تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     14-10-2022

خیالِ یار کا موسم

انسان فطرتاً جلد باز ہے، جلد اُکتا جاتا ہے۔ یہ تبدیلی چاہتا ہے‘ سوچ میں، خیال میں، ماحول میں، کھانے پینے میں، لباس میں، درجہ حرارت اور معمولات میں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو بہت حسین اور متوازن بنایا ہے اور اس کو چلانے، سجانے اور سنوارنے کیلئے موسموں میں امتزاج رکھا ہے تاکہ یکسانیت نہ رہے۔ انواع و اقسام کے حسین موسموں، نظاروں اور بدلتی رُتوں کے ساتھ بدلتے خوشگواراحساسات اور خوشیوں سے زندگی کے حقیقی معانی آشکار ہوتے رہیں۔ ہماری روز مرہ زندگی کے معمولات ہمارے اندر کی گھڑی کے ساتھ سیٹ ہوتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ''سرکیڈین کلاک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کلاک سورج کے طلوع و غروب اور چوبیس گھنٹوں کے قدرتی سائیکل سے جڑی رہتی ہے۔ یہ ہماری جسمانی و ذہنی صحت، رویوں اور موڈ میں تبدیلی سے وابستہ ہے۔ انسانی زندگی قدرت کی عظیم تخلیق ہے جو طاقتور خود کار نظام سے منسلک ہے۔ رات کا دن میں بدلنا، موسموں کی تبدیلی اور درجہ حرارت کا گھٹنا‘ بڑھنا ہمارے مزاج پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دنیا کی رنگینی خوبصورت اور انواع و اقسام کے مظاہرِ فطرت، تخلیقات اور رنگوں سے عبارت ہے۔ ان رنگوں میں فطرت کی گہرائیاں چھپی ہوئی ہیں۔ تخلیقِ کائنات پر غور و فکر اور تحقیق سے انسان ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ قدرت نے سات براعظم، سات سمندر، سات سُر اور سات آسمان پید کیے ہیں۔ سورج کے گرد گردش کرتے سیاروں اور آفاق پر تاروں، کہکشائوں کی انجمن سجادی ہے اور یہ تھال زمین پر الٹ دیا ہے۔ ان سب کے اپنے مقررہ محور اور راستے ہیں۔ انسان نے کائنات میں چھپے اَسرار و رموز پر تحقیق کی اور حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
پوری دنیا کی آب و ہوا اور موسموں میں تنوع ملے گا۔ عمومی طور پر چار موسم؛ بہار، گرما، خزاں اور سرما ہوتے ہیں مگر جنوبی ایشیا میں برسات (مون سون)کا موسم بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ موسم کے رنگ ہمارے اندر کے موسم سے جڑے ہیں۔ ان دنوں پاکستان میں خزاں کے رنگ چھائے ہوئے ہیں۔ صبح خنک اور شام اداس نظر آتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق خزاں میں پتوں کے سبز سے زرد ہو کر شاخوں سے ٹوٹ جانے کا تعلق براہِ راست درجہ حرارت اور دن کی طوالت سے ہے۔ یہی وجہ ہے جب طوفانی ہوائیں چلتی ہیں تو ٹہنیوں سے پتوں کا ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن اس سال خزاں کی دستک تھوڑی مدہم ہے کیونکہ درختوں کے اکثر پتے ابھی ہرے ہیں اور کہیں کہیں زردی مائل ہو چکے ہیں۔ خزاں کے رنگ انوکھے انداز لیے ہوتے ہیں۔ سرخ، نارنجی، پیلے، بھورے اور تانبے کی رنگت جیسے، خاص طور چنار کے پتے تو آگ کے شعلوں کا رنگ پہن لیتے ہیں۔ جب ہوا ان میں سے سرسراتے ہوئے گزرتی ہے تو گویا شعلے لپکتے محسوس ہوتے ہیں۔ خزاں میں پتے زمین پر گرتے ہیں اور خشک ہو کر مٹی سے گلے مل کر فنا ہونے کا غم مناتے ہیں۔ درست کہا گیا کہ ''خزاں کے موسم کو سورج کی روشنی سے اتنا پیار ہے کہ وہ ہر پتے میں رنگ بھرتا ہے‘‘۔خزاں کے رنگ خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
پوری دنیا‘ خاص طور پر امریکہ میں خزاں کے موسم میں اکثر امریکی آبادیوں سے باہر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں۔ وہ نیشنل پارکس اور جنگلات کا رخ کرتے ہیں۔ پیلے اور زرد رنگوں کو کیمرے کی آنکھ اور کینوس کے سینے پر اتار کر خزاں کے حسین فطری نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کیلئے یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ امریکہ کے کئی علاقوں میں خزاں رُت بہار سے بھی زیادہ دلکش اور دلفریب ہوتی ہے۔ گویا پورا ماحول ہی رنگوں کی قبا اوڑھ لیتا ہے۔ اگر اپنے وطنِ عزیز کی بات کی جائے تو ملک کا ہر گوشہ فطرت کے حسین نظاروں کا شاہکار ہے لیکن گلگت بلتستان کی وادیٔ ہنزہ میں فطرت کے بدلتے رنگ ایسے نظارے ہیں کہ سیاح کھنچے چلے جاتے ہیں۔ پہاڑوں سے ابھرتی سورج کی کرنیں اور زمین پر بچھی سنہری پتوں کی چادر وادی کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ باغات، گلیوں اور سڑکوں پر بکھرے زرد پتے کیمرے کی آنکھ میں قید کر لینے کیلئے اس سے اچھا موسم کوئی نہیں۔ مقامی لوگ اس موسم میں کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ ہر طرف زندگی محوِر قصاں ہوتی ہے۔ یہاں کے مہمان نواز لوگ فرحت اور شادمانی اپنے حسین و جمیل چہروں پر لیے رباب کی دھنیں بکھیر کر اپنے مہمانوں کا پُرجوش استقبال کرتے ہیں۔ اس سنہرے نرم گرم موسم کے شاہانہ مزاج کے باوجود خزاں کو ہجر، غم اور تنہائی کے استعاروں میں لیا جاتا ہے۔ خزاں کی شامیں کیوں اداس کرتی ہیں؟ دن کیوں خاموش اور راتیں کیوں گہرے راز لیے محسوس ہوتی ہیں؟ اس کی سائنسی وجوہات کو جھٹلانا ممکن نہیں مگر اس موسم میں شعرا اور ادبا نے وہ ادب پارے اور شعری مجموعے تخلیق کیے ہیں کہ بہار کی شہنائی خزاں کے دلربا نغمات میں ڈوبتی دکھائی دیتی ہے۔ انسانی زندگی کا مستقل کوئی رنگ، کوئی ذائقہ اور کوئی موسم نہیں۔ لمحہ بہ لمحہ اس کے رنگ اورمحسوسات بدلتے ہیں۔ دراصل یہ بدلتی کیفیات ہی اس کے اصل رنگ ہیں۔ خوشی کے لمحے عارضی اور جلد گزرجانے والے جبکہ ملن کی امید اور وصل کی گھڑی کا انتظار پُر کیف ہوتا ہے۔ سرد موسم کی طویل راتیں، خمار آلود گہری شامیں، خنک صبحیں ہمیشہ اداسی کا سبب بنتی ہیں۔ انگریزی شاعر تھامس اپنی ایک نظم میں کہتا ہے ''ستمبر کا آخری پھول باغ میں اکیلا ہے۔ اس کے تمام خوبصورت ساتھی پھول مر جھا چکے ہیں یا مر چکے ہیں‘‘۔ جان کیٹس نے بھی موسم خزاں کی خوبصورتی اور دلکشی، اس کے پھولوں، پھلو ںاور مختصر دنوں کو بیان کیا۔ جان کیٹس کی زندگی اور شاعری میں خزاں کے رنگ نمایاں تھے۔ اس کی رومانوی شاعری نے خزاں کو شاعرانہ پیرائے میں بیان کر کے اس کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ اس کی نغمگی اور ترنم کے ساتھ مصورانہ تصویر کشی اور زمین کے ساتھ والہانہ محبت نے اسے عالمی شہرت یافتہ اور مستند ادب پارہ بنا دیا۔
خزاں رُت اداسی کا استعارہ ہے تو بہار کی آمد کی پیشگی اطلاع بھی ہے۔ اس کے دامن میں موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی واضح علامت اور روشن ثبوت موجود ہیں۔ قربانی، ایثار اور دنیا کی بے ثباتی کی گہرائی میں چھپا وہ راز جو بانسری کے اداس سروں میں ماحول کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔ خزاں کے اداس موسم میں رُباب کے تاروں سے بلند ہونے والا سُر ہمیں درد سے آشنا کر تا ہے۔اس کے ایک سرے پر زندگی کا آغاز تو دوسرے پر زندگی کے اختتام کی طرف بڑھتا سفر مگر بیچ میں خوشی، امید، محبت، ملن، جدائی کا غم اور موت کا ڈر موجود ہیں۔ ایک بہار سے خزاں کا آخری گیت، پھر سردرُت کے کُہرے اور برف کے نیچے دبی زندگی کی عارضی موت، صبر اور تکلیف کے بھاری لمحات، سرد موسموں کے بے رحم تھپیڑے مگر سورج کی کرنیں نویدِ بہار کا پیام بن کر دور ہمالیہ کی گود میں جمی ندی کے کان میں سرگوشی کرتی ہیں۔ اس کو نیند کی خوابیدہ حالت سے جگاتی ہیں تو اس کی آنکھ سے پہلا قطرہ آنسو کی صورت میں بہتا ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زندگی خوشی سے جھوم اٹھتی ہے۔ بہار کی آمد کا اعلان اور پھر جشنِ نو روز شروع ہو جاتا ہے۔ درحقیقت یہی زندگی کا چکر ہے جو گول گول گھوم رہا ہے۔ ایک بہار سے دوسری بہار کے بیچ خزاں کے دکھ اور ان کا مداوا، سب کچھ اسی گول چکر میں چھپا ہے۔ انسان قدرت کے اس نظام کے ساتھ اتنا مانوس ہو چکا ہے کہ اب موسموں کے تغیر اس کو پریشان نہیں کرتے۔ خزاں رُت کے رنگوں نے ہماری زندگیوں کو حسن و عشق، وار فتگی، محبت اور دلکشی سے نوازا ہے۔ انہی خوبصورت رنگوں کو امجد اسلام امجدؔ نے اپنی ایک نظم میں خیالِ یار کے موسم سے منسوب کیا ہے:
خوشبو کی پوشاک پہن کر کون گلی میں آیا ہے!
کیسا یہ پیغام رساں ہے کیا کیا خبریں لایا ہے!
کھڑکی کھول کر باہر دیکھو!
موسم میرے دل کی باتیں، تم سے کہنے آیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved