آموں کے بارے میں غالب کا معروف جملہ ہے کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں ۔یہ جملہ بعض اوقات کسی شعری مجموعے پر بھی صادق آنے لگتا ہے ‘اگرچہ ہرکتاب اس جملے کی حقدار ہوبھی نہیں سکتی۔شاعری ہو یا نثر ‘ بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو خود کو پوری پڑھوانے کی طاقت رکھتی ہیں۔ گنی چنی کتابیں ہیں جنہیں ایک سے زیادہ بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے اور اگر کوئی تصنیف یہ کشش رکھتی ہے کہ وہ ہر چند سال بعد پڑھنے پربارِ اول جیسی تازگی اور لطف سے گزارے ‘تو اسے کلاسیک ہی میں شمار کرنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی میں ادب کے خاص قارئین کی کر رہا ہوں ‘ ہما شما کی نہیں ۔تربیت یافتہ دماغ اور شعر شناس دل شاعری کے فنی تقاضوں کو بھی جانتا ہے اور غزل اور نظم کے تازہ تر معیارات کو بھی ۔ لوگوں کے اِژدِہام میں اعلیٰ ذوق اور کمال تربیت والے لوگ کم کم ہوا کرتے ہیں ۔ یعنی ایسی کتابیں بھی خال خال اور ایسے لوگ بھی گنے چنے۔ جناب فیصل عجمی کی' سخن آباد ‘جو اِن کے شعری کلیات ہیں ‘میرے سامنے ہیں ‘ میں انہیں ورق ورق پڑھتا جارہا ہوں ۔ کہیں کسی شعر پر رکتا ہوں ‘ کہیں کسی غزل پر ‘کبھی کسی نظم پر۔ آگے بڑھنا مشکل ہونے لگتا ہے ۔کوئی لفظ‘کوئی شعرایک دم کسی یاد پر کلک کر کے سامنے ایک منظر روشن کردیتا ہے۔ منظر میں بہت کچھ ہے ۔ باکمال لوگ‘ گزرے منظر ‘ بیتی یادیں ۔لاہور ‘ اسلام آباد ‘فیصل آباد کی محفلیں ‘ مکالمے ‘ ٹیلی فون گفتگو ۔ کتنے شعر ‘کتنی نظمیں ‘ کتنے مصرعے ہیں جن کی آمد کے گواہوں میں ایک میں بھی ہوں ۔یہ کاغذ پر تو بعد میں اترے ‘ ذہن نے پہلے محفوظ کرلیے تھے۔ میں 'سخن آباد‘ پر گفتگو کر رہا ہوں اور توسنِ تخیل نے مجھے لگ بھگ25 سال پہلے کی اُس محفل میں جا اتارا ہے جہاں لاہور کے ایک ہوٹل میں جناب احمد ندیم قاسمی کی صدارت میں فیصل عجمی کی کتاب 'شام‘ کی تقریب ِپذیرائی ہے ۔ جناب فیصل عجمی کے ساتھ ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم بھی سٹیج پر موجود ہیں اور لاہور کے چیدہ چیدہ اہلِ قلم‘ اہلِ ادب تقریب کی رونق بڑھا رہے ہیں ۔ وہ محفلیں بھی ستاروں کے ایک جھرمٹ کی طرح جگمگا رہی ہیں جن میں لکھنؤ سے آئے ہوئے مہمان شاعر عرفان صدیقی ‘ ڈاکٹر ریاض مجید‘ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ‘ڈاکٹر توصیف تبسم‘ ثمینہ راجہ ‘فیصل عجمی اور سعود عثمانی بیش قیمت دن اکٹھے گزار رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی کتاب 'خواب‘ کی تقریب ِرونمائی ۔ان کی نظم گوئی کا دور ۔ان کے افسانوں' سونامی‘ کا آغاز ۔ بہت کچھ ہیروں کی اس صندوقچی میں موجود ہے اور ہیروں کی عمر بہت لمبی ہوا کرتی ہے۔
یہ معاملہ توکچھ لوگوں کے ساتھ ہے کہ ان کا فیصل عجمی کے ساتھ وقت گزرا ہے سو انہیں 'سخن آباد‘ کا ورق ورق روکتا ہے ‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس کمال کا یہ کلام ہے اس میں کسی بھی شعر شناس کے لیے اس سے سرسری گزرنا ممکن نہیں ۔میں قصداً یہاں 'مراسم ،‘'شام‘ اور' خواب‘ کے شعری مجموعوں سے شعر نقل نہیں کر رہا کہ ان پر میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔ اس کے باوجود شعروں کا انتخاب کروں تو لگتا ہے پوری کتاب ہی نقل کردی ۔
انہیں مٹی میں اترنے کی خبر ہے کہ نہیں /آئنہ خانہ بنے رہتے ہیں خوش رو تیرے
آنسوؤں کے غلاف میں جو تھی /اس دعا کا پتہ کیا جائے
سوچنا کیا سوال کرنے میں /سوچے سمجھے بنا کیا جائے
رشک آنے لگے زمانے کو /آج اتنا عطا کیا جائے
پودا جو ہاتھ میں ہو لگا دینا چاہئے/ہر چند سامنے ہو قیامت‘ حدیث ہے
توبہ کا در کھلا ہے گنہگار کے لیے /لگتا ہے یہ تو میری ہی بابت حدیث ہے
صوفیا کے عشائیے صاحب /کچھ کھجوریں ہیں آئیے صاحب
سانپ کتنے حسین لگتے ہیں /صورتوں پر نہ جائیے صاحب
پہلی دھڑکن ہی میاں وزن میں تھی شکر کرو/شاعری آج عنایت تو نہیں کی گئی ہے
تجھ کو خبر نہیں کہ تجھے بھولنے کے بعد/کتنا اضافہ ہوگیا میرے فراغ میں
دل میں کتنا شور بپا ہے‘شور سے خالی ایک صدا/آنے والی آوازوں میں جانے والی ایک صدا
رفتہ رفتہ رنگ بدلتی آوازیں سو جاتی ہیں /دن کی زردی ایک صدا ہے شام کی لالی ایک صدا
ایسا نہیں کہ کچھ بھی نہیں چاہیے میاں /درویش کو بھی نان جویں چاہیے میاں
اس معیار اور اتنی مقدار میں اعلیٰ شاعری کسی کو نصیب ہوجاناحرف عطا کرنے والے کا بڑا کرم ہوتا ہے ۔مضمون کی تازگی ‘ نئی مترنم اور چھو لینے والی زمینیں‘لفظوں کی مضبوط بندش اور کسا کسایا مصرع ۔ ان معاملات میں فیصل عجمی یکتا ہیں ۔ اوران کا اتنا ذخیرہ کسی ایک شاعر کے پاس نہیں ملتا۔یہ کوئی آسان رتبہ اور سہل مقام نہیں ہے۔ ایک عمر کی مشکل جھیل کر یہ آسانی نصیب ہوتی ہے۔سخن آباد پورا ہی انتخاب ہے ۔ اس کا مزید انتخاب کیسے کیجیے ۔
عشق میں سارا جہاں چھوڑ دیا/عشق بھی بعد ازاں چھوڑ دیا
پکارتا ہوں تو جانے کہاں سے آتے ہیں /وہ ہاتھ مجھ کو بچانے کہاں سے آتے ہیں
زمین اپنے خزانے لٹاتی رہتی ہے /مگر زمیں میں خزانے کہاں سے آتے ہیں
چہرہ بدل کے وہ تو زمانے کا ہوگیا/نقصان کتنا آئنہ خانے کا ہوگیا
کہو ستارۂ شب سے کہ حوصلہ رکھے/میں روشنی کا کوئی انتظام کرتا ہوں
فیصل عجمی قدرے تاخیر سے نظموں کی طرف آئے لیکن باعثِ تاخیر بہرحال ان کی غزل تھی ۔کیسی کمال نظمیں ہیں جو سخن آباد میں ہیں اور جن کے طاقت ور اور منفرد مصرعے اپنی جگہ مکمل کہانیاں ہیں ۔ ان کی یہ نظم جس کا ذائقہ دیگر نظموں سے بالکل الگ ہے ‘نہ بھولنے والی نظم ہے ۔ اس منظر ‘ اس لمحے اور اس کیفیت کو گرفت کرنا اور ایسے کمال طریقے سے گرفت کرنا
میں اپنا آخری حصہ ہوا سے لے چکا ہوں
مگر آنکھیں ابھی تک نیم وا ہیں
وہ سب چہرے کہ جن کے نقش آپس میں ذرا ملتے ہیں
اندر آچکے ہیں
ہجوم وارثاں ہے اور میں ہوں
اثاثے کاغذوں میں بند رکھے ہیں
انہیں کھولو
مگر تقسیم سے پہلے
مری آنکھیں ذرا آہستگی سے بند کردو
یہ جو سخن آباد کی پذیرائی ہے اس میں فیصل عجمی عجیب طریقے سے شریک ہوئے ہیں ۔ ان کی موجودگی اور غیر موجودگی ان کے کلام اور ان کے سکوت کے ساتھ ہے۔اور یہ شمولیت طرفہ شمولیت ہے۔ انہوں نے خود کہا بھی تو ہے
یہ جو انعام حرف ہے فیصل
خامشی پر دیا گیا ہے مجھے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved