تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     16-10-2022

آخری ہجرت … (2)

سبز رنگ کے رِبن کا آج کل بہت پرچار ہو رہا ہے جو بظاہرذہنی صحت کی علامت ہے لیکن اصل میں یہ ذہنی انتشار‘ ہیجان‘ اضطراب اور دیگر ذہنی مشکلات کے تیزی سے بڑھنے اور ان سے لڑنے کی ترا کیب کی آگاہی کی علامت ہے۔ سبز رنگ کا چناؤ اس لیے بھی بہت اچھا اور معنی خیز ہے کہ ذہنی تناؤ جیسی مشکلات سے بچنے کے لیے سبزے اور ہریالی کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ پودوں‘ درختوں یا پھر کسی بھی قسم کی سبز نباتات کے لیے بھی سبز رنگ ہی کی علامت استعمال ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اکتوبر کے مہینے میں آفات کے خطرے کو کم کرنے کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ جہاں تک دنیا میں سرسبز علاقوں یا درختوں کی کمی کا تعلق ہے تو اس سے بڑی قدرتی آفت کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ درختوں کی کمی کی وجہ سے ہی قدرتی ماحول مزید آلودہ ہو رہا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے ماحول میں گھٹن بڑھتی ہے جس سے ذہنی امراض یا ان امراض کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اسی مہینے میں پرندوں کی ہجرت کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ یہ پرندے سخت سرد علاقوں سے معتدل موسم کے حامل علاقوں کی جانب ہجرت کرتے ہیں لیکن ان پرندوں کو بھی اب ایک مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ معتدل موسم والے علاقوں‘ یعنی ہمارے خطے میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ان پرندوں کو ہجرت میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ اب تو انسان بھی زیادہ آلودگی اور پانی کی کمی والے ممالک سے دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس ہجرت کو دنیا کی آخری ہجرت اس لیے قرار دیا جا رہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی بیشتر ممالک کی تباہی کی وجہ ہے۔ خاص طور پر یہ تباہی مکمل اور یقینی اس لیے بھی ہو جاتی ہے جب اس آلودگی کے سد باب کے بجائے اس کا باعث بننے والے عوامل اور محرکات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہو۔ اس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ اس کا مکمل ادراک بھی نہیں ہے اور متعلقہ ادارے محض خبروں کی حد تک اپنی کارکردگی دکھا رہے ہوں۔
اب پرندوں کی بات تفصیل سے کی جائے تو قدرت نے انہیں دو بہت انوکھی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ ان میں سے ایک تو زلزلے یا دیگر قدرتی آفات کا وقت سے پہلے پتا چلنا ہے‘ جس کی وجہ سے پرندے نہ صرف اس آفت سے قبل اپنے گھونسلے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ اپنی آوازوں سے انسانوں کو بھی آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اگر آپ نے کسی علاقے کی آب و ہوا یا ماحول کی حالت اور معیار کا اندازہ لگانا ہو تو اس علاقے میں پائے جانے والے پرندوں کی اقسام اور تعداد سے بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر کسی علاقے میں پرندے کم پائے جائیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اس علاقے میں درختوں کی تعداد کم ہے یا پھر آلودگی بہت زیادہ ہے۔اس کے بعد اگر کسی علاقے میں کوے اور چیلیں زیادہ پائی جائیں تو اس کا بھی صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ اس علاقے میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ کوا ایک ایسا پرندہ ہے جو غلاظت والی اشیا بھی کھا جاتا ہے۔ اس سے قدرے کم درجے میں چیلیں بھی غلاظت کے ڈھیروں سے اپنی خوراک حاصل کر لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ گدھ نامی پرندہ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ آپ کے علاقے میں کس قسم کے پرندے زیادہ پائے جاتے ہیں اور مزید اہم بات یہ ہے کہ پرندے پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں؟ اس کی مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران جبکہ شہر میں لاک ڈائون تھاا ور ٹریفک کم ہونے سے آلودگی بھی کم تھی تب لاہور شہر کے زیادہ درختوں والے علاقوں‘ بالخصوص پنجاب یونیورسٹی میں جنگلی طوطے دیکھنے کو ملے تھے لیکن لاک ڈائون کے بعد ٹریفک اور آلودگی زیادہ ہونے کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ ختم ہوگیا۔ چلیں اب ہو سکے تو پرندوں کی دانش اور معیارِ زندگی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔
اب چلتے ہیں اقوام متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کی طرف‘ جس کے مطابق دنیا کے آدھے سے زیادہ ممالک کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی خاص بندوبست نہیں ہے۔ ان ممالک میں ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ پورا خطہ شامل ہے۔ اس خطے کو جنوبی ایشیاء اور ماحول کی خرابی کے حوالے سے خونی یا جنونی ایشیا کہا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس خطے میں آلودگی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یعنی آبادی میں اضافہ‘ دنیا میں سب سے زیادہ ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس خطے میں سموگ سے نمٹنے کے لیے ایک مخصوص قسم کے سرکاری جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا۔ اینٹیں بنانے والے بھٹے جو انتہائی گھٹیا قسم کا کوئلہ استعمال کرتے ہیں اور آلودگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں‘ تمام جنوبی ایشیا میں چل رہے ہیں۔ اب ذرا ان اینٹوں کے بھٹوں کو تھوڑا غور اور تفصیل سے دیکھیں تو آپ کو ادراک ہوگا کہ پاکستان اور بھارت میں سالانہ لاکھوں گھر تعمیر ہوتے ہیں۔ ان گھروں کی تعمیر کے لیے اینٹوں کی ضرورت تو پڑے گی۔ ان اینٹوں کے بھٹوں کو ایک جدید 'زِگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جائے تو آلودگی کم ہو سکتی ہے مگر ایسا کرنے سے ان بھٹوں کے مالکان کا منافع کم ہوتا ہے‘ جس کی وجہ سے یہ تمام اینٹوں کے بھٹے نئی ٹیکنالوگی پر منتقل نہیں ہوتے۔ آپ کسی بڑی سڑک پر لمبے سفر کے لیے نکلیں تو آپ کو دونوں اطراف ایسے اینٹوں کے بھٹے بڑی تعداد میں نظر آئیں گے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کیا جاتا ہے کہ جب سموگ پوری طرح چھا جاتی ہے تو پھر ان اینٹوں کے بھٹوں کو بند کروا دیا جاتا ہے۔ اس کو انگریزی میں بجا طور پر Too little too late کہا جاتا ہے۔ باقی کچھ اندازہ آپ اپنے گردو نواح کا بھی لگا لیں اور یہ اندازہ لگاتے وقت اپنی موٹر سائکل یا گاڑی کے انجن کی حالت کا اندازہ ضرور لگائیں اور یقینی بنائیں کہ کہیں یہ تو دھواں نہیں چھوڑ رہی۔ اگر ایسا ہے تو اس کی فوراً ٹیوننگ کروائیں جس سے ماحول کی حفاظت کے ساتھ آپ کے پٹرول کی بچت بھی ہو گی۔
آپ کے گھر میں اگر درخت لگانے کی جگہ ہے تو اس میں ایک سایہ دار قسم کا درخت ضرور لگا لیں‘ اسی کے ساتھ ہو سکے تو ایک بیل بھی لگا لیں جو دیوار کے ساتھ ساتھ گھر کی چھت تک چلی جائے۔ یہ درخت اور بیل ہی وہ دو ذرائع ہو سکتے ہیں جو آپ کے گھر میں کسی حد تک آکسیجن کی مقدار کو بڑھا سکتے ہیں۔ مزید وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اگر آپ کے گھر کا سائز بڑا ہے تو اس میں جتنے زیادہ ہو سکے درخت لگائیں۔ اس سلسلے میں لاہور کے پوش علاقوں میں ایک مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان علاقوں میں گھروں کا اوسط رقبہ زیادہ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ زیبائشی پودوں کو ہر گز ترجیح نہ دیں کیوں کہ آپ کو صاف ہوا کی ضرورت ہے نہ کہ خوبصورتی کی۔ ایک اور بات یہ مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگ لاہور جیسے شہر میں انجیر‘ آڑو‘ کھجور جیسے پودے لگانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ پہلے سائے یعنی چھائوں کا بندوبست کریں نہ کہ چند ایسے درخت لگانے کی کوشش کریں جو کسی اور آب و ہوا اور علاقے کے ہیں اور لاہور جیسے علاقے میں نیم کچا اور انتہائی کم مقدار میں کوئی پھل دیتے ہیں۔
درخت لگاتے ہوئے اپنے بچوں کو اس عمل میں ضرور شامل کریں تاکہ ان میں بھی شجر کاری کا رجحان پروان چڑھ سکے اور شاید اگلی نسل‘ ہمارے برعکس درختوں کو اپنی زندگی کا لازمی جزو سمجھ سکے۔ واضح رہے جس طرح انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے‘ اسی طرح ماحول کی صفائی میں بنیادی اہمیت رکھنے کی وجہ سے ماہرین درختوں کو افضل المخلوقات کا درجہ دے رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved