کوئی نہیں کہہ رہا کہ عمران خان پوتر ہے اور دودھ کا دھلا ہوا۔ غلطیاں اُس نے کیں اور اپنے تناظر میں وہ غلطیاں کوہ ِہمالیہ جیسی تھیں۔مقتدرہ کا وہ پروردہ رہا‘ پروردہ کیا‘ صحیح لفظ ڈارلنگ ہے۔ کوئی انکاری نہیں کہ اُس کے لانے میں مقتدرہ کی قوتوں کا ہاتھ تھا۔لیکن جب ہٹایا گیا تو اُس کی ایک خوبی نے اُس کے تمام گناہ دھو ڈالے۔ گھٹنے ٹیکنے یا چپ سادھنے کے بجائے وہ میدان میں اترکر ڈٹ گیا۔ پاکستانی عوام اُس کی امریکہ کہانی پر نہ مری بلکہ اُس کی یہ خوبی کہ اُس نے طاقتوروںکو للکارا‘اس ایک چیز نے عوام کے دل موہ لیے۔یہی باعثِ تشویش ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔
طاقتور حلقے کیا کرتے ہیں ہم سب جانتے ہیں۔ اُن کی سیاست میں دلچسپی کوئی نئی بات نہیں۔اُن کی ہمیشہ مرضی رہی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ وہی ہوں‘ کرسی پر جو بیٹھا ہو اُس کے پیچھے وہ کھڑے ہوں اور اُن کی سوچ اور ترجیحات ہی ریاستی سوچ اور ترجیحات کہلائیں۔یہ کہانی پرانی ہے اور اس میں اچنبھے کی بات کچھ بھی نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ طاقتوروں کے سامنے یا تو لوگ مارے جاتے رہے ہیں جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو یا اُنہوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ حالات سے سمجھوتا کر لیا جائے‘ جیسا کہ نوازشریف نے کیا۔ جو مارے گئے وہ تو مارے گئے اور جنہوں نے حالات سے سمجھوتا کیا سیاسی طور پر وہ چھوٹے ہو گئے۔ عوام اُن کے پیچھے کھڑے نہ ہوئے۔ نوازشریف نے بھی للکارا مارا تھا کہ ووٹ کو عزت دو لیکن اسلام آباد سے جی ٹی روڈ پر آئے تو عوام نے اُن کی وہ پذیرائی نہ کی جس کا حقدار وہ اپنے آپ کو سمجھتے تھے۔مریدکے‘ کامونکے تک پہنچے تو ظاہر ہونے لگا کہ عوامی جذبہ وہ نہیں جس کی امیدیں کی جا رہی تھیں۔ نوازشریف داتادربار تک پہنچے تو گلا اور حوصلہ‘ دونوں بیٹھ چکے تھے۔
عمران خان کا انداز مختلف رہا ہے۔ ہٹائے جا رہے تھے تو اُن کی آنکھوں میں مزاحمت نظر آ رہی تھی۔ہٹائے جاچکے تو تمام احتیاط پرے کرتے ہوئے وہ کھل کر بولنے لگے۔اُن کی یہی ادا عوام کو پسند آئی اور اُن کے جلسے ریکارڈ جلسے ہونے لگے۔طاقتوروں کی پریشانی کی وجوہات دو ہیں۔ ایک یہ کہ جن کو عمران خان کی جگہ لایا گیا وہ پہلے دن سے نہایت کھوکھلے ثابت ہوئے۔معیشت نیچے جانے لگی اور ڈالر کم ہوتے گئے۔ دوسری پریشانی کا باعث یہ تھا کہ عوام عمران خان کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ عمران خان نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ حکومتی بندوبست اور اس کے ہتھ رکھوں کے ایسے لتے لیے گئے کہ جہاں عوام جھومے‘ طاقتوروں کے پسینے بھی چھوٹے۔عمران حکومت ہٹانے کی واردات تو ہوچکی تھی لیکن اب سنبھالی نہیں جا رہی تھی اور عوام ایسے بپھرے ہوئے کہ ہر طرف سے مخالفانہ اور طنز سے بھری پھبتیاں کسی جانے لگیں۔
طاقتوروں کے ساتھ کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ 1970-71ء کی شیخ مجیب الرحمن کی تقریریں سن لی جائیں۔شیخ مجیب جنرل یحییٰ کے بارے ایسا کبھی نہ بولے جس انداز سے عمران خان اپنے جلسوں میں خطاب کر رہے تھے۔ ایک اور بات بھی ہے۔ المیۂ مشرقی پاکستان کے وقت ذرائع ابلاغ حکومت کے کڑے کنٹرول میں ہوا کرتے تھے۔ آج کے ذرائع ابلاغ ایسے ہیں کہ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے جوکچھ اوپر کے حلقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے ایسی باتیں ہماری تاریخ میں پہلے نہ کبھی کہی گئیں نہ سنی گئیں۔
اس صورتحال کی وجہ کیا بنی ہے ؟ صرف ایک شخص کا ڈٹ جانا۔عمران خان بکری بن جاتے‘ اُن کی آنکھوں میں وہ آگ نہ ہوتی تو مسئلہ کیا تھا؟ سب کچھ رک جاتا‘ قوم کی بیزاری بڑھ جاتی‘ یہ احساس تقویت پکڑتا کہ یہ ایک بھیڑوں کا ریوڑہے اور اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جائے چل جاتا ہے۔ایسی صورت میں اکابرینِ ملت کی مسکراہٹیں ایسی ہوتیں کہ تھمنے نہ پاتیں۔یہ بھی کہا جاتا کہ عمران خان اپنا ہی آدمی تھا اور حالات کی نزاکت کو سمجھ چکا ہے۔ لیکن یہاں پر سب کچھ الٹا ہو گیا۔ کل کا ڈارلنگ آج کا تابعدار ثابت نہ ہوا۔ اگلوں کوللکارا بھی اُس نے ایسا کہ عوام کا جوش و جذبہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔تاثر یہ پیدا ہونے لگا کہ جس کا انتظار تھا وہ آ گیا ہے۔ دورانِ اقتدار عمران خان کی تمام کوتاہیاں اور غلطیاں بھلا دی گئیں۔ عوام کو روپے کی گراوٹ نہ طوفانِ مہنگائی یاد رہا۔ وہ صرف یہ دیکھ رہے تھے کہ سب قوتیں ایک طرف کھڑی ہیں اور اُن کے مقابلے میں ایک شخص کھڑا ہے اور دبنے کے بجائے اُنہیں للکار رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں کچھ قدرت کا ہاتھ بھی تھا کہ اکیلا کھڑا ہونے والا شخص شکل‘ چال اور ادا سے اچھا لگنے والا تھا۔ ایسی چیز کا تجزیہ انسان کیا کرے۔ شخصیت میں کشش ہوتی ہے یا نہیں۔ ہاتھ پھیلانے سے یہ کشش ملتی نہیں‘ قدرت کی عطا کردہ ہے۔
عمران خان پر کتنے الزام لگے‘ توشہ خانہ سے لے کر پتا نہیں کس کس چیز تک۔ لیکن کسی ایک الزام کا بھی اثر عوام کے موڈ پر ہوا ہے؟ چھ ماہ سے حکومتی مشینری اور وفاقی وزیر دن رات پکار رہے ہیں کہ عمران خان نے یہ کیا‘ وہ کیا اور عوام ہیں کہ کسی ایک چیز پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ عوام صرف ایک چیز دیکھ رہے ہیں کہ دبنگ ہے اور طاقتور حلقوں کے خلاف میدان میں کھڑا ہے۔
پریشانی یہ بھی ہے کہ عمران خان کے ساتھ وہ نہیں کیا جاسکا جو ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ہوا۔بھٹو پر قتل کا مقدمہ لگا دیا گیا تھا اور گو اُن کی عوامی مقبولیت بہت تھی اُن کے حامی کچھ کر نہ سکے۔ فرق صرف اس بار یہ ہے کہ پاکستانی اشرافیہ جو پہلے ہمیشہ طاقتوروں کے ساتھ ہوتی تھی‘ تقسیم ہو چکی ہے۔ اشرافیہ کے بڑے بڑے حصے عمران خان کے حمایتی ہیں۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس‘ بڑے عہدوں پر براجمان لوگ اور اُن کے خاندان‘ خواتین اور نوجوان۔ یہ سب آج کے کاروانِ مزاحمت کے حصہ دار ہیں۔عمران خان ایک جلسے کا اعلان کرتا ہے اور مقررہ دن اور وقت پر لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ گھنٹوں پہلے پہنچے ہوتے ہیں۔یعنی عمران خان کی حمایت مختلف رنگوں پر مشتمل ہے‘ مزدور طبقات کے ساتھ اشرافیہ کے لوگ۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا‘ اسی لیے بہت سوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔
اور کیا کیا جا رہا ہے ؟ فلاں کو اٹھا لو‘ فلاں پر مقدمہ بنا دو۔ کل شہباز گل تھا‘ آج اعظم سواتی۔ ایسے ہتھکنڈے کامیاب تو تب کہلائیں اگر لوگ دب جائیں‘ زبانیں بند ہو جائیں‘ ہونٹ سل جائیں۔لیکن جس کو دیکھو دبنے کے بجائے آوازیں کس رہا ہے۔ لندن میں جہاں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس واقع ہیں اُس سے پُرتعش علاقہ لندن میں اور کوئی نہیں۔لیکن یہ پاکستانی عوام کا موڈ بن چکاہے کہ نوازشریف اور ا ُن کی فیملی کووہاں بھی آرام میسر نہیں۔ نکلنے سے ڈرتے ہیں کہ نعرے نہ لگیں‘ کچھ کہا نہ جائے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ ایسی دولت کا فائدہ کیا۔ اسحاق ڈار واشنگٹن کے دور ے پر جاتے ہیں اور ایئرپورٹ پر کوئی آوازے کس دیتا ہے اور ساری دنیا میں یہ نظارہ وائرل ہو جاتا ہے۔
لیکن شریف زادے بھی اتنے بیوقوف نہیں۔ قوم کا حال جو بھی ہو اُن کے اُلو تو سیدھے ہو رہے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز جنہیں معصوم شاہ ہی کہنا چاہئے‘کا منی لانڈرنگ کا بڑا مقدمہ ختم ہو گیا ہے۔ عدالت نے فرمایا کہ استغاثہ کچھ ثابت ہی نہ کرسکا۔ یہ تماشے کیا عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved