر دنیا کا کوئی دوسرا زوال و انحطاط سے دوچار معاشرہ‘ اگر کوئی ملک تعمیر و ترقی کے بام عروج پر ہے اور جس حال میں اور جس مقام پر ہے تو اس کے پیچھے ماضی میں دور تک پھیلا ہوا سلسلۂ فکر و عمل کارفرما ہے۔ گویا حال ماضی کی تخلیق ہے اور مستقبل کے بارے میں کو ئی پیش گوئی حال ہی کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے حال نے اہلِ وطن کو اس کے مستقبل کے حوالے سے سخت فکر و تشویش اور پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اندرونِ ملک کے سانحات ہوں یا ہمہ جہتی اسبابِ زوال یا بین الاقوامی دائرۂ تعلقات میں انحطاط کی مختلف صورتیں‘ ان سب نے ملکی صورت حال کو اتنا مخدوش کر دیا ہے کہ مستقبل پر خوف اور مایوسی کے گہرے سائے چھائے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جسے اس ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر آ رہا ہو۔ ماضی میں پاکستان کے اندر کیا کچھ ہوا‘ کس نے کیسے کیا کیا‘ کس کس نے اس پر کاری وار کیے؛ اگر چہ یہ سب میرے اس کالم کا موضوع نہیں ہے لیکن جس طرح مرض کی تہہ تک پہنچنے کیلئے ایک طبیب نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مریض سے یہ سوال پوچھتا ہے کہ کل کیا کھایا تھا‘ کیا کیا تھا‘ کیا آپ کے والدین میں سے تو کوئی اس مرض کا شکار نہیں رہا وغیرہ وغیرہ‘ ایسے ہی وطن عزیز کو جکڑنے والے ان قومی امراض کی تشخیص کیلئے ہمیں تھوڑا سا اپنا ماضی بھی جھانک لینا چاہئے کہ ہمیں غلامی کے طوق میں کس کس نے جکڑا اور اس کے بدلے حصہ وصول کیا۔ کس نے وطن کے مستقبل کی قیمت پر اپنے محلات یورپ کے پُرسکون ممالک میں سجائے؟ پاکستان میں ماضی کے تمام حکمرانوں کے اب تک جتنے بھی بیرونی معاہدات برق رفتاری اور رازداری سے ہوئے اور جن کا سلسلہ آج بھی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے‘ وہ کیوں پوشیدہ رہے؟
کیا یہ جاننا عوام کا حق نہیں کہ رجیم چینج کے بعد آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے کن شرائط پر ڈوبتی اور ہچکولے کھاتی ہوئی پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کی حامی بھرنے جا رہے ہیں؟ کہیں ہم ایک بار پھر کسی نئی اور ترقی یافتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سراب کا شکار تو نہیں کیے جا رہے؟ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی‘ جو آج سے لگ بھگ چار سو سال قبل 31 دسمبر 1606ء کو لندن میں اس مقصد کیلئے تشکیل دی گئی تھی کہ اپنی مصنوعات کی منڈیوں کے لیے ہندوستان اور انڈونیشیا تک پھیلے خطوں تک پہنچ کر وہاں اپنے تجارتی مراکز قائم کرے مگر پھر سب نے دیکھا کہ ہندوستان میں انگریز تجارت کے نام پر داخل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سورت اور پھر بمبئی، مدراس اور کلکتہ کی بندرگاہوں پر قابض ہو گئے۔ اس وقت کسی کو خبر ہی نہ ہوئی کہ اس کمپنی کے عملے میں بری اور بحری افواج کے لوگ بھی شامل تھے۔ نہایت غیر محسوس طریقے سے اس وقت کے مغل بادشاہوں اور علاقائی عہدیداروں سے انگریزوں نے ذاتی مراسم بڑھائے۔ مغل بادشاہ جہانگیر نے تو ایک انگریز کو منصب دار کا اہم عہدہ بھی سونپ دیا تھا۔ پھر انگریزوں کو اہم شہر اور علاقے سونپے جانے لگے۔ پھر یہ وقت بھی آیا کہ حکومت مغل خاندان کی تھی مگر محصول کمپنی اکٹھا کرتی تھی۔ انگریز نے روبہ زوال مغل سلطنت کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی سطح پر اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے چھوٹی چھوٹی جھڑپوں سے ہندوستان پر قبضے کا آغاز کیا اور پھر 1757ء کی جنگ پلاسی میں پہلے بنگال اور پھر سو سال بعد اپنی فتح کا جشن مناتے ہوئے 1857ء کی جنگِ آزادی میں مغلوں، مقامی راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کو شکست دے کر پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور برصغیر کے پُرشکوہ مغلیہ خاندان کو بے نام و نشان بنا کر رکھ دیا۔ تاریخ کا یہ گزرا ہوا دور اب ایک نئی صورت میں اپنے اعادے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ دیکھتی آنکھیں حیران ہو رہی ہیں کہ امریکہ‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ فرانس اور اسرائیل سمیت ان کے اتحادی افریقہ اور عرب دنیا کے تمام ممالک کے فیصلوں سمیت ان کی معیشت پر رفتہ رفتہ قابض ہوتے جا رہے ہیں۔
دنیا کا نقشہ سامنے رکھ کر غور سے دیکھیں کہ ایشیا کا وسیع علاقہ‘ جو وسطی ایشیا سے چین تک اور ادھر جنوبی ایشیا میں پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ بھارت‘ سری لنکا سے ہوتا ہوا میانمار‘ ملائیشیا اور کوریا تک پھیلا ہوا ہے‘ دنیا کی دوتہائی سے زائد آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ ابھی تک امریکہ اور یورپ کی عسکری دسترس سے باہر ہے جبکہ وسطی ایشیا کی ابھرتی ہوئی ریاستیں‘ چین اور بھارت بڑی معاشی قوت بن چکے ہیں۔ جاپان اور انڈونیشیا جیسے ممالک ان کے سرے پر واقع ہیں۔ امریکہ کے تھنک ٹینک اسے سمجھا رہے ہیں کہ وہ صرف پاکستان کے راستے ہی قلبِ ایشیا تک پہنچ سکتا ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اگر کوئی آزادی کا نعرہ لگائے یا غلامی سے نجات پانے کی باتیں کرے تو اسے نشانِ عبرت بنا دو تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو سکے۔ کبھی سوچنے کی کوشش کیجئے گا کہ وہ کون ہے جس نے ہمیں لسانی، قومیتی اور دیگر فسادات کا شکار کر رکھا ہے۔ وہ کون ہے جس نے ہمیں حقیقی عوامی قیادت سے محروم کر رکھا ہے؟ کیا چودھری پرویز الٰہی کا وہ انٹرویو دیکھنے کا موقع نہیں ملا جس میں انہوں نے بتایا کہ 2008ء کے عام انتخابات سے چند روز پہلے ایک غیر ملکی سفارتخانے کے کچھ افراد ان کے گھر میں بیٹھ کر انہیں کہہ رہے تھے کہ بے شک آپ نے پنجاب میں بہت اچھے کام کیے ہیں لیکن اگر قاف لیگ الیکشن میں جیت گئی تو بھی اس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یہ واقعہ چودھری شجاعت حسین کی کتاب میں بھی درج ہے اور آج تک کسی نے اسے نہیں جھٹلایا۔ محلاتی سازشوں سے عوام کے حقِ اقتدار پر ڈاکا مارنے والے ڈریں اس دن سے جب مہنگائی اور بھوک سے تڑپنے کے بجائے بائیس کروڑ عوام غلامی کی زنجیریں توڑنے کی صدائیں بلندکرنا شروع کر دیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved