انسانی مزاج ہے‘ ہم اپنی کمزوریوں یا غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں۔
چلیں ہمارے جیسے بڑے تو یہ کام روز کرتے ہیں لیکن آپ ذرا غور کریں تو بچے بھی لاشعوری طور پر یہی کام کررہے ہوتے ہیں‘ جب ماں باپ ان کو کسی غلطی پر پکڑ لیں تو وہ فورا ًبڑے یا چھوٹے بھائی بہن پر ملبہ ڈال دیں گے۔ شاید یہ جبلت ہم پیدائش سے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں اس میں مہارت حاصل کرتے جاتے ہیں اور پھر اتنے یقین کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ سننے والے کو چھوڑیں‘ ہمیں خود یقین ہونے لگتا ہے کہ سچ بول رہے ہیں۔ کامیاب جھوٹ ہوتا ہی وہ ہے جس پر بولنے والا سب سے پہلے خود یقین کر لیتا ہے۔
پاکستانی ہوں یا دنیا بھر کے سیاستدان‘ ان کے ہاں جھوٹ میں مہارت بنیادی خوبی سمجھی جاتی ہے اور ان کو داد دینا بنتی ہے کہ کیسے یہ لوگ کروڑوں لوگوں کو اپنی باتوں سے ٹریپ کر کے ان پر حکومت کرتے ہیں اور جب جھوٹ پکڑے جائیں تو وہی عوام ان کا دفاع کررہے ہوتے ہیں کہ چھوڑیں جی! سیاست اسی چیز کا تو نام ہے۔ مطلب سیاستدان جھوٹ بولے گا اور ہم عوام اس جھوٹ پر ایمان لے آئیں گے تو اسے سیاست کہا جائے گا۔ اب اس سے بہتر ڈیل اور کیا کسی لیڈر کو مل سکتی ہے کہ وہ رَج کر جھوٹ بولے اور سب باتوں کو محض سیاسی بیان کہہ کر مکر جائے۔لیڈر یہ کام اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اکثر عوام خود روزانہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ ہم اکثر عادت کی وجہ سے جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ہم رپورٹرز یا صحافیوں کا مسئلہ ہے کہ ہم حکمرانوں کو اتنے قریب سے دیکھ چکے ہوتے ہیں کہ ان کا ہم پر کوئی رعب دبدبہ نہیں رہتا کہ وہ جو جھوٹ بولتے رہیں‘ آپ آگے سے چپ سنتے رہیں کہ چلو یار چھوڑو کیا کہنا‘ لیکن عوام کا وہی حال ہوتا ہے کہ دور کے ڈھول سہانے‘ لہٰذا وہ ان کی چرب زبانیوں اور جھوٹے وعدوں میں پھنس جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کسی لیڈر کو کوئی ڈر نہیں ہے نہ اپنے جھوٹ بولنے پر کوئی شرمندگی ہوتی ہے‘نہ سکینڈلز میں پکڑے جانے پر۔ انہیں پتا ہے کہ ان کے حامی ہر قیمت پر ان کا دفاع کریں گے۔
یہ بھی ہمارا مزاج ہے کہ ہم جن لوگوں کو پسند کرتے ہیں ان کے بارے ہمیں لاکھ بری باتیں بتائی جائیں ہم پر وہ اثر نہیں کرتیں۔ ایک جگہ انسانی نفسیات بارے پڑھا تھا کہ جن سے آپ کو الفت یا محبت ہو اور آپ کا بے شک بریک اَپ ہو جائے آپ پھر بھی اپنے ایکس محبوب کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اس لیے لاکھ آپ کا پسندیدہ لیڈر یا حکمران بے نقاب ہوتا رہے‘ اس کے سکینڈلز سامنے آتے رہیں اور اس کے جھوٹ ایکسپوز ہوتے رہیں لیکن پھر بھی وہ عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سرائیکی کا محاورہ یاد آتا ہے کہ بھاندے دی ہر شئے بھاندی اے ( جو آپ کو پسند ہے اس کا سب کچھ اچھا لگتا ہے) لیکن اَن بھاندے دی کوئی شئے نئیں بھاندی ( جو اچھے نہیں لگتے ان کی کوئی بات‘ چاہے اچھی بھی ہو‘ اچھی نہیں لگتی)۔ ہمارے عوام کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسے جانے پر تیار رہتے ہیں بلکہ شاید اس ڈنگ سے لذت لیتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کوئی مجھے ایک دفعہ بیوقوف بنائے تو Shame on himاور اگر وہی بندہ مجھے دوسری دفعہ بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جائے تو Shame on me۔یہاں تو روزانہ کئی دفعہ بنایا جاتا ہے اور ہم مروت کے مارے اگلے دن پھر پوری تیاری سے چونا لگوانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب عوام ہی ایسے ملیں تو لیڈرز کیوں کردار کا مظاہرہ کریں؟
یہ سب باتیں مجھے عمران خان کی لاہور میں صحافیوں سے کی گئی باتوں سے یاد آرہی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ وہ کمزور وزیراعظم تھے اور ان کی پاورز کوئی اور استعمال کررہا تھا۔اگر آپ اس ملک کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں اور برسوں سے سیاست پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں تو یہ بات آپ کے لیے ہرگز نئی نہیں ہونی چاہیے اور نہ اس بات پر آپ حیران ہوں گے۔ آپ کو لگے گا یہ بات آپ ہر تین‘ چار سال بعد ہر وزیراعظم سے سنتے ہیں‘ جب وہ سابق ہو جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان میں یہی بات مشترک نکلی ہے کہ ہم سب بے بس تھے۔کوئی اور لوگ طاقت استعمال کررہے تھے۔ایک وزیراعظم بھی ایسا نہیں ملے گا جو کبھی اعتراف کرے کہ وہ ناکام رہا۔ وہ خود کچھ نہیں کرسکا یا اس میں صلاحیت نہ تھی کہ وہ ملک کی باگیں اپنے ہاتھ میں رکھتا اور سب اہم فیصلے خود کرتا نہ کہ وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر مظلومیت کا رونا شروع کر دیتااور عوام میں ہمدردیاں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کرے۔
اب سوال یہ ہے کہ عوام کیا کرسکتے ہیں؟ وہ آپ کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ پہنچا سکتے ہیں‘ وزیراعظم بنوا سکتے ہیں لیکن وزیراعظم بن کر حکمرانی کرانا تو عوام کے بس میں نہیں ہے۔ مجھے انگریزی فلم Braveheart کاڈائیلاگ یاد آتا ہے جب بادشاہ اپنے نالائق بیٹے کو مایوسی سے کہتا ہے کہ مائی سن مجھے علم ہے تمہارے اندر بادشاہوں والی کوئی خوبی نہیں لیکن تم بادشاہ والی اداکاری تو کر سکتے ہو۔ ہمارے وزیراعظم جب پاور میں جارہے ہوں تو وہ ہر قسم کا حربہ آزمائیں گے۔ انہیں اس وقت مقتدرہ کی حمایت پر اعتراض نہیں ہو گا۔ جب دیگر سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر ان کی پارٹی میں وہ بندے داخل کرا رہی ہوں تو یہ خوش ہوں گے۔ خود کو بڑا پلیئر آف دی گیم سمجھ کر ایسے ایکٹ کریں گے جیسے یہ سب کرشمہ ان کی ذہانت کی وجہ سے ہوا ہے۔ مقتدرہ کے ذریعے مخالفوں کا جینا حرام کر دیں گے۔وزیراعظم بنتے ہی جب خود کو طاقتور اور آزاد بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں یاد دلانا پڑتا ہے کہ سرکار یہ تخت کچھ اور لوگوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اگر انہوں نے چھوڑ دیا تو آپ دھڑام سے نیچے آن گریں گے۔
بینظیر بھٹو‘ نواز شریف اور اب عمران خان بھی اس طرح نیچے گرے ہیں کہ جن کے کندھوں پر چڑھ کر وہ اقتدار میں گئے تھے انہوں نے نیچے سے اپنے کندھے ہٹا لیے اور آپ نیچے جا گرے۔ اگر آپ کی اتنی طاقت ہے تو پھر اترانے کا کیا فائدہ؟ آپ میں سے بہت سے لوگ کہیں گے وزیراعظم لوگوں کا نمائندہ ہوتا ہے‘ اس کی بات کو وزن ملے نہ کہ غیر سیاسی ایکٹرز وزیراعظم کو ڈکٹیشن دینا شروع کر دیں اور وہ اگر ان کی نہ مانے تو اسے کان سے پکڑ کر نکال دیں۔لیکن یہ اس وقت ہوگا جب آپ سودے بازی کر کے وزیراعظم نہیں بنیں گے‘ کلین ہوں گے۔ پارلیمنٹ کو چلانے کے لیے مقتدرہ کی مدد نہیں لیں گے‘ اپنے پارلیمانی بلز خود پاس کرائیں گے اور سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ کو اہمیت دیں گے۔
نواز شریف وزیراعظم تھے تو وہ آٹھ آٹھ ماہ تک اسمبلی نہیں گئے۔ سینیٹ ان کا ایک سال جانا نہیں ہوا۔ عمران خان بھی اسی راستے پر چلے اور بھول کر اسمبلی نہ جاتے تھے۔ جب آپ خود پارلیمنٹ کی بے توقیری کریں گے تو پھر آپ کی عزت دیگر ادارے بھی نہیں کریں گے۔ جب اداروں کو علم ہوگا کہ آپ کے خاندان کے لوگ ہیرے کی انگوٹھیاں‘ چار پانچ سو کنال زمین ایک سیٹھ سے عطیہ کے طور پر لے کر جواباً اسے پچاس ارب کا فائدہ دے رہے ہیں تو پھر آپ کی کوئی عزت نہیں کرے گا۔ کوئی آپ کو اصلی وزیراعظم نہیں مانے گا‘ یا لندن فلیٹس نکل آئیں گے تو بھی آپ اپنی عزت کھو بیٹھیں گے۔ عزت اور طاقت کمائی جاتی ہے۔ پلیٹ میں رکھ کر کوئی پیش نہیں کرتا۔وہی بادشاہ کا اپنے بیٹے سے کہا گیا جملہ ہمارے ہر وزیراعظم پر فٹ آتا ہے کہ آپ لوگ وزیراعظم میٹریل نہیں ہوتے لیکن وزیراعظم ہاؤس میں کچھ عرصہ تک اچھی اداکاری کرتے رہتے ہیں جس پر یقینا انہیں آسکر ملنا چاہئے لیکن باہر نکلتے ہی رولا ڈال دیتے ہیں کہ ہم تو وزیراعظم تھے ہی نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved