خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے بھارت سے
مذاکرات پر تیار ہوں: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے بھارت سے مذاکرات پر تیار ہوں‘‘ کیونکہ اگر وہ متنازع معاملات پر بات نہیں کرنا چاہتا تو کوئی بات نہیں اور میں ان کا ذکر بھی نہیں کر رہا جبکہ بھائی صاحب کی ہدایت یہی ہے کہ محتاط بیان دیا جائے جو کسی کو بھی برا نہ لگے، نیز اس وقت بھارت بھی کافی مشکلات کا شکار ہے اس لیے ہم دونوں کو مل کر خوشحالی کے لیے مذاکرات کرنے چاہئیں لیکن شاید وہ اس پر بھی تیار نہ ہو کیونکہ اسے شک ہے کہ ہم باتوں باتوں میں کہیں تصفیہ طلب مسائل کا ذکر نہ چھیڑ بیٹھیں حالانکہ اس حوالے سے اسے مکمل طور پر مطمئن ہونا چاہیے، پہلے ہم بیٹھ کر بات چیت کریں گے‘ پھر مسائل کے حل کی طرف جائیں گے۔ آپ اگلے روز قازقستان میں سیکا کے سربراہی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
دستانے پہنے ہاتھ ڈیل اور ڈھیل کروا رہے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''دستانے پہنے ہاتھ ڈیل اور ڈھیل کروا رہے ہیں‘‘ کیونکہ اس قدر لتھڑی ہوئی چیز سے دستانے پہن کر ہی نمٹا جا سکتا ہے تاکہ ہاتھ آلودہ نہ ہو جائیں جبکہ صفائی ویسے بھی نصف ایمان ہے اور موجودہ زمانے میں اس کے بغیر کوئی گزارہ بھی نہیں ہے؛ تاہم ڈیل اور ڈھیل کے اس فریضے سے فارغ ہوتے ہی دستانوں کو اچھی طرح صاف کر لینا چاہیے تاکہ دوبارہ بھی پہننے کے قابل رہیں کیونکہ کافی ڈیل اور ڈھیل ابھی بقایا بھی ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کو ووٹ دینا ملک تباہ کرنے
کے مترادف ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو ووٹ دینا ملک تباہ کرنے کے مترادف ہے‘‘ تاہم ان کے امیدواروں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ عوام پر ہمارا اختیار آج کل ذرا کمی کا شکار ہے؛ تاہم یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کے جلسوں میں جوق در جوق شامل ہونے والے انہیں ووٹ بھی دیں گے جبکہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری کسی ایک پر عائد نہیں ہوتی اور ہر کوئی اس میں برابر کا حقدار ہے اور کسی کی بھی حق تلفی نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ہم اس کی اجازت دیں گے کیونکہ اپنا حق ہر کسی کو عزیز ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ آپ اگلے روز چارسدہ کے پڑانگ سٹیڈیم میں دیگر رہنمائوں کے ہمراہ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام کا ریاست پر بھی اعتماد ختم ہو رہا ہے: سراج الحق
امیرِ جماعتِ اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام کا ریاست پر بھی اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے‘‘ البتہ بلاناغہ تقریروں کے باوجود ان کا خاکسار پر اعتماد ابھی تک قائم ہے؛ تاہم میں ایک فہرست مرتب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اور کن کن چیزوں پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ صرف خون کی کمی کا شکار ہیں، اس لیے خون کی کمی کے ساتھ ساتھ انہیں ریاست اور دیگر چیزوں پر اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی بھی ضرورت ہے جبکہ ریاست کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرے جس کا بظاہر کوئی امکان نہیں نظر آ رہا۔ آپ اگلے روز ایک مقامی ہوٹل میں دیگر جماعتی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
افراتفری کی سیاست عمران خان کا ٹریڈ مارک
بھاگنے نہیں دیں گے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''افراتفری عمران خان کی سیاست کا ٹریڈ مارک ہے‘ بھاگنے نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ بھاگنا کوئی آسان کام نہیں ہے‘ اس کے لیے سو طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں حتیٰ کہ بیماریوں کی لمبی فہرست مرتب کرنا پڑتی ہے، تب کہیں جا کر بھاگنا نصیب ہوتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ عمران خان یہ خیال دل سے نکال دیں کیونکہ وہ اس کے لوازمات کبھی پورے نہیں کر سکتے اور اگر کوشش کریں گے بھی تو اس میں بری طرح ناکام ہوں گے، نیز اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ جہاں بھاگ کر جانا ہو وہاں کوئی گھر وغیرہ خرید کر اپنی رہائش کا پہلے سے کوئی انتظام کر لیا جائے۔ آپ اگلے روز پی پی 139 شیخوپورہ کے ضمنی انتخاب کے حلقے میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
وہ جس سے آخری انکار ہونے والا تھا
ابھی میں اس کا سزاوار ہونے والا تھا
وہیں پہ دوسرا بھی ہو گیا شروع جہاں
میں ایک خواب سے بیدار ہونے والا تھا
جہاں سے تم نے گزرنا تھا اور گزر نہ سکے
وہ راستا گل و گلزار ہونے والا تھا
اچانک آ لیا آرام نے مجھے‘ ورنہ
میں کام کے لیے تیار ہونے والا تھا
کچھ ایک بار بھی ہونا تھا جس کا ناممکن
وہی یہاں پہ لگاتار ہونے والا تھا
فضول ہی اسے ہم چھپ چھپا کے کرتے رہے
جو کام بر سرِ بازار ہونے والا تھا
تمام بے خبری میں گزر گئی مجھ پر
میں تھوڑا تھوڑا خبردار ہونے والا تھا
لگا دیا تھا محبت کے کام پر دل کو
پڑے پڑے ہی جو بے کار ہونے والا تھا
کسی کی یاد کہیں سے ٹپک پڑی تھی‘ ظفرؔ
میں اپنے آپ سے دوچار ہونے والا تھا
آج کا مطلع
ہزار بندشِ اوقات سے نکلتا ہے
یہ دن نہیں جو مری رات سے نکلتا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved