تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     30-08-2013

کتاب

ابنِ انشا نے اپنی تصنیف ’’اردو کی آخری کتاب ‘‘ میںپاکستان اور بھارت کے جو ’’نقشے‘‘ 1970ء میں کھینچے تھے‘ دونوں ملک آج بھی سماجی ،معاشرتی اورریاستی شعور کی اسی منزل پر براجمان ہیں۔ اس وقت بھارت کی مجموعی آبادی ایک ارب 30کروڑ سے زیادہ بیان کی جاتی ہے ۔آبادی کے ’’محاذ‘‘ پر پاکستان بھی بھارت سے پیچھے نہیںہے۔سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے منہ سے آبادی کے حوالے سے سچ نکل گیاتھاجس سے پتہ چلاتھاکہ ہم پاکستانیوں نے بھی آبادی کی ’’مہابھارت‘‘ جیت کر اپنے آپ کو 21کروڑ کرلیاہے ۔دونوں ملکوں کے ڈیڑھ ارب سے زائد عوام بنیادی انسانی سہولتوں سے عاری زندگی گذار رہے ہیں۔ دونوں دیسوں کے دکھیارے عوام کے پاس روٹی ،کپڑا، مکان ،صحت ، علاج معالجہ اورتعلیم میں سے کچھ بھی نہیںہے ۔ خطے میں بسنے والے عوام کے پاس اگر کچھ ہے تو ’’نیشنل ازم اور غیرت ‘‘کے نعرے ہیں۔ بھارت میں یہ نعرے ’’مدر انڈیا ‘‘ سے لے کر ’’بھاگ مِلکھا بھاگ‘‘ تک لگائے جارہے ہیںاورپاکستان میں یہ جذبہ جہادی تنظیموں کے جلسوں اورریلیوں کے علاوہ حب الوطنی پر مبنی ملکہ ترنم نورجہاں، مہدی حسن اورپاپ سنگرز کے گائے ملی نغموں سے اُبھارا جاتاہے۔ گذرے سالوں میں مجھے کئی بار بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ممبئی بھارت کا وہ شہر ہے جہاں گذشتہ 70سال سے فلم والے لنگر انداز ہیں اور60ء کی دہائی میں اسے بالی وڈ کانام دیا گیا تھا۔ بالی وڈ کو بھارت میں وہی اہمیت حاصل ہے جوہمارے ہاں بعض ریاستی اداروں کونصیب ہے۔ بھارت اورپاکستان کو علیحدہ ہوئے 66برس بیت گئے اور اتنا ہی عرصہ انہیںباہم لڑتے جھگڑتے ہوگیاہے۔ ہمارے شعور اور لاشعور میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ بھارت ہمارا دشمن ہے ۔ تنازعہ کشمیر کے علاوہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا قصور وار بھی بھارت کو قرار دیاجاتاہے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ مشرقی پاکستان میں لسانیت سے لے کر محرومیوں کی تمام آگ مغربی پاکستان کے مقتدر حلقوں نے خود لگائی تھی۔ بھارت نے جلتی پر تیل چھڑکا تھا۔ ابن ِانشا کی لکھی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ کا پہلا ایڈیشن جولائی 1971ء میں شائع ہواتھا۔ابن انشا کی کتاب یوں تو طنز ومزاح کے لہجے میں لکھی گئی مگر بین السطور پاکستان اوربھارت کے حکمران طبقات اورعوام کی سوچ کو جھنجھوڑا گیاتھا۔ابن ِانشا نے پاکستان کے حوالے سے لکھاتھا کہ ’’ پاکستان کے مشرق میں سیٹو ہے، مغرب میں سنٹو ،شمال میں تاشقند اورجنوب میں پانی ہے یعنی جائے مفر کسی طرف نہیں۔پاکستان کے دوحصے ہیں۔ مشرقی پاکستان اورمغربی پاکستان۔ یہ ایک دوسرے سے بڑے فاصلے پر ہیں۔کتنے بڑے فاصلے پر؟ اس کا اندازہ اب ہورہا ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا حدود اربعہ بھی ہے۔مغربی پاکستان کے شمال میں پنجاب، جنوب میںسندھ ،مشرق میں ہندوستان اورمغرب میں سرحد اور بلوچستان ہیں،یہاں پاکستان خود کہاں واقع ہے اورواقع ہے بھی کہ نہیںاس پر آج کل ریسرچ ہورہی ہے۔‘‘ ابن انشا نے بھارت سے متعلق لکھا تھاکہ ’’یہ بھارت ہے۔ گاندھی جی یہیں پیدا ہوئے تھے۔لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کو مہاتما کہتے تھے چنانچہ مار کر ان کو یہیں دفن کردیا اورسمادھی بنادی۔ دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہیںتو اس پر پھول چڑھاتے ہیں۔اگر گاندھی جی نہ مرتے یعنی نہ مارے جاتے توپورے ہندوستان میں عقیدت مندوں کے لیے پھول چڑھانے کی کوئی جگہ نہ تھی۔یہی مسئلہ ہمارے یعنی پاکستان والوں کے لیے بھی تھا۔ ہمیں قائداعظم کا ممنون ہوناچاہیے کہ خود ہی مرگئے اورسفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کی ایک جگہ پیدا کردی ورنہ شاید ہمیںبھی ان کومارنا ہی پڑتا۔ بھارت بڑا پُرامن ملک ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اکثر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس کے سیز فائر کے معاہدے ہوچکے ہیں۔ 1965ء میں ہمارے ساتھ ہوا ،اس سے پہلے چین کے ساتھ ہوا۔ بھارت کا مقدس جانور گائے ہے۔بھارتی اسی کا دودھ پیتے ہیں‘ اسی کے گوبر سے چوکا لیپتے ہیں اوراسی کوقصائی کے ہاتھ بیچتے ہیں ٗ کیونکہ خود وہ گائے کو مارنایاکھاناپاپ سمجھتے ہیں۔ آدمی کوبھارت میں مقدس جانورنہیںگنا جاتا۔ بھارت کے بادشاہوں میں راجہ اشوک اورراجہ نہرومشہور گزرے ہیں۔اشوک سے ان کی لاٹ اوردہلی کا اشوکا ہوٹل یادگار ہیںاورنہروجی کی یاد گار مسئلہ کشمیر ہے‘ جو اشوک کی تمام یادگاروں سے زیادہ مضبوط اورپائیدار معلوم ہوتاہے۔راجہ نہرو بڑے دھرماتما آدمی تھے۔صبح سویرے اٹھ کر شیر شک آسن کرتے تھے۔ یعنی سرنیچے اورٹانگیں اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے ۔رفتہ رفتہ ان کو ہرمعاملے کو الٹا دیکھنے کی عادت ہوگئی ۔حیدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعایاکے نقطہ نظر سے دیکھا اورکشمیرکے مسئلہ کو راجا کے نقطہ نظر سے ۔یوگ میں طرح طرح کے آسن ہوتے ہیں۔ ناواقف لوگ ان کو قلابازیاں سمجھتے ہیں۔نہروجی نفاست پسند بھی تھے ۔دن میں دوبار اپنے کپڑے اورقول بدلاکرتے تھے۔‘‘ 2004-5ء کے اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی ایک ارب 20کروڑ سے زائد آبادی میں سے 83کروڑ افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ممبئی کے عین وسط میں تین جھونپڑ پٹیوں دراوی، آندھیری اور کرلا کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ بھارتی معیشت کی شرح نمو مسلسل گرتے ہوئے 10سے پانچ فیصد سالانہ تک آگئی ہے۔ خطے میں ایٹمی قوت اور ابھرتی ہوئی سپر طاقت یہ دعویٰ تو کرتی ہے کہ ان کے ہاں ایک بھارتی کی اوسط کمائی ایک سے ڈیڑھ ڈالر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہروں میں زندگی گذارنے والے بھارتی کی روزانہ کمائی 35روپے ہے جبکہ دیہاتوں میں جینے والے بھارتی 27 روپے دیہاڑی ہی کماپاتے ہیں۔دوسری طرف بھارت کی اشرافیہ اورحکمران طبقوں کا یہ حال ہے کہ بہاری لیڈر لالو پرشاد اکیلے ہی گائوں بھینسوں کے چارے میں سے 90ارب روپے ڈکار چکے ہیں۔بھارتی لو ک سبھا اورراجیہ سبھا میں جلوہ گر 87 لیڈ روں پر کرپشن سمیت سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں بھی غربت اوردکھوں کے سیلاب اورسونامی آئے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بھی غربت بال کھولے ناچ رہی ہے لیکن افسوس کہ غربت کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے ہمیں بھارت کے ساتھ جنگ کرنے پر اکسایا جارہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20کروڑ روپے سے زائد بیان کی جاتی ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کے 78فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔وطن عزیز میں رہنے والے 82فیصد لوگ غیر سائنسی طریقہ علاج اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے ملک میں پیدا ہونے والے 60فیصد بچے پرائمری سکولوں تک بھی نہیں پہنچ پاتے ۔ہمارے ہاں پڑھا لکھا پنجاب اور عقل ودانش کے زیور سے آراستہ کرتے سکول شہروں اور دیہاتوں کے بجائے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اورانڈیاکا شمار دنیا کے ان پہلے پانچ ممالک میں ہوتاہے جو اسلحہ کے بڑے خریدار ہیں۔دونوں ممالک امریکہ ، چین ،روس اوریورپی ممالک سے خریدتے ہیں۔گذشتہ چند سالوں سے چین اسلحے کا بڑا برآمدکنندہ بن چکا ہے جبکہ ہم اس کے درآمد کنندہ ہونے کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے سامنے ’’خوشامدکنندہ‘‘ بن چکے ہیں ۔بھارت دنیاکی 20فیصد آبادی پر مشتمل ملک ہے جبکہ دنیا بھر کی غربت میں سے اس کاشیئر 40فیصدہے۔پاکستان اوربھارت دونوں کے پاس ایٹم بم اور ایٹمی اسلحہ موجود ہے ۔ایٹم بم کے ایک ’’نسخے‘‘ پر کتنا خرچہ آتاہے اس کی تفصیل ہمیں معلوم نہیں‘ لیکن بیان کیاگیاہے کہ دنیا سے غربت ختم کرنے کے لیے جتنے سرمایے کی ضرورت ہے اس سے 83گنا اسلحہ خریدنے پر صرف کیاجاتاہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر اچن ونائیک کا کہناہے کہ دونوں ممالک نے ایٹم بم بنانے میں جس قدر سرمایہ صرف کیا ہے اس سے خطے کے غریب انسانوں کی بھوک ختم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں علاج معالجہ کی سہولت بہم پہنچائی جاسکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا…کاش! دونوں ملکوں کے عوام پر حکومت کرنے والے کوئی ایسی کتاب بھی پڑھیں جس میں لکھا ہو کہ ریاست اورحکومت کی سب سے اہم ترجیح جنگ نہیں بلکہ عوام کو ایک خوشحال پُرامن زندگی بہم پہنچانا ہوتاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved