بھارت کی ریاست گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد کے ایک انتہائی پوش علاقے میں ایک زیر تعمیرگھر کے باہر نام اور عہدے کی تختی پر نظر پڑتے ہی وہ شخص پلٹا اور اپنی عینک کے شیشوں کو صاف کرتے ہوئے نام کی تختی دوبارہ غور سے دیکھ کر ایسے اچھلا جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔ نام کی تختی اور زیر تعمیر گھر کو دیکھتے ہوئے اس شخص کے چہرے پر پھیلنے والے غصے اور ناگواری کے تاثرات سے لگا کہ اس گھر کے مکین سے یا تواس کی کوئی بہت ہی پرانی دشمنی ہے یا پھر یہ گھر اُس کا ہے جس کے باہر لگی کسی دوسرے کے نام کی تختی نے اُسے آپے سے باہر کر دیا ہے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ ابھی اور اسی وقت اس نیم پلیٹ یا گھر کو بلڈوز کر دے گا۔ اس زیر تعمیر گھر کے باہر لگی تختی ایک ایسے ذہین دلت کی تھی جو اپنی قابلیت اور بہتر ین تعلیمی کارکردگی کی وجہ سے انڈین پولیس سروس میں ترقی کرتے ہوئے ایک بڑے عہدے تک جا پہنچا تھا اور اس نے سروس کے اختتامی سالوں میں گجرات کے شہر احمد آباد میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے نئے گھر کی تعمیر شروع کر رکھی تھی لیکن وہ دلت پولیس افسر اس بات سے مکمل بے خبر تھا کہ اس ہائوسنگ سوسائٹی میں اس کی ذات نے ایک ہنگامہ اور بے چینی پھیلادی ہے۔ ایک ہنگامی نوٹس پر اگلے ہی دن ہائوسنگ سوسائٹی کے عہدیداروں اور تمام ممبرز نے متفقہ فیصلہ کر لیا کہ اس دلت کو ہندوؤں کی سوسائٹی میں رہنے اور گھر کی تعمیر سے روک دیا جائے۔ اگلے ہی دن سوسائٹی سے ملنے والے خط نے اس دلت پولیس افسر کو انتہائی رنجیدہ کر دیا جس پر اس نے سوسائٹی سے باقاعدہ احتجاج کیا۔ لیکن اس کے احتجاج پر توجہ دینے کے بجائے اسے وارننگ دے دی گئی کہ ہندو کمیونٹی میں کسی اچھوت اور شودر کو گھر خریدنے یا کرایہ پر لینے کی اجا زت نہیں دی جا سکتی۔ تمہارے پلاٹ اور اب تک گھر کی تعمیر پر جو اخراجات ہو چکے ہیں اس کی قیمت لگوا کر یہ پلاٹ سوسائٹی کے حوالے کر دو۔ کسی بھی صورت کوئی شودریا دلت یہاں گھر نہیں بناسکتا۔
بھارت میں دلتوں‘ شودروں‘ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک برسوں سے جاری ہے اور شاید آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس کی تازہ ترین مثال بھارت کے چوٹی کے اداکار عامر خان کو اگلے روز دی جانے والی دھکمی ہے۔چند روز قبل مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے عامر خان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوئوں کی بہت بڑی اکثریت آپ کے کچھ فلمی ڈائیلاگ کی وجہ سے آپ کی فلموں کا بائیکاٹ کرتی چلی آ رہی ہے اور اس کا اندازہ آپ کو اپنی حالیہ فلم کی ریلیز کے بعد بھی اچھی طرح ہو چکا ہے۔ اب میرے پاس پھر سے آپ کی شکایت آئی ہے کہ آپ نے ایک ٹی وی کمرشل میں اعلیٰ جاتی ہندو گھرانے کی شادیوں کے مناظر میں ایسے فقروں اور رسومات کی اداکاری کی ہے جس سے ہندو سماج میں سخت غم و غصہ پھیل رہا ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو درست کر لیں ورنہ ہم مشتعل ہندوئوں کی جانب سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کریں گے۔
یہ آج کی کہانیاں نہیں بلکہ 12ستمبر 2012ء کی شام بھارت کی مشہور ترقی پسند اور سیکولر اداکارہ شبانہ اعظمی نے بھارت کے ایک نجی ٹی وی چینل پر میڈیا کے سامنے روتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے شوہر جاوید اختر نے‘ جو بھارت کے مشہور ترین فلمی شاعر ہیں‘ جب ممبئی کی ایک پوش سوسائٹی میں فلیٹ کرایہ پر لینے کی کوشش کی تو انہیں ہر جگہ یہ کہتے ہوئے گھر دینے سے منع کیا جاتا رہا کہ وہ مسلمان ہیں‘ انہوں نے لاکھ کہا کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان ہیں لیکن انہیں کہا گیا کہ چاہے کچھ بھی ہو چونکہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں اس لیے انہیں ان آبادیوں میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی رئیل سٹیٹ بزنس والے انہیں کرایہ پر گھر لے کر دینے کے مجاز نہیں۔ شبانہ اعظمی کے اس ٹی وی انٹرویو کے بعد بھارت کا انتہا پسند ہندو میڈیا اور فلمی دنیا سے منسلک انہی کی سوچ کے حامل ہندو شبانہ اعظمی کے خلاف آگ اگلنا شروع ہو گئے۔ بھارت میں آج بھی ہندو آبادیوں میں مسلمانوں‘ دلتوں اوردوسری جاتی کے لوگوں کو‘ چاہے وہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہوں‘ اپنا گھر بنانے یا گھر کرایہ پر لینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ چند برس ہوئے ایک مسلمان نے جو سکریپ میٹل ڈیلر ہیں‘ بھون نگر سینی ٹوریم روڈ پر ایک بہت ہی پرانی حویلی نما کوٹھی خریدنے کے بعد جب اس کی مر مت اور رنگ و روغن کا ارادہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے کام کرنے والے مزدوروں کو مار پیٹ کر بھگانے کے بعد بی جے پی کا قبضہ گروپ پیتل کی تھالیاں اور گڑویاں لے کر اس حویلی کے سامنے بیٹھ کر سارا دن اور رات مختلف قسم کی پرارتھنائیں اور ساز بجاتارہا۔ اگلے دن مودی کے نائب پراون گاڈیا نے اس حویلی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے ہندوئوں کو کہا کہ پتھر‘ ٹائر لے کر اس حویلی پر حملہ آور ہو جائو‘ کسی سے مت ڈرو‘ کسی مسلمان کو اس حویلی کے اندر مت گھسنے دو۔ جب یہ خبر میڈیا تک پہنچی تو وہاں پر چار پولیس والے تعینات کر دیے گئے لیکن ہوا یہ کہ یہ خبر میڈیا پر آنے کی وجہ سے دور دور سے انتہا پسند ہندوؤں کا ہجوم حویلی کے باہر اکٹھا ہونا شروع ہو گیا جس کے بعد حویلی لینے والی اُس مسلمان فیملی کو بمشکل وہاں سے نکالا گیا اور بعد میں بھی کسی مسلمان کو اس حویلی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا گیا۔
1947ء میں مسلمانوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریز اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کی جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آ یا۔ بد قسمتی سے تحریک آزادیٔ پاکستان کے دوران اور تکمیل پاکستان کے بعد آج تک ہزاروں کی تعداد میں ترقی پسند کہلانے والے چند نام نہاد دانشور‘ صحافی اور شاعر مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں لیکن وقت نے انہیں ہمیشہ غلط ثابت کیا ہے۔آج جو سلوک بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے وہ اُن کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ نام نہاد سیکولر بھارت میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ بھارت کی سیکولر ازم کا پول کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ بھارت میں نہ مسلمانوں کو کاروبار کرنے کی آزادی حاصل ہے اور نہ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کی۔ آئے دن وہاںمسجدیں مسمار کی جاتی ہیں۔ ہندو نواز حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلمانوں کے گھر بلڈوز کر دیے جاتے ہیں۔ اُن کی خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے لیکن حکومت اور بھارت کی نام نہاد سول سوسائٹی نہ صرف خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ پس پردہ اس کی حمایت بھی کر رہی ہے۔
بھارت میں اقلیتوں اور نچلی جاتی والوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے ہی آج مقابلے کے ا متحان میں کامیابی حاصل کرکے انڈین پولیس سروس میں اچھا عہدہ حاصل کرنے والا کوئی بھی اقلیتی نمائندہ وزیراعظم مودی کے آبائی شہر گجرات کی رہائشی کالونیوں میں نہ تو گھر بنا سکتا ہے اور نہ ہی کرائے پر گھر لے سکتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ بھارت سرکار نے ملک میں رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والوں کو خصوصی ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ ہندو آبادیوں میں مسلمانوں کے لیے کوئی بھی گھر یا فلیٹ خریدنا یا کرایہ پر لینا منع ہے۔احمد اور حلیمہ قاضی جو بھارت کے سیکولر ازم اور جمہوریت کے گن گانے والوں میں سب سے پیش پیش رہتے تھے‘ ممبئی کے وسطی علا قہ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے‘ جب ان کی فیملی ممبران کی تعداد بڑھی تو انہوں نے ایک بڑا فلیٹ خریدنے کا سوچا۔ وہ ممبئی کے گردو نواح میں کھلی جگہوں پر بننے والی بہت سی رہائشی سکیموں میں گئے لیکن انہیں ہر جگہ یہی جوب سننا پڑا کہ یہاں رہنے والے ہندوؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کی ہمسائیگی میں کسی مسلمانوں کو گھر لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارتی ڈرامہ انڈسٹری کے ایک مشہور مسلمان اداکار‘ جسے ہلال اور حرام میں بھی کوئی تمیز ہی نہیں تھی اور وہ صرف نام کا مسلمان تھا‘ نے جب ممبئی میں پرانی آبادی چھوڑ کر نئی جگہ کرایے پر گھر لینا چاہا تو اسے ہر جگہ یہ سنتے ہوئے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ مسلمان ہے‘ اس لیے یہاں گھر نہیں لے سکتا! اس اداکار نے آخر کار ممبئی ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور استدا کی کہ اقلیتوں کو بھارت میں راستے کے پتھر کی طرح ٹھوکروں پر رکھنے کے بجائے انہیں ہائوسنگ سوسائٹیوں میں گھر لینے کی اجازت دی جائے اور مسلمانوں‘ دلتوں یا کسی بھی اقلیت کو سر چھپانے کیلئے کرایے پر گھر لینے یا خریدنے میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں وہ دور کی جائیں جس پر ممبئی ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ 2002ء کے تحت رہائشی بلڈرز کو اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں گھر دیں انہیں کسی مسلم‘ دلت یا شودرکو گھر بیچنے یا کرایے پر دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکتا!
یہ ہے سیکولر بھارت کا وہ گھناؤنا چہرہ جسے دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved