سابق وزیراعظم عمران خان اپنی سترویں سالگرہ کا کیک کاٹ چکے لیکن ان کی توانائی کو ماہ و سال نے متاثر نہیں کیا۔وہ اب بھی جوانوں بلکہ نوجوانوں کی طرح چوکڑیاں بھر رہے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ جو ٹھان لیتے ہیں‘وہ کر گزرتے ہیں۔کرکٹ اور سیاست دونوں میدانوں میں انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کی توقع نہیں کی جاتی تھی۔ ان کے گاڑے ہوئے جھنڈے دونوں جگہ موجود ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مداحوں کو سرشار رکھتے ہیں۔ان کی سیاسی زندگی کم و بیش ربع صدی کو محیط ہے۔اس دوران انہیں کئی صدمے بھی برداشت کرنا پڑے‘ ایک وقت تھا کہ ایک نشست جیتنے کے لیے بھی اُنہیں دن رات کو ایک کرنا پڑا تھا۔ کرکٹ فتوحات اور شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا کارنامہ بھی انتخابی کامیابی کا ضامن نہیں بن پا رہا تھا۔لوگ انہیں دیکھتے‘خوش ہوتے‘ چندہ دیتے‘ہار ڈالتے لیکن ووٹ دینے پر تیار نظر نہیں آتے تھے۔1997ء اور2001ء کے انتخابات اس کے شاہد ہیں۔کئی مبصرین اُس وقت یہ کہنے لگے تھے کہ جس طرح خدمت کے میدان میں لوگ جماعت اسلامی کے معترف ہیں‘ قربانی کی کھالیں اُسے پیش کرتے اور رفاحی کاموں کے لیے بڑھ چڑھ کر عطیات بھی دیتے ہیں لیکن ووٹ کسی اور کی نذر کر دیتے ہیں‘یہی سلوک عمران خان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سماجی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود ووٹ ان سے بچا کر رکھے جا سکتے ہیں لیکن عمران خان نے اس خیال کو غلط ثابت کر دکھایا۔ ان کی ہمت نے ہارنے سے انکار کیا‘منصوبہ سازی کی صلاحیت کام آئی یا قسمت نے یاوری کی‘جو کچھ بھی کہا جائے یہ ایک حقیقت ہے انہیں مسیحا سمجھ لیا گیا کہ نظریں ان پر جم گئیں۔وہ ایک ''وننگ کولیشن‘‘ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کا مقابلہ بنیادی طور پر مسلم لیگ(ن) سے تھا‘ پیپلزپارٹی تو سندھ تک محدود ہو چکی تھی‘ قومی سطح پر دوبارہ ابھرنا اس کے لیے آسان نہ تھا‘ بینظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں رہی تھیں‘آصف علی زرداری اپنی تمام تر ہوشیاری و بیداری کے باوجود عوامی رہنما بننے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے تھے۔ عمران خان میدان میں آئے اور نواز شریف کو نشانے پر رکھ لیا۔ آصف علی زرداری کے ساتھ ان کا ذکر کرنے اور ان پر جارحانہ حملے کرنے لگے۔ان کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی سکّے کے دو رخ تھے اور انہوں نے دونوں سے بیک وقت عہدہ برآ ہونا تھا۔نواز شریف نے2013ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر کے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنا لی تھیں جبکہ عمران خان خیبرپختونخوا میں ایوانِ اقتدار پر قبضہ کر چکے تھے۔اس وقت اگر مسلم لیگ (ن) چاہتی تو تحریک انصاف کے سارے مخالفین کو یک جا کر کے اس کا راستہ روک سکتی تھی۔ مولانا فضل الرحمن اسی کے داعی تھے لیکن نواز شریف نے تائید میں سر نہ ہلایا اور خیبرپختونخوا میں عمران خان کے وائسرائے کے طور پر پرویز خٹک متمکن ہو گئے۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اُس سب کو یہاں دہرانا مقصود نہیں ۔نواز شریف کے خلاف عمران خان نے ہر سطح پر جنگ لڑی۔ عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے‘اسمبلیوں میں ہنگامہ کیا‘ دھرنا دیا اور کاروبارِ زندگی کو مفلوج کرنے میں لگے رہے لیکن ان کی حکومت ختم نہ کر سکے۔نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے کر ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کیاتو عمران خان کے لیے راستہ خاصا صاف تھا۔ نواز شریف کو تاحیات انتخاب میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا‘ مسلم لیگ(ن) کی صدارت بھی ان کے پاس نہ رہنے دی گئی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے دستور کی دفعہ 184 کے تحت کسی وزیراعظم کے خلاف کارروائی تاریخ میں پہلی بار کی تھی۔ آج تک کسی سربراہِ حکومت کو اس طرح اقتدار کے ایوان سے رخصت نہیں کیا جا سکا تھا۔سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں تھی‘ سو یہ حتمی شکل اختیار کر گیا۔
عمران خان ان تمام طاقتوں کی آنکھ کا تارا بن گئے جن میں نواز شریف کھٹک رہے تھے۔ انہوں نے بار بار کہا کہ وہ پاکستان کو نئی رفعتوں سے ہم کنار کریں گے۔بیورو کریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا‘پولیس کو خود مختار ادارہ بنایا جائے گا‘قومی زبان کی ترویج ہو گی‘ نظام ِعدل میں اصلاحات ہوں گی‘ دنیا بھر سے سرمایہ کار پاکستان آئیں گے‘سمندر پار پاکستانیوں کے وسائل صنعتی ترقی کے لیے مختص ہوں گے‘ٹیکس چوری روک دی جائے گی‘محصولات کئی گنا بڑھ جائیں گے اور پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے گا جو اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے گا‘کشکول توڑ دیا جائے گا‘ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہو گا کہ خود کشی کر لی جائے۔تحریک انصاف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی تھے۔ کئی چھوٹی پارٹیوں کے تعاون سے نئی حکومت قائم ہو گئی۔ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بعدازاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی ان کا جھنڈا لہرانے لگا۔ کم و بیش چار سال عمران خان وزیراعظم رہے‘اس کے بعد ان کی کولیشن میں پھوٹ پڑ گئی‘ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور شہباز شریف نے وزارتِ اعظمیٰ کا منصب سنبھال لیا۔
عمران خان اپنے اقتدار کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات ہارتے چلے گئے تھے۔پنجاب میں ان کی حکومت اپنی ساکھ بچا سکی تھی‘نہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ان کا گراف گرتا گیا‘ان کی اپنی صفوں میں بے یقینی پیدا ہوتی گئی‘یہاں تک کہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔عمران خان اس پر اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا‘اپنے اقتدار کے خاتمے کو امریکی سازش کا نتیجہ قرار دیا ‘ امریکہ میں پاکستانی سفیر کے بھیجے گئے مبینہ مراسلے کو بنیاد بنا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ فوری انتخابات کا مطالبہ کرنے لگے‘وہ ''امپورٹڈ‘‘ حکومت کو ایک لمحہ بھی برداشت کرنے پر تیار نہیں تھے۔وہ دن جائے اور آج کا آئے‘ وہ سڑکوں پر ہیں۔قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے‘ لیکن سات نشستوں پر ضمنی انتخاب میں تنہا امیدوار کے طور پر سامنے کھڑے ہیں۔ دفاعی اداروں پر گرج برس رہے ہیں‘ان کے کئی پرجوش حامی حدود و قیود کو عبور کر رہے ہیں۔حکومت کے خاتمے کے لیے لانگ مارچ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور جواباً حکومت سے دھمکیاں وصول ہو رہی ہیں۔بڑے بڑے جلسوں نے خان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے‘وہ یہ بھی کہہ گزرے ہیں کہ ان کی حکومت میں اختیار ان کے پاس نہیں تھا‘ حکمرانی کسی اور کی تھی۔ان کے حامی انگشت بدنداں ہیں کہ وہ انہیں کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں؟ اپنا بھرم کیوں کھول رہے ہیں؟ اگر ان کی حکومت میں حکمرانی کسی اور کی تھی تو پھر وہ اس حکومت کے چھن جانے پر چراغ پا کیوں ہیں؟ایسی حکومت کو تو انہیں خود لات مار کر ایوانِ اقتدار سے باہر نکل آنا چاہیے تھا‘ اس کے غم میں دبلا ہونے کی ضرورت کیا ہے؟سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکمرانی کسی اور کی تھی تو پھر امریکہ کو ان کے خلاف سازش کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ خان صاحب کی ہر تقریر پہلی تقریر کا تاثر زائل کر رہی ہے‘ ان کا ایک بیانیہ دوسرے بیانیے کی نفی کر رہا ہے‘ان کی توانائی ان کے اپنے ہی خلاف استعمال ہو رہی ہے‘ اگر وہ اسی طرح ہوا میں تیر چلاتے رہے تو ترکش خالی ہو جائے گا اور کوئی گھائل بھی نہیں ہو گا‘ خالی ہاتھ تو تالی ہی پیٹ سکتے ہیں‘ سو پیٹتے رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved